17 Din
سترہ دن
ندیم اکرم کا تعلق چولستان سے ہے جہاں ہر طرف ریت نظر آتی ہے۔ قلعہ دراوڑ سے بیس کلومیٹر پیچھے ایک گاؤں میں پیدا ہوا ماں باپ کی خواہش تھی کہ ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری کرے۔ ندیم نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا پھر ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا ایف ایس سی پری میڈیکل بہاولپور سے کرنے کے بعد ندیم نے مختلف جگہوں پر نوکری کے لئے درخواستیں دیں لیکن کہیں سنوائی نہ ہو سکی، گاؤں کے بچوں کے ذہن میں پولیس یا فوج میں جانے کا بھی بڑا جنون ہوتا ہے ندیم نے وہاں بھی درخواستیں دیں لیکن نوکری کے لئے اہل نہ ہوسکا۔ ندیم کا بڑا بھائی خیبر پختونخوا مالاکنڈ، درگئی کی ایک سٹیل مل میں کام کرتا تھا اسکے کہنے پر ندیم چولستان سے دور مالاکنڈ لیبارٹری ٹیکنیشن کا کام سیکھنے آگیا، ندیم کو مالاکنڈ اچھا لگا اسکا وہاں دل لگ گیا درگئی کی ایک سٹیل مل میں لیبارٹری ٹیکنیشن کا کام سیکھنے لگا، ندیم نے گھر بتا دیا کہ میں جب تک کام مکمل نہیں سیکھ جاتا میں گھر نہیں آؤں گا، ندیم کام سیکھنے لگا ذہین تھا کام میں دلچسپی تھی کام جلدی سیکھ رہا تھا زندگی اپنی ڈگر پر مطمئن چل رہی تھی لیکن پھر اچانک 31 دسمبر 2020 کو ندیم اکرم کے ساتھ ایک حادثہ ہوا اور ندیم کو مالاکنڈ سے چولستان آنا پڑا۔
31 دسمبرکو حسب معمول لیبارٹری میں کام کرتے ندیم کی طبیعت کچھ بوجھل ہوئی، ندیم لیبارٹری میں لیٹ گیا یہ اسکی پہلی غلطی تھی لیبارٹری میں نائٹرک ایسڈ، ایمونیم سلفیٹ اور سلور نائٹریٹ کے تجربات ہو رہے تھے، ندیم کو نیند آگئی صبح جب ندیم اٹھا تو اسکو بخار تھا اسکی بائیں بازو میں درد تھا، ندیم کو قریبی اسپتال لے جایا گیا وہاں اسپتال میں کچھ ادویات دی گئیں ندیم کی تکلیف بڑھ گئی ندیم کو کچھ گولیاں دے کر اسپتال سے رخصت کر دیا گیا۔
میں آگے بڑھنے سے پہلے آپکو خیبرپختونخوا کے اسپتالوں کے بارے میں بتاتا چلوں کہ پنجاب کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرز بہت ذہین اور اور تجربے کار ہیں انکے اسپتال کی سہولیات بہت اچھی ہیں لیکن جب ندیم کو درگئی کے سرکاری لے جایا گیا تو سرنج سے لے کر درد کی گولی تک باہر سے منگوائی گئیں ہر چیز باہر میڈیکل اسٹور سے منگوائی جاتی رہیں ندیم کی تکلیف بڑھ گئی تو انہوں نے بجائے ندیم کو داخل کرنے کے ندیم کو واپس بھیج دیا، ندیم واپس مل میں آگیا ندیم کے پورے جسم میں درد شروع ہو گیا ندیم کو درد کی دوا دیتے رہے اسی کشمکش میں ندیم کو 2 جنوری 2021 کو واپس پنجاب لایا گیا۔ اب آپ یہاں ستم ظریفی دیکھیں کہ ندیم کے بائیں بازو اور ٹانگ میں شدید سوجن تھی ندیم کو پنجاب کے کسی اسپتال میں لے جانے کی بجائے ندیم کو گھر چولستان لے گئے وہاں گھر والوں کے مختلف ٹوٹکے آزمائے گئے نظر بد کے تعویذ باندھے گئے لیکن ندیم کی تکلیف بدستور جاری رہی۔ چولستان کے ایک ڈاکٹر کے کہنے پر ندیم کو 5 جنوری کو وکٹوریہ اسپتال لایا گیا جہاں آتے ہی ایمرجنسی سے ندیم اکرم کا علاج شروع ہوا، ابتدائی تشخیص میں ندیم کو گینگرین کا مرض بتایا گیا ندیم کو 2 سے تین گھنٹوں میں ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوئے سرجیکل وارڈ میں داخل کر دیا، ندیم کے گھر والوں کو لگا کہ اب جلد ہی ہمارا بچہ صحتیاب ہو کر گھر آجائے گا لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔
ندیم کو اگلی صبح پیٹ میں تکلیف ہوئی ندیم کو کھانا دیا گیا لیکن معدے نے قبول نہ کیا اور یہاں سے دوسرا مرض شروع ہو گیا رپورٹس کروائیں تو پتا چلا کہ کیمیکل ری الیکشن کی وجہ سے معدہ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ندیم کے معدے کو صاف کرنے کے لئے ندیم کے معدے میں نالیاں ڈال دی گئیں اور یوں ندیم کا کھانا پینا بھی بند ہو گیا، 9 جنوری کو ندیم کے بازو کا آپریشن ہوا ندیم کو ہوش آیا ندیم نے کہا کہ میرے سینے میں درد ہے ای سی جی کروائی گئی تو پتا چلا کہ ندیم کو دل کا بھی مسئلہ ہے، اس طرح بیک وقت ندیم کو تین تین بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ندیم کی طبیعت بگڑ گئی آکسیجن لگا دی گئی اب گینگرین اور معدے سے بڑا مسلۂ دل کا تھا ندیم کو وکٹوریہ اسپتال کے جدید ترین کارڈیک سنٹر میں لایا گیا جو میاں شہباز شریف کا تحفہ ہے بہاولپور کی عوام کے لئے کارڈیک سنٹر کا افتتاح 30 مئی 2018 کو ہوا جس میں ہر طرح کی سہولیات دی گئیں ہیں، کارڈیک سنٹر میں ندیم کی ایکو کارڈیو گرافی کی گئی تو پتا چلا کہ ندیم کے دل کی جھلی میں پانی جمع ہے، کارڈیک سنٹر کے سینئر ڈاکٹرز نے نالی ڈال کر وہ پانی باہر نکالا ندیم کی روز بازو کی پٹی بھی تبدیل ہوتی رہی اسکی معدے کی دوا بھی دی جاتی رہی اور دل کی جھلی بھی صاف ہوئی۔
میں ندیم کو 20 تاریخ کو ملا ندیم بہت بہتر تھا مجھ سے کافی دیر بات چیت ہوئی میں نے ان تمام ڈاکٹرز نرسز اور تمام عملے کو دل سے سلام پیش کیا کہ سرجیکل اور کارڈیک سنٹر کی تمام ٹیم کی محنت سے ندیم اکرم صحتیاب ہوا اور سترہ دن وکٹوریہ اسپتال میں گزار کر واپس گھر چلا گیا، میں نے جب ندیم کی مکمل کہانی پڑھی تو میرے دل میں کچھ سوال آئے کہ ایساکیا ہوتاہے جوہم مطمئن زندگی گزارتے ہوئے اپنے اللہ کو بھول جاتے ہیں اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں نا شکرے بن جاتے ہیں اور اپنے رب کو بھول جاتے ہیں لیکن پھر کسی بھی وقت جب ہم پرکوئی پریشانی آتی ہے ہم فوراً اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں جب تندرست ہو جاتے ہیں تو پھر وہی نافرمانیاں وہی عیاشیاں دوبارہ کرنے لگتے ہیں کہ پھر کچھ ہوا تو پھر معافی مانگ لیں گے لیکن یاد رکھیں زندگی میں ہر انسان کو ندیم کی طرح موقع نہیں ملتا کہ وہ معافی مانگ کر دوبارہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکے، لہٰذا زندگی کی شام سے پہلے اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور زندگی کو اچھے طریقے سے گزاریں۔
یاد رکھیں دنیا میں ہر جگہ اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں کسی جگہ کا معیار اچھا ہوتا ہے کسی جگہ کا برا ندیم کی قسمت اچھی تھی کہ وہ پنجاب میں وکٹوریہ اسپتال آگیا اور یہاں کے بہترین عملے کے ہاتھوں جلد صحتیاب ہوا دوران علاج ایسے بہت سے واقعات ہو جاتے ہیں جن سے مریض اور اس کے ساتھ آئے اٹینڈنٹ پریشان ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں آپ ڈاکٹرز یا پیرامیڈیکل اسٹاف کے ساتھ بدتمیزی کریں یا انکو برا بھلا کہیں بلکہ ان کے ساتھ بہتر انداز سے پیش آئیں یہ ہماری خدمت کے لئے مامور ہیں یہ اپنی طرف سے بہتر کوشش کرتے ہیں کہ مریض جلد صحتیاب ہو نرسز پوری پوری رات جاگ کر یہ دھیان رکھتی ہیں کہ مریض کو کوئی پریشانی نہ ہو لیکن اگر کہیں پر ان سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو اسکو نظر انداز کریں یہ ہماری بہنیں بیٹیاں ہی ہوتی ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہماری خدمت کرتی ہیں انکی دل سے قدر کیا کریں انکے ساتھ بڑے اچھے انداز سے پیش آیا کریں یاد رکھیں آپ جتنی عزت و احترام اس اسٹاف کو دیں گے یہ اتنی ہی توانائی سے آپکے مریض کی خدمت کرے گا، پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب یہی اسٹاف ہمارے ملک کا نام روشن کرتا ہے یہ اخلاقی تربیت ہوتی ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز اور نرسیں ہر چیز سے بالاتر ہو کر ہماری خدمت کرتے ہیں ہم پر لازم ہے کہ ہم انکا احترام کریں ورنہ ہم اخلاقی اقدار سے گر جائیں گے ہم مرتے بھی رہیں گے اور ان ڈاکٹرز کو گالیاں بھی دیتے رہیں گے۔