Aik Shakhs Se
ایک شخص سے
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں پاکستان کے نظام پر بات کی تھی نظام کی خرابی کی وجوہات اور ان کا حل بتایا تھا سسٹم کیوں اس قدر بگڑا اس پر تفصیلی کالم لکھا تھا لیکن اس پر کچھ لوگوں نے سوال کیا تھا کہ پاکستان کا سسٹم اگر اس قدر ہی بگڑا ہوا ہے ہمارا پورا نظام جکڑا ہوا ہے تو ہم کیسے تبدیل ہو سکتے ہیں ہم بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں پھر تو ہمیں بھی بدلنا نہیں چاہیے جب تک سسٹم تبدیل نہیں ہوتا، سوال بڑا قیمتی ہے مجھے ایسے سوال اچھے لگتے ہیں جن کا جواب دو لفظی نہ ہو بلکہ مکمل تفصیل کے ساتھ وضاحت کر کے جواب دینا پڑے۔
میرے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میں جب پری انجینئرنگ میں تھا تو ایک نوجوان میرے پاس پڑھنے کے لیے آگیا چونکہ میرے بھی امتحان ہونے والے تھے تو میں نے اس سے کہا کہ جب میں اکیڈمی جاتا ہوں آپ اس سے پہلے آجایا کریں اس طرح وہ نوجوان ایک مہینہ آتا رہا میں اسے پڑھاتا رہا مہینے بعد اس نے کہا مجھے آپ کی سمجھ آنے لگی ہے مزید پڑھا دیں میں پڑھاتا رہا دن گزرتے گئے وہ ہر ماہ کے آخر میں مزید وقت مانگ لیتا میں ہاں کر دیتا میں نے اس نوجوان کو سالانہ امتحان تک پڑھایا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد وہ نوجوان دو تین اور طالب علموں کو لے آیا کہ آپ کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا ہے ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پڑھایا کریں میں نےہاں تو کر دی لیکن جگہ کا مسئلہ تھا میں نے گھر کے گیراج میں تھوڑی سی جگہ بنائی کرسیاں رکھی اور پڑھانا شروع کر دیا اور اس طرح باقاعدہ تدریس کا سلسلہ چل پڑا آہستہ آہستہ بچے بڑھتے گئے میں پڑھاتا گیا گیراج کم پڑ گیا میں نے گھر والوں کی منت سماجت کر کے گھر کا ڈرائنگ روم استعمال کرنے لگا بچے آتے گئے اور یہ سلسلہ چل پڑا مجھے آمدن بھی ہونے لگی اور پڑھانے میں دل لگنے لگا میں نے گھر والوں سے کہا کہ آپ مجھے یہ پورا گھر دے دیں اورآپ کرائے پر گھر لے لیں اس کا کرایہ اور ماہانہ پانچ ہزار مجھ سے لے لیا کرنا گھر والے راضی ہو گئے میں نے گھر کو اکیڈمی میں بدل دیا میں نے اپنے چند پرانے شاگردوں سے بات کی کہ میں ایک ادارہ بنانا چاہتا ہوں کیا آپ میرا ساتھ دیں گے وہ بھی راضی ہو گئے میں نے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہمارے پاس پڑھنے والوں کی تعداد چار سو سے زیادہ ہو گئی ہم نے اپنی اکیڈمی کا کوئی بورڈ نہیں لگایا تھا ہمارا کام ایسا تھا کہ لوگ خود ہمارے پاس آتے، میں نے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی کے حقائق کے متعلق بتاتا ان کی پریشانیوں پر انہیں رہنمائی دیتا پھر ان کے والدین کو بلاتا ان سے بات کرتا میں نے کیریئر کونسلنگ بھی شروع کر دی۔
بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی گئی اور میں سٹریس میں چلا گیا میں نے ایک سال شدید سٹریس میں گزارا بہت سے فزیشنز سے ملا لیکن بہتری نہ آئی ایک فزیشن ملے انہوں نے میرے بارے میں مکمل پوچھا پھر میرے والد سے کہا کہ بیٹے سے کہیں یا اپنا کام کم کر لے یا حوصلہ بڑھا لے، یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی وہ دن اور آج کا دن میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، میں نے انجینئرنگ یونیورسٹی چھوڑی تو میرے بہت سے دوستوں نے باتیں کی میں نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا میرا ماننا تھا کہ میرا کام انہیں جواب دے گا، ایک دفعہ ہم نے اپنے ادارے کا آڈٹ کیا تو ہمیں علم ہوا کہ دو سے زائد بچے ہم سے پڑھ کر انجنئیرنگ یونیورسٹی میں گئے اور انجینئرنگ کی، پچپن طلبہ ایسے تھے جو ڈاکٹر بنے اور اٹھارہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنے، یہ میرا کام تھا جس نے میرے چاہنے والوں اور نہ چاہنے والوں کو جواب دیا میں یہ کام کرتا گیا مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے شروع کر دیئے سرکاری و نجی اداروں میں مختلف موضوعات پر لیکچر دیئے۔
