Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Bara Leader

Bara Leader

بڑا لیڈر

نیلسن منڈیلا 1918ء میں پیدا ہوئے ان دنوں ساؤتھ افریقہ پر گوروں کا راج تھا اور سیاہ فاموں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے سیاہ فاموں کے لیے سکول۔ کالونیاں بس وغیرہ سب کچھ علیحدہ تھا سیاہ فام اھر اپنے ہی ملک میں سفر کرتے تھے تو انہیں ہر وقت اپنے پاس ایک پرمٹ رکھنا پڑتا تھا اور جب چاہے انہیں چیک کیا جا سکتا تھا اور اگر وہ پرمٹ نہ ہوتا تو انہیں سزا دی جاتی تھی۔ نیلسن چونکہ سیاہ فام تھا اس لیے اسے بھی یہ ساری تکالیف برداشت کرنی پڑی اس کے والد وفات پاگئے تھے اور یہ اپنے باپ کے ایک دوست کے پاس رہنے لگا اس نے اسے اپنے بیٹے جسٹس کی طرح ہی پالا اور تعلیم دلوائی۔ نیلسن اور جسٹس اعلیٰ تعلیم کے لیے جوہانسبرگ پہنچ گئے جوہانسبرگ میں نیلسن نے کوئلے کی کان میں نوکری کی بعد میں ایک فرم میں ملازمت کر لی نیلسن اتنا غریب ہو گیا تھا کہ اس کے پاس صرف ایک ہی سوٹ تھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے اور پانچ برس نیلسن نے وہی سوٹ پہنا۔ ان حالات میں بھی نیلسن نے یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ سے بی اے کی ڈگری حاصل کر لی اس کے بعد نیلسن نے قانون کی ڈگری لی اور 1962ء میں وکالت کی پریکٹس شروع کر کر دی جس سے اس کے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے لیکن ساؤتھ افریقہ کے حالات بدتر ہوتے گئے۔

اس وقت ساؤتھ افریقہ پر 9 فیصد گورے حکومت کرتے تھے جو نیدرلینڈ سے آئے تھے اور انہیں برطانیہ کی حمایت حاصل تھی انہوں نے 91 فیصد باقی لوگ جن میں زیادہ سیاہ فام تھے ان کو کچلنا شروع کر دیا ان حالات میں نیلسن بھی گوروں کے اس رویے کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا۔ 1948ء میں ساؤتھ افریقہ میں الیکشن ہوئے جن میں سیاہ فاموں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں تھی مقابلہ د گوروں کی پارٹیوں میں تھا اور نیشنل پارٹی نے جیت کر اپنی حکومت بنائی جو حد درجے کی نسل پرست پارٹی تھی۔ اس پارٹی نے 46 برس ساؤتھ افریقہ پر حکومت کی۔ انہی دنوں میں نیلسن نے اپنی جدوجہد کرنی شروع کر دی اور حکومت کے خلاف نکل کھڑا ہوا سیاہ فاموں نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے اور مختلف قوانین کی خلاف ورزی کرنے لگے۔ حکومت نے ان کے خلاف مقدمات درج کیے اور انہیں گرفتار کر لیا جن میں نیلسن بھی شامل تھا۔ یہ ضمانت پر رہا ہو گئے اور پھر مظاہرے شروع کر دیے ایسے ہی ایک مظاہرے میں پولیس نے 50 سے زائد سیاہ فاموں کو جان سے مار دیا جس کے بعد ملک میں افراتفری کا عالم پیدا ہو گیا۔

