Farq Parta Hai
فرق پڑتا ہے
دنیا میں بے شمار ساحل ہیں جہاں سمندر ہے وہاں ایک ساحل کی پٹی آتی ہے اور ہر ساحل کا نظارہ دوسروں سے مختلف ہے آپ کراچی کا ساحل دیکھ لیں اور طرح کا ہے دبئی کا دیکھ اور طرح کا ہو گا بالکل اسی طرح دنیا میں ایک ساحل ہے کیلیفورنیا کا اس کی خاص بات یہ ہے کہ جب پانی ساحل پر ریت پر آتا ہے تو اس پانی کے ساتھ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں سٹار فش (ایک مچھلی کا نام) اس ساحل پر آجاتی ہیں پانی دوبارہ آئے تو واپس سمندر میں چلی جاتی ہیں ورنہ وہیں گیلی ریت پر پڑی مر جاتی ہیں، یہ روزانہ لاکھوں مرتی ہیں لیکن پھر اللہ کی قدرت سے یہ کروڑوں کی تعداد میں پیدا ہو جاتی ہیں، اس ساحل پر کسی نے ایک بچے کو دیکھا احساس و جذبات رکھنے والا بچہ وہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے مچھلی اٹھاتا اور واپس سمند میں پھینک دیتا، اس بچے کو دیکھنے والا شخص ریٹائرڈ آرمی آفیسر تھا سگار کا کش کھینچ کر سوچا کہ لاکھوں سٹار فش پڑی ہیں اس بچے کے پھینکنے سے کیا فرق پڑے گا؟
یہ وہ سوال ہے جو میرے آپکے اور اس دنیا کے تمام انسانوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ اگر آج میں کوئی اچھا کام کر لوں گا تو کیا فرق پڑے گا، اگر آج میں سچ بول دوں گا تو کیا فرق پڑے گا، اگر آج میں انصاف کر دوں گا تو کیا فرق پڑے گا، اگر آج میں کسی غریب کی مدد کر دوں گا تو کیا فرق پڑے گا، اگر آج میں اپنے حق کے کے لئے کھڑا ہو جاؤں گا تو کیا فرق پڑے گا، اگر آج میں کوئی اچھا کام کر لوں گا تو کیا فرق پڑے گا ، اگر آج میں کچھ اچھا لکھ دوں گا تو کیا فرق پڑے گا؟ صرف میرے ایک آدمی کے بدلنے سے کیا فرق پڑے گا یہ وہ سوال ہے جو ہم روز سوچتے ہیں اور پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر دنیا کے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں، لیکن ایک انسان کے بدلنے سے بھی فرق پڑتا ہے اگر بدلنے والا محمد علی جناح ہو تو وکالت سے ملک بھی بن جاتے ہیں بدلنے والا علامہ محمد اقبال ہو تو شاعری سے قومیں بھی بن جاتی ہیں، جی ہاں اور اگر بدلنے والا عبدالستار ایدھی ہو تو ایک فاؤنڈیشن بن سکتی ہے، لیکن ہم میں وہ ہمت وہ جذبہ نہیں ہے کہ ہم کسی کی لیڈ کر سکیں ہم کھڑے ہو سکیں ہم بول سکیں ہم میں وہ ہمت نہیں ہے اسی لئے ہم دنیا میں اتنے پیچھے ہیں۔
میں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں، وہ ریٹائیرڈ آرمی آفیسر چلتا ہوا بچے کے قریب آیا بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کہ کیا فرق پڑے گا۔۔۔۔۔؟ بچے نے اسکی طرف دیکھا نیچے جھکا ایک مچھلی اٹھائی اور واپس پانی میں پھینکتے ہوئے ایک کمال کا جواب دیا کہ " اسے فرق پڑے گا"۔۔
یہ وہ احساس تھا وہ جذبہ تھا جس کے تحت وہ بچہ یہ سب کر رہا تھا اور جی ہاں ہم سب اس احساس سے گزر چکے ہیں ہم چھوٹے ہوتے تھے ہم میں احساسات ہوتے تھے کہ اگر ہمارا بلی کا بچہ مر جاتا تھا ہم اسکے لئے بڑے جذباتی ہوتے تھے اور کئی کئی دن اس کے بارے میں سوچتے رہتے تھے، اب اپنے خون کے رشتوں میں لوگ مر جاتے ہیں پرواہ ہی نہیں ہوتی، دنیا داری رکھنے کے لئے چند آنسو بہا لیتے ہیں۔
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس میں جذبات اور احساسات ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتے ہیں، انسان کی فطرت محبت کرنا ہے، انسان کو نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے سکھانے والے ہمارے ماں باپ ہمارے رشتہ دار ہمارا معاشرہ اور ہمارے دوست ہوتے ہیں، کوئی بھی بچہ اپنی زندگی کا پورا فلسفہ صرف سات سالوں میں سیکھتا ہے انہی سات سالوں میں اسکی تربیت ہوتی ہے انہی سات سالوں میں اسے محبت۔
نفرت۔ احساسات سے عاری پتھر دل انسان بنایا جاتا ہے، جی ہاں یہ عمر 13 سال سے 19 سال کی عمر میں اس ایج میں انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے، جو بچہ ان سات سالوں میں خود کو سنبھال لیتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے، اس عمر میں بچے کے پاس تمام احساسات ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے اس عمر میں بچے کو غیروں کا درد بھی اپنا محسوس ہوتا ہے غیروں کی خوشیاں بھی اچھی لگتی ہیں لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویے اس بچے سے اسکے احساسات چھین لیتے ہیں پھر وہ بچہ نفرت بھی سیکھ جاتا ہے مجرم بھی بن جاتا ہے اور پتھر دل بھی بن جاتا ہے، پھر ایک وقت آتا ہے وہ بچہ جو بلی کے مرنے پر رو پڑتا تھا اب خون کے رشتے مر جاتے ہیں فرق نہیں پڑتا یہ سب تربیت کے اوپر منحصر ہوتا ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ یہ وہ لوگ تھے جن کی 13 سال سے 17 سال کی عمر میں تربیت اچھی ہوئی یہ وہ لوگ تھے جو ہمت و حوصلہ رکھتے تھے ان میں احساسات بھی تھے جذبہ بھی تھا انہوں نے تاریخ رقم کر دی رہتی دنیا تک انکا نام یاد رہے گا۔
ہم اگر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی بجائے صرف اپنی زندگی میں کچھ سٹیپ لے لیں تو ہم بھی کامیاب ہو جائیں گے ہمیں بھی ہماری آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی، یہ سب کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمارے پاس ایک ٹارگٹ ہو ایک مشن ہو کہ میں نے یہ کرنا ہے پھر آپ اس پر اللّٰہ کا نام لے کر محنت شروع کر دیں آپ کامیاب ہو جائیں گے۔
اللہ رب العزت کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں کیا ہیں رنگ، نسل، زبان، ذات، ان سب باتوں سے بالاتر ہو کر رب العالمین ہماری محنت کے صلے میں ہمیں نواز دیتی ہے، اللہ رب العزت بڑی غفور الرحیم ذات ہے وہ اپنے بندے کا حق کبھی نہیں رکھتی بشرطیکہ کہ انسان خود محنت کرنا شروع کرے انسان خود سے سب کچھ شروع کرے پھر اسے دیر نہیں لگے گی عبدالستار ایدھی بنتے پھر وہ لوگوں کے دلوں میں بھی راج کرے گا اور دنیا بھی قیامت کی صبح تک اسکے نام کی مالا جپتی رہے گی۔