3 Saal Aur Awam
تین سال اور عوام
عمران خان نے 18 اگست 2018ءکو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا یہ 22 سال کی طویل جدوجہد کر کے اس مقام تک پہنچے 25 اپریل 1996ء کو جب پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس پارٹی کا نعرہ انصاف، انسانیت اور خودداری تھا عمران خان نے اس نعرے کی بنیاد پر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا 22 سال کی محنت کے بعد انہیں یہ موقع ملا اور پھر اس حکومت کے تین سال گزرنے کے بعد حکومت نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھی عمران خان اپنے منشور کے مطابق کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یہ عوام کو ریلیف نہیں دے سکے۔
اس بات کا میں بھی اعتراف کرتا ہوں کہ عمران خان اپنے نعرے پر قائم نہیں رہ سکے یہ انصاف کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے، یہ خودداری میں بھی قدم نہیں جما سکے یہ مافیا کو قابو میں نہیں لا سکے ان کے ہاتھ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے غریب عوام مر رہی ہے، حکومت کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر پارہی یہ ایک مسئلے سے نکلتے ہیں دوسرے میں پھنس جاتے ہیں ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود باہر سے گندم لے رہے ہیں، ہمارے ملک کے تین بڑے مسائل ہیں جن پر قابو پا لینا ہی اصل کامیابی تصور کی جاتی ہے پہلا مسئلہ غربت ہے ہماری قوم غربت میں پس رہی ہے اور ستر سال سے کسی مسیحا کے منتظر ہیں آپ پچھلے تیس سال کا دور دیکھ لیں آپکو کبھی عوام خوشحال دیکھائی نہیں دے گی ہمارا غریب طبقہ ہر دور میں پستا ہے اس کا کسی کو احساس نہیں ہے، ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ صحت کا ہے ہمارے ہاں سہولیات کا فقدان ہے جس سے ہمارے عوام مزید مایوس ہوتے ہیں، تیسرا مسئلہ تعلیم کا ہے ہمارے بچے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہماری کوئی حکومت ایسا سسٹم متعارف نہیں کروا سکی جس سے پتہ چل سکے کہ ہمارے کتنے بچے سکول نہیں جا پاتے اور کیوں نہیں جا پاتے اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت بھی ان تینوں مسئلوں کا کوئی حل نہیں نکال سکی مہنگائی سے تنگ قوم صحت کے لیے اسپتال کا رخ کرتے ہیں تو وہاں سہولیات نہیں ہیں ہمارے بچے اسکولوں میں جاتے ہیں تو تعلیمی نظام بہتر نہیں ہے، عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا تو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا تھا ہمارا خزانہ اس قدر خالی تھا کہ اگر ہمسایہ ممالک ہماری مدد نہ کرتے تو ہمارا دیوالیہ ہوجاتا، ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے مزید قرضے لیے انکی شرائط مانی اور چیزوں پر ٹیکس لگائے مہنگائی بڑھی، ہم ابھی اسی چکر سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہمارے ازلی دشمن نے پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا پاکستان پہلے ہی فیٹف کی گرے لسٹ میں تھا اوپر سے مزید یہ الزام پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی وہ نہ مانا رات کے اندھیرے میں پاکستان آنے کی کوشش بعد میں پاکستان کا جواب انکے دو طیارے تباہ ایک پائلٹ گرفتار یہاں پر یہ بھی یاد رکھیں کہ اس سے پہلے سابقہ حکومتوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا، عمران خان امریکہ گئے جنرل اسمبلی میں اپنے تمام حالات انکے سامنے رکھے اور حل مانگا۔
امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جس میں پاکستان نے بہترین کردار ادا کیا، ہم ابھی اپنی معیشت بہتر کرنے کی کوشش میں تھے کہ عالمی وبا کرونا آگئی پوری دنیا نے لاک ڈاؤن کر دیا ہم نے پھر بھی انتظار کیا اور سمارٹ لاک ڈاؤن متعارف کروایا جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا اور ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کرونا کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان نے اپنی معیشت بہتر کی، پاکستان پوری دنیا کے تین ممالک میں شمار ہوا جنہوں نے کرونا سے مقابلہ کے لئے بہترین حکمت عملی اپنائی، عمران خان نے درخت لگانے کا فیصلہ کیا تو سب نے مذاق اڑایا بعد میں اسی کی بدولت پاکستان کو عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس کی میزبانی ملی جس کا اعتراف امریکہ نے کیا کہ عمران خان کا یہ فیصلہ بہترین ہے۔