نیلسن منڈیلا نے ملک بھر کے مظاہروں کو لیڈ کرنا شروع کر دیا کئی مہینے تک پولیس نیلسن کو تلاش کرتی رہی لیکن نیلسن ہاتھ نہ آیا۔ اور جعلی پاسپورٹ پر ملک سے نکل گیا اس پاسپورٹ پر اس نے ایتھوپیا۔ مصر سمیت کئی ممالک کا دورہ کیا اور وطن واپس لوٹا تو اسے گرفتار کر لیا اس پر مقدمات چلائے گئے اور عمر قید کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا کو جیل میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسے اپنی ماں اور بیٹے کی وفات پر بھی شرکت کی اجازت نہ ملی۔ نیلسن منڈیلا اٹھارہ برس قید کاٹ چکا تھا اس دوران ساؤتھ افریقہ پر عالمی دباؤ بڑھتا رہا اور 1986ء میں کامن ویلتھ نے ساؤتھ افریقہ کے ساتھ کئی معاہدے ختم کر لیے۔ نیلسن منڈیلا بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنے لگا حکومت کے ساتھ نیلسن کی بات چیت کامیاب رہی سفید فام حکومت سیاہ فاموں کو ان کے حقوق دینے کے لیے تیار ہو گئی اور 11 فروری 1990ء کو نیلسن منڈیلا کو رہا کر دیا گیا نیلسن نے 27 سال قید کاٹی یہ دنیا کے بڑے سیاسی قیدیوں میں سے ایک تھے۔ 1994ء میں ساؤتھ افریقہ میں تاریخی الیکشن ہوئے اور نیلسن منڈیلا کی پارٹی کو امتیازی حیثیت سے پارلیمنٹ میں جگہ ملی اور نیلسن منڈیلا ساؤتھ افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے یہ دنیا کی تاریخ کا ایک بڑا دن تھا جب ساؤتھ افریقہ کی زمین پر گوروں کی بجائے سیاہ فام صدر تھا یہ وہی شخص تھا جس کے باپ کی جاگیر گوروں نے چھین لی تھی آج اس نے گوروں کو ان کی حکومت سے محروم کر دیا تھا۔ نیلسن منڈیلا کی شخصیت نے سب سے بڑا جادو تب کیا جب اس نے اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی بجائے کہا کہ وہ ایک ایسی دنیا تعمیر کرے گا جس میں ہر کوئی بے خوف ہو کر ترقی کر سکے۔ منڈیلا نے دنیا کو بتا دیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں صرف محنت اور راستے کا تعین انسان کو منزل تک لے جاتا ہے۔ نیلسن نے افریقہ کی ترقی اور سیاہ فاموں کے لیے بہترین کام کیے۔ نیلسن منڈیلا دو بار پاکستان آئے اور قائد اعظم کے مزار پر حاضری بھی دی نیلسن منڈیلا قائد اعظم کا فین تھا اس نے قائد اعظم کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی زندگی ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہے جو کسی مخصوص طبقے کی بالادستی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ 1992ء میں نیلسن منڈیلا کو پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز نشان پاکستان بھی دیا گیا۔ نیلسن منڈیلا نے 1999 میں صدر کی حیثیت سے مدت ختم ہونے پر سیاست چھوڑ دی اور باقی کی زندگی اپنے خاندان کے لیے وقف کر دی۔

نیلسن منڈیلا کی شخصیت کو ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جو ناکامیوں سے دوچار ہے جسے لگتا ہے زندگی میں مشکلات ہیں پریشانیاں ہیں اور کامیابی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ نیلسن نے اپنی زندگی میں 30 سال سے زائد صرف محنت کی اور قید کاٹی اس کے بدلے میں صرف 5 سال صدارت کی کیوں؟ کیوں کہ نیلسن منڈیلا جانتا تھا کہ میرے بعد آنے والے لوگ بھی اپنی ذہانت سے کام کریں گے شاید وہ مجھ سے بہتر کام کرنا جانتے ہوں اس لیے اس نے دوبارہ سیاست نہیں کی آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں آپ کو ایک ہی خاندان یا ایک ہی شخص بار بار حکمرانی کرتا نظر نہیں آئے گاوہ اپنی مدت ختم کر کے دوسرے کو موقع دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہم اب تک تین خاندانوں سے باہر نہیں نکلے ہم نسل در نسل انہی تین خاندانوں کو حکمران بنا رہے ہیں دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ نیلسن منڈیلا ایمان دار تھا وہ ملک اور قوم کے ساتھ مخلص تھا اس نے سیاہ فاموں کو دنیا میں ایک درجہ دیا اور پوری دنیا کو بتایا کہ ہم سب انسان برابر ہیں ہم میں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ہمیں بھی ایک نیلسن منڈیلا جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمیں اس نسل در نسل غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کرے جو ہمارے لیے کچھ کرے جس سے ایک عام آدمی کو فائدہ پہنچے ایک ایسے انقلابی کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کر دے جو عام آدمی کی آواز بنے اس کی پریشانیوں کا ازالہ کر سکے جو ان چند خاندانوں کی حکمرانی سے نجات دے بس ہمیں ایک نیلسن منڈیلا جیسا بڑا لیڈر چاہیے پھر ہم بھی ترقی کریں گے دنیا میں ہماری مثالیں بھی دی جایا کریں گی۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry