Apni Talash
اپنی تلاش
غروب آفتاب کا وقت تھا ایتھنز کی گلیوں میں ایک طرف ماتم کا سماں تھا تو ایک جانب شادیانے بجائے جارہے تھے، دنیا کے ایک بہترین فلسفی کو موت کی سزا دی جانے والی تھی، سقراط کو زہر کا پیالہ دیا گیا سقراط نے پیالہ ہاتھ میں اٹھایا اور مسکرانے لگا، لوگوں نے پوچھا زہر کا پیالہ ہاتھ میں پکڑ کر کیوں مسکرا رہے ہو، سقراط نے جواب دیا کہ دنیا کا کوئی بھی زہر انسان کو تو مار سکتا ہے لیکن انسان کی سوچ اس کے نظریات کو کبھی نہیں مار سکتا، زہر پینے سے سقراط کا جسم تو مر جائے گا لیکن سقراط کی سوچ تاقیامت زندہ رہے گی، آج جب میں اس واقعے کو پڑھتا ہوں تو بے اختیار دل چاہتا ہے کہ سقراط کو سلام پیش کیاجائے جس نے آنے والے لوگوں کو فلسفہ، اور سوچ سے واقفیت دی وہ بتا کر گیا کہ اچھی سوچ اور نظریات کبھی نہیں مرتے۔
اللہ نے بے شمار مخلوقات کو پیدا فرمایا انہیں مختلف اوصاف سے نوازا، انسان کو پیدا کیا انسان کو بھی بے شمار خوبیوں سے نوازا ایک انسان جو نارمل ہے وہ خود کو پہچان کر علامہ اقبال بن جاتا ہے ایک شخص اسی جسم اسی ذہانت سے محمد علی جناح بن جاتا ہے جسے صدیوں یاد رکھا جاتا ہے اور ایک شخص انہیں خوبیوں سے کچھ نہیں کر پاتا اور اس کے دنیا میں آنے سے کسی کو فرق پڑتا ہے اور نہ اس کے جانے سے، ہم اشرف المخلوقات ہیں ہمارا دنیا میں آنا ایک معجزہ ہے جاندار کا زندہ رہنا سانس لینا کسی معجزے سے کم نہیں ہم اگر اپنے زندہ ہونے کا شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو یہ زندگی بہت کم پڑ جائے ہم اس رب العالمین کا شکر ہی ادا نہیں کر سکتے، پھر اللہ نے انسان کو عقل و دانش مندی سے نوازا جس سے ہم دنیا میں تہلکہ مچا سکتے ہیں، جانوروں اور انسان میں عقل کا فرق ہے ورنہ جانوروں کی جسمانی ساخت دیکھ لیں ان میں بے پناہ طاقت ہے ہم اس طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہم چیتے کی رفتار سے دوڑ نہیں سکتے ہم شیر کی دھاڑ کا جواب نہیں دے سکتے ہم عقاب کی نظر سے دیکھ نہیں سکتے ہم فالکن کی طرح تیز اڑ نہیں سکتے لیکن انسان کو عقل و شعور دیا ہے جس سے ہم بڑے سے بڑے درندے کو اپنے ماتحت کر لیتے ہیں ہم شیر، چیتا اور ہاتھی سب کو پکڑ لیتے ہیں ہم ان سے سرکس بھی کرواتے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے بھی ہو جاتے ہیں بنیادی طور پر انسان اور جانور میں بڑا فرق عقل وفہم کا ہے۔
انسان اپنی زندگی چار چیزوں کو دیکھتے ہوئے گزارتا ہے ان میں پہلے نمبر پر آتا ہے مزے کی زندگی جس میں کسی قسم کی مشقت اور پریشانی نہیں ہر چیز میسر ہے کم ہے یا زیادہ لیکن زندگی مزے سے گزر رہی ہے دنیا میں کیا ہو رہا ہے ہم کس مقصد کے لیے آئے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بس مزے سے زندگی گزر رہی ہے یہ زندگی گزارنے کا سب سے کم تر درجہ ہے، اس سے اوپر جائیں تو دوسرا درجہ آتا ہے اپنی خواہشات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا اس میں بھی ہم صرف اپنی ذات کا سوچتے ہیں ہمیں کسی دوسرے شخص کی ذات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہم اپنی ہر خواہش کو پورا کرنے کے کیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ہم اچھا کریں یا برا ہم اپنی خواہشات وہ چاہے غلط کام کی خواہش ہو یا درست ہم اپنی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں اسے مقدم سمجھتے ہیں یہ زندگی گزارنے کی دوسری کم تر سطح ہے۔