امریکہ 20 سال بعد افغانستان سے ذلیل ہو کر نکل رہا ہے یہ وہی امریکہ ہے جو پاکستان سے اڈے لے کر ڈرون اٹیک کرتا تھا اب اس حکومت نے اڈے دینے سے انکار کر دیا یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان امریکہ کو نو مور کہہ رہا ہے ورنہ آپ کو یاد ہو گا پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی ہے، پاکستان نے افغان امریکہ جنگ میں اپنا کتنا نقصان کیا نتیجہ کیا نکلا امریکہ کہتا ہے پاکستانی منافق ہیں، عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ ہم امریکہ کی افغانستان سے نکلنے میں مدد کریں گے ہم امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کریں گے نہ کے ہم ان کی ہر بات مانیں۔
پاکستان میں معیشت کی بہتری کے لیے اس وقت چار خصوصی اقتصادی زون پر کام ہو رہا ہے جو 1.40 ملین ملازمتیں دے گا اور پاکستان کی معیشت کو بہتر ہونے میں اہم کردار ادا کرے گا یہ چار زون رشکئی نوشہرہ، دھابجی ٹھٹھہ، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد اور بوستان بلوچستان میں بن رہے ہیں اور یہ بہت جلد مکمل ہو جائیں گے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس سے بہت سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا، تحریک انصاف حکومت کے تینوں سالوں میں ہماری زراعت اوپر گئی ہے ان تینوں سالوں میں کسی کسان کی فصل نہیں ڈوبی کسانوں کو انکی فصلوں کی بروقت ادائیگی ہوئی ہے، رواں سال میں پاکستان کو کسانوں سے 11 سو کروڑ کی اضافی آمدن ہوئی ہے جو ریکارڈ آمدن ہے اور کسان کا فائدہ ہے۔
تاریخ میں پہلی بار موبائل فون پاکستان میں بننے جا رہے ہیں اس حکومت نے باہر کی کمپنیوں کو کہا ہے کہ یہاں پر موبائل فون بنائیں ہمارے عوام بڑی تیزی سے موبائل فون خریدتے اور تبدیل کرتے ہیں لہذا پاکستان میں پلانٹ لگائے جائیں اور ادھر ٹیکس اکٹھا ہوں یاد رہے اس سے پہلے یہ خیال کسی حکومت کو نہیں آیا، تحریک انصاف کی حکومت نے ایک پروگرام کامیاب جوان کے نام سے شروع کیا جس میں ہماری خواتین کو بھی ان کے کاروبار کے لیے قرضے دیئے جا رہے ہیں جو خواتین کے شعبے میں ایک اچھا اقدام ہے، اسی حکومت میں ایمازون جیسی کمپنی نے پاکستان پر اعتبار کیا ہے اور پاکستان کو اپنی سیلرز کی لسٹ میں شامل کیا ہے جس سے پاکستانی تاجر اور نوجوان طبقہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا، نیب نے 1999ء سے 2017ءتک چوروں اور لٹیروں سے جو پیسہ اکٹھا کیا وہ 290 ارب تھے اور اس حکومت کے ان تین سالوں میں نیب نے کرپٹ اور چوروں سے جو پیسہ ریکور کیا ہے وہ ہے 484 ارب روپے تو ملاحظہ کیجئے کہ ایک طرف اٹھارہ سال اور ایک طرف صرف تین سال تو یقیناً یہ اس حکومت کی بڑی کامیابی ہے اور پہلی بار کسی طاقتور شخص کی پراپرٹی نیلام ہوئی نواز شریف کی پراپرٹی کو محمد بوٹا نے خریدا تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کہ پہلی بار کسی کمزور کی بجائے طاقتور کی پراپرٹی نیلام ہوئی، پاکستان میں اس وقت دس بڑے ڈیموں پر بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے اور یہ ایوب خان کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں اتنے ڈیموں پر کام ہو رہا ہے۔
آخر میں کہنے کو صرف یہی ہے کہ جو کامیابیاں اس وقت پاکستان کے حصہ میں آئی ہیں یا جو ترقیاتی کام پاکستان کر رہا ہے اس کا بڑا فائدہ تب ہو گا جب براہ راست پاکستانی عوام مہنگائی سے نکلے گی عوام کو ریلیف ملے گا لوگ سکھ کا سانس لیں گے کیونکہ پاکستان میں اس وقت غربت بڑھ رہی ہے اگر عمران خان اگلے دو سالوں میں مہنگائی کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے پانچ سال بھی یہ لے جائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو عوام مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے گی لوگوں کا عمران خان سے اعتبار اٹھ جائے گا لوگ پھر نواز شریف کو بلائیں گے لیکن اگر پاکستانی قوم ابھی تک موروثی سیاست اور سابقہ حکومتوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے تو پھر سب سے پہلے ہمیں اپنا ضمیر بیدار کرنا ہو گا جو حکمران تین دفعہ وزیراعظم رہ کر بھی اپنی چوری بچانے کے لیے ملک سے باہر بیٹھا ہے وہ عوام کا درد نہیں سمجھ سکتا عوام کو صبر کرنا ہو گا اس حکومت کے اختتام تک پھر اس کے بعد نتائج دیکھیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے کون بہتر ہے۔