Azad Ya Ghulam
آزاد یا غلام
ہم 14 اگست 1947ء کو جسمانی طور پر آزاد ہو گئے تھے لیکن بد قسمتی سے 74 سال گزرنے کے باوجود ہم ذہنی طور پر غلام ہی ہیں، غلامی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں سب سے عام قسم جسمانی غلامی ہوتی ہے اس میں انسان کا صرف جسم قید میں ہوتا ہے انسان کا ذہن آزاد ہوتا ہے وہ اپنی رہائی کے لیے کوشش کرتا ہے اور بہت جلد آزاد ہو جاتا ہے اور غلامی کی سب سے بھیانک قسم ذہنی غلامی کی ہے جس میں انسان کو آزاد کر بھی دیا جائے تب بھی وہ اپنی زنجیروں سے محبت کرتا ہے وہ اپنے ذہن کو زنجیروں کے حوالے کر چکا ہوتا ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آزادی ہو یا غلامی۔
ہم اس وقت ذہنی غلامی کی بدترین سطح پر ہیں ہم میں سے ہر دوسرا شخص کسی نا کسی بات کو لے کر احساس کمتری کا شکار ہے ہم اب تک انگریزی کی غلامی سے نہیں نکل سکے ہم اب تک یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ اپنے بچوں کو کونسی زبان سکھائی جائے، بچے گھروں میں مادری زبان بولنے کی کوشش کرتےہیں سکول میں اسے ڈانٹ کر انگریزی پڑھائی جاتی ہے اور دینی تعلیم عربی میں ہے، ہمارا بچہ چار چار زبانیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے پھر وہ اپنی ایک الگ زبان تخلیق کرتا ہے اور زندگی گزارتا ہے، ہمارے ہاں دوسرا مسئلہ ہماری سیاسی جماعتوں کا ہے ہماری قوم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پارہی کہ ہمارے ساتھ مخلص کون ہے کون سا سیاستدان ہمارے حق کے لیے کھڑا ہے، ہم ابھی تک پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ نہیں کر سکے ہم نسل در نسل ایک ہی خاندان کو ووٹ دیتےآرہے ہیں باپ کے بعد بیٹی پھر بھائی پھر اسکا بیٹا ہم ایک ہی خاندان کو پاکستان کا حقیقی ہمدرد سمجھتے ہیں اسے ووٹ دے دیتے ہیں وہ پانچ سال کے لیے قومی اسمبلی میں بیٹھ جاتا ہے اور ہم صاف پانی کو ترس جاتے ہیں۔
پاکستان میں تیسری ذہنی غلامی کسی کی تقلید کرنا ہے ہماری نوجوان نسل بھارتی اداکاروں کو کاپی کرتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ان جیسے کپڑے پہن کر ویسے بال بنا کر انکی طرح نظر آئیں ہیں اور یہ حقیقت ہے ان جیسے تو نظر آتے ہیں لیکن وہ بن نہیں سکتے، ہم ابھی تک نئی سوچ اور تحریک پیدا نہیں کر سکے ہم وہی کرتے آرہے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے ہم میں کوئی نئی چیز کوئی ولولہ پیدا نہیں ہو سکا جس سے ہم بدل سکیں ہم ابھی تک صرف اس بات پر عمل پیرا ہیں کہ دنیا میں آئیں پڑھیں شادی کریں اور مر جائیں، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے اللہ نے انسان کو بے شمار خوبیوں سے مالا مال کیا ہے کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے، 1947ء میں چند لوگوں کے کہنے پر کچھ لیڈروں کی ولولہ انگیز تقاریر سے مرعوب ہو کر جان کی بازی لگانے کو تیار تھے تو آج ہم اپنے حق کے لیے بھی نہیں بول سکتے یہ زیادتی ہے۔