اس کے بعد عقل و فہم کی ایک سطح آتی ہے جس میں ہم ہر کام اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے سوچ کر کرتے ہیں ہم ہر کام کرنے سے پہلے اس کے مثبت و منفی اثرات دیکھتے ہیں پھر یہ ذہن میں لاتے ہیں کہ اس کام کے فوائد کیا ہیں میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں، اس سطح کے ساتھ اگر اپنی خواہشات شامل ہو جائیں اور اپنی خواہشات جس میں مثبت سوچ ہے جیسے میں کوئی ایسا کام کر جاؤں جس سے انسانیت کا بھلا ہو جائے میرے ملک میں بہتری آجائے اس طرح کی خواہشات میں اگر عقل و فہم شامل ہو جائے تو یہ زندگی گزارنے کی بڑی بہترین سطح بنتی ہے، اس کے بعد چوتھی اور سب سے اہم سطح اپنے آپ کو حکم خداوندی کے تابع کر دینا ہے جو اللہ نے حکم دیا اس پر عمل کرنا اس میں کوئی دوسری رائے نہیں بس اللہ کے احکامات کو اول رکھنا اس میں سے دنیا میں آنے کے مقاصد کو تلاش کرنا پھر ان میں اپنی بہترین کارکردگی دیکھانا یہ زندگی گزارنے کی سب سے بہترین سطح ہے جس میں اللہ کے احکامات کو ماننا اپنی سوچ کو مثبت رکھنا اپنے نظریات کو سب سے بہترین سطح پر لے جانا اور اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اسلام، اپنے ملک اپنی قوم کے لیے ایسے کام کرنا جو صدیوں یاد رکھے جائیں جس سے ملک و قوم میں بہتری آئے۔
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جانچنا ہے ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم میں ایسی کون سی صلاحیت ہے جس سے ہم اپنے معاشرے میں تبدیلی لا سکتے ہیں ہمیں اپنی کوئی ایک ایسی طاقت کو تلاش کرنا ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے وطن عزیز کو بہتر بنا سکیں، کہتے ہیں کہ ہر انسان میں کوئی ایک ایسی صلاحیت ہوتی ہے جسے پالش کیا جائے تو وہ دنیا کی تاریخ بدل دیتا ہے یاد رکھیے کہ اگر کوئی شخص کرنے والا ہو تو پھر ہندوستان کا سینہ چیر کر پاکستان نکالا جا سکتا ہے دُنیا کا نقشہ تبدیل کیا جا سکتا ہے دنیا کا جغرافیہ بدل سکتا ہے پھر ہم اس کے پیچھے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا فلسفہ خودی دیکھتے ہیں، کرنے پر ہی سب کچھ ہوتا ہے ہم آج اور ابھی سے دیکھنا شروع کریں کہ ہم اپنی زندگی کس سطح کی گزار رہے ہیں اور ہمیں کیسی گزارنی چاہیے، کوئی بھی انسان غلام نہیں ہے نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں یہی بتایا کہ تم آزاد ہو تم کسی انسان کے غلام نہیں ہو۔
ہم اگر آج کسی کے ہاں نوکری کرتے ہیں وہ صبح سے شام تک ہمیں ہانکتا ہے تو اس میں ہمارا قصور ہے، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اس کی بندگی کرنی ہے اس کے احکامات ماننے ہیں، اس کے علاوہ ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہم کیا ہیں اپنی تلاش کریں خود میں سے کوئی ایک ایسی صلاحیت تلاش کریں جس پر کام کر کے آپ اپنا سو فیصد پرفارم کر سکیں جس سے تبدیلی آ سکے اور ایسا ممکن ہے ہمیں اپنی تلاش کرنی ہے خود کو ڈھونڈنا ہے اپنے مقصد کو نہیں بھولنا کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ آپ دنیا میں بھی آئیں اور آپ کے آنے اور جانے سے کسی کو فرق نہ پڑے متوسط زندگی سے باہر نکل کر کچھ الگ کریں کچھ نیا کریں کچھ ایسا کر جائیں کہ صدیوں آپ کی سوچ آپ کے نظریات کو یاد رکھا جائے اس کے لیے اپنی تلاش بہت ضروری ہے خود میں ڈوب کر خودی کو تلاش کریں اور آپ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