یہ شخص محترم جناب قاسم علی شاہ صاحب ہیں جنہوں نے اتنی محنت کے بعد یہ سب کچھ حاصل کیا آج قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے نام سے ان کا ادارہ ہے جس میں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ تربیت حاصل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے اداروں میں چلے جاتے ہیں قاسم صاحب ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں اسی نظام میں پلے بڑھے اور اپنے پورے خاندان بلکہ پاکستان کے تمام نوجوانوں کی سوچ کو بدل کر دکھ دیا شاہ صاحب پاکستان کے سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موٹیویشنل سپیکر ہیں آپ گورنمنٹ، پرائیویٹ، کارپوریٹ سیکٹر اور بے شمار تعلیمی اداروں میں بطور ٹرینر اپنی خدمات دے چکے ہیں جن میں سر فہرست فوجی افسران، پولیس آفیسرز، کسٹم افسران کے ساتھ عدلیہ سول سروسز نیشنل و موٹروے پولیس کے افسران کو سیلف ہیلپ اور مختلف تعمیری و اخلاقی موضوعات پر لیکچر دے چکے ہیں۔
شاہ صاحب نے اپنی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سیاحت کو فروغ دیا ملکی و غیر ملکی دورے کیے ازبکستان، ترکی اور مصر کے دورے کا اہتمام کیا، ان سیاحتی خدمات کے اعزاز میں ازبکستان حکومت نے قاسم علی شاہ صاحب کو ٹورزم ایمبیسڈر نامزد کیا، شاہ صاحب کی کئی کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہوئیں ہر ہفتے ان کے کالمز شائع ہوتے ہیں، آپ پر دو کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں، یہ ایک شخص ہیں جنہوں نے ایک شخص سے ابتدا کی تھی اور آپ کو حیران کن بات بتاتا چلوں کہ جو پہلا نوجوان شاہ صاحب کے پاس پڑھنے آیا تھا وہ نوجوان خرم شہزاد صاحب اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں اور اب تک نجانے کتنے نوجوانوں کو ترقی کی راہ پر ڈال چکے ہیں۔
مجھے گزشتہ ماہ شاہ صاحب کے ایک سیشن میں جانے کا اتفاق ہوا سیشن فاؤنڈیشن میں ہی تھا شاہ صاحب نے ایک گھنٹہ ہمارے ساتھ گزارا میں نے ان جیسا نفیس اور عمدہ شخص کبھی نہیں دیکھا یہ جیسے سکرین پر نظر آتے ہیں بالکل حقیقت میں بھی ویسے ہیں انتہائی اعلیٰ اخلاق کے مالک اور بہترین انسان ہیں، یہ اسی پاکستان کے بیٹے ہیں یہ کوئی باہر سے پڑھ کر نہیں آئے یقین جانیں یہ کوئی بہت امیر گھرانے سے بھی تعلق نہیں رکھتے انہوں نے بڑے مشکل حالات کا سامنا کیا لیکن ہمت نہیں ہاری حوصلے سے لگے رہے اور آج اللہ نے وہ سب کچھ عطاء کر دیا جو شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
شاہ صاحب کا فارمولہ ہے کہ آپ شروع کر دیں اور نیت خالص رکھیں اللہ تعالیٰ آپ پر کرم کریں گے شاہ صاحب نے بھی ایک شخص سے شروع کیا اور اب لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئے آپ بھی اپنے کام کا آغاز آج سے ہی کریں یہ نہ دیکھیں کہ کیا ہو گا آپ بس شروع کر دیں نیت خالص ہو اور اپنے کام کے ساتھ محبت کریں پھر دیکھیں آپ کو ترقی بھی ملے گی اور شہرت بھی قاسم علی شاہ صاحب کی طرح کوئی ایک شخص پاکستان کے لیے آج سے ہی شروع کر دے۔