ہم ہر سال اگست کے مہینے میں جھنڈیاں لگا کر آزادی منا لیتے ہیں ہمارے بچے گاڑیوں پر جھنڈے لگا کر اور اندر بھارتی گانے چلا کر آزادی مناتے ہیں ہم ابھی تک اپنے بچوں کو آزادی کا اصل مفہوم واضح نہیں کر سکے، ہمارے بچوں کو آزادی آباؤ اجداد کی طرف سے ملی ہوئی چیز ہے ان کو یہ نہیں پتہ کہ آزادی کیسے حاصل ہوئی اس کے پیچھے کتنی قربانیاں ہیں، ہماری ذہنی غلامی کی انتہاء یہ ہے کہ ہم غلط کو غلط نہیں کہہ رہے ہم دشمن کو دشمن نہیں سمجھ پا رہے ہم غدار کو غدار نہیں بولتے ہمیں زنجیروں سے محبت ہو گئی ہے، جس کا جو دل کرے آئے ہم پر حکومت کرے لوٹے اور چلا جائے ہم اف تک نہیں کہیں گے، ہم سیاسی جماعتوں اور فرقہ پرست گروہوں کے تسلط میں ہیں ہم اپنی عقل و فہم کے مطابق کسی کو غلط اور صحیح نہیں کہہ پا رہے ہم شخصیت پرستی کی انتہاء کو چھو رہے ہیں ہمارے نزدیک ہمارے لیڈر ہمارے اکابرین ہی سب کچھ ہیں جو وہ کہہ دیتے ہیں وہی حق اور سچ ہے اور یہ ذہنی غلامی کی ایک بدترین مثال ہے، ہماری قوم اشرافیہ کی تقلید کرتی اور اشرافیہ خود کو مغربی طرز میں ڈھالنا چاہتے ہیں اشرافیہ یورپ میں فلیٹ اور جینز پہن کر انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور پھر ہماری قوم اشرافیہ کی تقلید میں زندگی گزار دیتے ہیں جو پھر نسل در نسل ذہنی غلامی چلتی ہے۔
ہم ابھی تک پاکستان سے انگریزی زبان کو نہیں نکال سکے ہمارا بچہ مقابلے کا امتحان دیتا ہے تو 70 فیصد بچے صرف انگریزی کی وجہ کی مقابلے کا امتحان پاس نہیں کر پاتے اور ہم انگریزی پڑھ کر اس میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، یاد رکھیں دنیا کی جس قوم نے بھی ترقی کی صرف اپنی زبان میں ترقی کی اور پھر دنیا کو حیران کر دیا، ہم غلط کو کھل کر غلط نہیں کہتے ہم ظلم کے خلاف نہیں بولتے ہم کرپٹ کو کرپٹ نہیں کہتے ہم رشوت لینے والے کو سرعام پکڑتے نہیں ہماری عدالتیں انصاف نہیں کرتیں ہمارا غریب طبقہ ہمیشہ سے پستا آرہا ہے لیکن مجال ہے کبھی کسی نے آواز بلند کی ہو در حقیقت ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو انتہائی تعفن زدہ ہے ہم اس میں رہتے ہیں ہم اس کا حصہ ہیں اس لیے ہمیں خود سے بھی بدبو نہیں آتی ہمیں لگتا ہی نہیں کہ ہم ذہنی غلام قوم ہیں لیکن جب کبھی ہم اپنا محاسبہ کرتے ہیں یا کوئی شخص ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے تو ہمیں یاد آتا ہے ہم جسمانی طور پر آزاد اور زہنی طور پر غلام ہیں۔
دنیا کا ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اگر وہ زہنی غلامی کو قبول نہ کرے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے عوام میں صرف شعور بیدار کیا تھا پھر تاریخ نے اس بات کو لکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، علامہ اقبال نے لوگوں کے دماغوں کو زنجیروں سے آزاد کیا انہیں اصل طاقت بتائی اور کہا کہ تم کر سکتے ہو اور پھر دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دی، لیکن بد قسمتی سے ہم پھر زوال کا شکار ہو گئے ہم پھر ذہنی غلام بن گئے لوگوں نے ہم پر حکمرانی شروع کر دی اور ہم اب تک غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ابھی وقت ہے اگر ہم خود کو بدلیں اور آزادی کی قدر کو جانیں پھر ذہنی طور پر آزاد ہوں اور دنیا میں ترقی کریں اور اس کا صرف یہی حل ہے کہ ہمیں ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے اور نئی سوچ پیدا کرنی ہے ہم آزاد ہو جائیں گے۔