Hazrat Khadija
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ
10 رمضان المبارک یوم وصال حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہ، ان کا نام خدیجہ کنیت ام ہند اور نیک سیرت کی وجہ سے لقب طاہرہ ملا تھا، ان کا نسب عبد العزی بن قصی پر جا کر نبی کریم ﷺ کے خاندان سے جا ملتا تھا، حضرت خدیجہ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز شخص تھے۔ مکہ آکر اقامت کی، یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل خدیجہ پیدا ہوئیں۔
حضرت خدیجہ کی پہلی شادی ابو ہالہ تمیمی کے ساتھ ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے ہالہ اورہند، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام بھی ہند تھا۔ کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ نے شادی کا خیال دل سے نکال کراپنے والد کی وفات کے بعد ان کی تجارت کو سنبھالنا شروع کر دیا۔ حضرت خدیجہ اپنا سامان تجارت مقررہ اُجرت پر دیا کرتی تھیں اور اُنہیں اس مقصد کے لیے امانت دار اور شریف النفس شخص کی تلاش تھی۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت محمدبن عبداللہ ﷺ کی امانت اور دیانت کا پورے عرب میں چرچا تھا اور آپ ﷺ پورے عرب میں "امین اور صادق"کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ حضرت خدیجہ نے آپ ﷺ کو پیغام پہنچایا کہ آپ میرا سامانِ تجارت شام لے جائیں تو میں آپ کو دوگنا اجر دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس پیشکش کو قبول فرمایا اور حضرت خدیجہ کا سامان تجارت کے لیے شام لے کر گئے۔ شام کے اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھا۔ راستے میں راہب والاواقعہ پیش آیا کہ جس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھتے ہی فرمایا:"بلاشبہ یہ نبی ہیں اور آخری نبی"۔ پھر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے خود بھی نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے چند واقعات دیکھے، مثلاً اس نے دیکھا کہ دھوپ میں دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔
سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہ کے گوش گزار کی اور آپ ﷺ کی صداقت اور امانت کا بھی ذکر کیا۔ اس سے حضرت خدیجہ کے دل میں آپ ﷺ سے شادی کی خواہش پیدا ہو گئی۔ قریش کا جو شخص بھی نکاح کے قابل تھا وہ حضرت خدیجہ سے شادی کا خواہش مند تھا، لیکن آپ نے رحمۃٌ للعالمین محمد بن عبد اللہ ﷺ سے شادی کی خواہش ظاہرکی اور اپنی سہیلی نفیسہ بنت اُمیہ کو شادی کا پیغام دے کرنبی کریم ﷺ کے پاس بھیجا، نفسیہ سے گفتگو کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا تو انہوں نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا، اور اس طرح نبی آخر الزماں ﷺ اور حضرت خدیجہ کبری کے نکاح کی تقریب حضرت خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔ آپ ﷺ اپنے چچا اور چند دوسرے رشتہ داروں، مثلاً حضرت حمزہ کے ہمراہ وقت ِمقررہ پر ان کے گھر گئے اور وہاں حضرت خدیجہ کے رشتہ دار موجود تھے، جن میں عمرو بن اسد اورورقہ بن نوفل قابل ِذکر ہیں۔ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب نے عرب کے روا ج کے مطابق نکاح کا خطبہ پڑھا اور بعض تاریخی روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت خدیجہ کی طرف سے ورقہ بن نوفل نے جوابی کلمات کہے ۔ شادی کے وقت نبی مکرم ﷺ کی عمر25 سال اور حضرت خدیجہ کی 40 سال تھی۔
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی زندگی مسلم خواتین کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں، آپؓ نے صرف نبوت کی تصدیق نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں نبی کریم کی معین ومددگار بھی ثابت ہوئیں۔ آپؓ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپؓ ناصرف نبی کریم کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہرقدم پران کی مددکیلئے بھی تیار رہتی تھیں، آپؓ خاندان قریش کی ممتاز اور باوقار خاتون تھیں دعوت اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین مکہ نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیں تو آپؓ انہیں تسلی وتشفی دیتیں، ام المو منین حضرت خدیجتہ الکبریؓ نبی اکرمﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور دین اسلام کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ آپکو حضور ﷺکی پہلی زوجہ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ غریب پروری اور سخاوت حضرت سیدہ خدیجہ ؓ کی امتیازی خصوصیات تھیں، حضرت خدیجہ ؓجب تک حیات رہیں آپکی موجود گی میں آپﷺ نے کسی خاتون سے نکاح نہیں کیا، سیدہ خدیجہ نے حضور اکرمﷺ سے والہانہ محبت کی، آپﷺ کیلئے راحت و آرام کے تمام اسباب مہیا کئے۔ خوشحالی کے تمام تر پہلو آپ پر نچھاور کئے۔ رسول اللہﷺ کی پسند حضرت سیدہ خدیجہ ؓ کی پسند تھی۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب لوگوں نے میری تکذیب کی انہوں نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے بے سہاراکرنا چاہاانہوں نے مجھے سہارادیااور میری مددکی، رسول اللہ ﷺ کی حضرت خدیجہ کے ساتھ ازدواجی زندگی امت کے لیے رول ماڈل کی حیثیت ہے امت کو اس میں سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کیسے ایک مکمل زندگی گزاری جا سکتی ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ کیسے محبت اور وفا کے زندگی گزاری، آپ ایک خدمت گزار اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئیں۔
آپ نے نبی اکرم ﷺ کی ساری ضرورتوں اور آرام کا خاص خیال رکھا اور آپ نے اپنا سارا مال و دولت نبی کریم ﷺ کے حوالے کر دیا۔ حضرت خدیجہ جب تک زندہ رہیں آپ نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جو آپ ﷺ کو ناپسند ہو یا آپ ﷺ کی مرضی کے خلاف ہو آپ ﷺ جب غار حرا میں غور و فکر کے لیے جاتے تو آپ نبی کریم ﷺ کے لیے کھانا لے کر جاتیں، حالاں کہ غار حرا مکہ کی آبادی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے اور اس کی چڑھائی بھی کافی مشکل ہے، لیکن آپ نے یہ سب کام بہ خوشی کیے، سیماب اکبر آباد ی نے حضرت خدیجہ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
"حضرت خدیجہ حسین بھی تھیں، دولت مند بھی تھیں، شریف النسل بھی تھیں، شریف الخیال بھی تھیں اور سب سے زیادہ جو فضیلت ان میں تھی وہ یہ ہے کہ اپنے شوہر کی بے حد اطاعت گزار تھیں، حضرت خدیجہ کی اسلام کے بارے میں بہت خدمات ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور طرح طرح کے مظالم آپ ﷺ پر ڈھائے گئے۔ ایسے مواقع پر حضرت خدیجہ کی تسلی اور حوصلہ مرہم کا کام دیتا تھا۔ ا س کے علاوہ نبی مکرم ﷺ کو مشرکین کی تردید اور تکذیب سے جو صدمہ پہنچتا وہ حضرت خدیجہ کے پاس آکر دور ہوجاتا، کیوں کہ وہ آپ ﷺ کو تسلی دیتیں، حوصلہ افزائی کرتیں اور مشرکین عرب کی بدسلوکیوں کو ہلکا کرکے پیش کرتی تھیں۔ اس حوالے سے اُ ن کا یہ قول تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ وہ فرماتیں:"یا رسول اللہ!آپ رنجیدہ نہ ہوں، بھلا کوئی ایسا رسول آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیا ہو۔"
حضرت خدیجہ کی وفات اسلام اور نبی کریم ﷺ کے لیے بہت بڑا سانحہ تھی حضرت خدیجہ نبوت کے دسویں سال اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں۔ نبی کریم ﷺ کو اُن کی جدائی کاحد درجہ افسوس اور دکھ تھا۔ آپ ﷺ نے اس سال کو "غم کا سال"قرار دیا، اس لیے کہ اس سال آپ ﷺ کی دو قابل قدر ہستیاں اس دنیا سے کوچ کرگئیں:ایک آپ ﷺ کے سرپرست چچا ابوطالب اور دوسری آپ ﷺ کی خدمت گزار اور وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ کبری، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی کوہ حجون کے دامن میں، مقبرہ معلیٰ یا جنت المعلیٰ میں سپرد خاک کیا۔ یوں دنیا کی تمام عورتوں کے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھنے والی ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کا اختتام ہوا، انہوں نے اپنی مکمل زندگی میں دنیا کی تمام عورتوں کو وہ چیزیں بتائیں جں پر چلتے ہوئے ہر عورت سکون سے رہ سکتی ہے، کاروبار بھی کیا نکاح بھی کیا نکاح کے بعد نبی کریم ﷺ کے ساتھ برتاؤ بھی ایسا کہ دنیا حیران کہ عمر کے اتنے فرق کے باوجود اتنی محبت اور عقیدت نبی کریم ﷺ کی ہر بات پر آمین کہنے والی آپ ﷺ پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان والی اور پہلی ام المومنین نے قیامت تک کی عورتوں کو اپنی عملی زندگی میں پیغام دیا کہ اسلام کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو اس طرح سے خوشحال رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن افسوس آج امت مسلمہ کی خواتین کس رستے پر چل رہی ہیں یہ آزادی کے نام پر باہر نکلنا چاہتی ہیں یہ مردوں کے برابر حقوق طلب کرتی ہیں یہ بے حیائی کا لباس پہن پر عزت طلب کرتی ہیں یہ مردوں کے برابر کام کر کے خود کو ممتاز ثابت کرنا چاہتی ہیں، یہ تو اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں اسلام تو عورت کو عزت سے گھر رہنے کا حکم دیتا ہے عورت کو جتنی عزت و احترام ہمارے دین اسلام نے دی ہے دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہے کہ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے اس کے قدموں تلے جنت ہے، بہن ہے تو اس کی حفاظت کرنے والا ایک محافظ بھائی ہے، اگر بیوی کی شکل میں ہے تو محبت اور احترام کرنے والا شوہر ہے یہ عورت کا مقام ہے اگر یہ مقام خواتین پہچان جائیں تو ان کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو اور ایسا تب ہو گا جب خواتین امہات المومنین کی سیرت پڑھیں گی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی اور پھر دیکھیں گی کہ اسلام نے عورت کو کیا عزت اور مقام عطاء فرمایا ۔