Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aaghar Nadeem Sahar
  4. Wapda Gardi Aur Jamat e Islami Ka Dharna

Wapda Gardi Aur Jamat e Islami Ka Dharna

واپڈا گردی اور جماعتِ اسلامی کا دھرنا

جماعت اسلامی کا مہنگائی مکاؤ دھرنا جاری ہے، حکومتی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کے باوجود جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ایک کثیر تعداد مختلف شہروں سے نکلی اور اسلام آباد پہنچی، یہ واقعی قابل تحسین بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ہے؟ کیا اس جنگ میں باقی قوم یا جماعتوں کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔

یاد رکھیں اگر جماعت اسلامی کے اس دھرنا کو آپ نے یا میں نے سپورٹ نہ کیا تو مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جس تیزی سے ریاستی منصوبہ ساز ملکی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا ہمارے پاس دھرنا کا موقع بھی نہیں ہوگا۔ جس طرح بولنے والوں کی زبانیں بند کروائی جا رہی ہیں، مظاہرین کو جیلوں میں پھینکا جا رہا ہے، جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر عوام کو خوف زدہ کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے، کیا ایک اسلامی یا فلاحی ریاست ایسا کرتی ہے؟

میرے ملک کو مہنگائی نے کس مقام پر پہنچا دیا، گزشتہ ایک ماہ میں پچاس لوگوں نے خودکشی کی ہے، اپنے بچوں کو مار ڈالا، کیا اس کا الزام ریاست کے سر نہیں جاتا؟ جب آپ ایک ایک گھر کو سو سو یا دو دو سو یونٹ زیادہ بل بھیجیں گے، دانستہ اوور بلنگ کریں گے تو اس کے نتائج مثبت تو نہیں آئیں گے۔ جماعت اسلامی اس ملک کے ٹیکس دہندہ عوام کی جنگ لڑی رہی ہے، جو حکومت غریبوں پر ٹیکس لگا کر امیروں کو عیاشی کا موقع دے، اس حکومت کو چلنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ نظام امیروں کی شہہ خرچیوں نے تباہ کیا، جماعت اسلامی نے اس کے خلاف احتجاج کیا، آپ سب اس احتجاج کے لیے نکلیں اور حافظ نعیم الرحمن کی آواز بنیں۔

پاکستان کا سیاسی و معاشی منظر نامہ ناگفتہ بہ ہے، سیاست دانوں اور ملکی اداروں پر قابض چند طاقتور افراد نے نظام کی تباہی میں جو کردار ادا کیا، تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی، نظام کی مضبوطی کا ڈھونگ رچا کر اس ملک کے اداروں کو کمزور کرنے والوں نے عوام کے منہ سے روٹی کانوالہ تک چھین لیا، ایک دیہاڑی دار مزدور جس کی ماہانہ آمدن تیس سے چالیس ہزار ہے، اس پر ٹیکس کے نام پر جو ظلم کیا گیا، اس کا حساب کون دے گا؟ پنجاب کی لاڈلی وزیر اعلیٰ کہا کرتی تھی "جب آپ بجلی کا بل جمع کروانے جائیں گے، آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کا بل پنجاب حکومت نے جمع کروا دیا ہے"، ایسے سبز باغ دکھا کر ووٹ چھیننے والوں سے کوئی تو حساب لے، بلاول بھٹو بھی غریبوں کے لیے فری یونٹس دینے کا اعلان کرتے رہے مگر نتیجہ صفر۔

پچھلے چند ماہ کی واپڈا گردی کا اس مفلوج حکومت نے کوئی نوٹس لیا، ہوش ربا بلوں پر کسی بھی طرح کا نوٹس نہیں لیا گیا، وزیر داخلہ نے یہ تو کہہ دیا کہایکشن لیں گے مگرواپڈا کے دفاتر میں اس غریب قوم کو جس ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، راقم اس کا عینی شاہد ہے۔ آپ کسی بھی واپڈا دفتر کا وزٹ کر لیں، آپ کو وہاں سینکڑوں لوگ چیختے چلاتے نظر آئیں گے، وہاں کسی بھی طرح کی شنوائی نہیں۔ ایک ایس ڈی او ہے یا پھر آراو، ایکس ای این ہے یا پھر دیگر متعلقہ عملہ، ان کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

میں گزشتہ کئی دن واپڈا کے دفاتر کے چکر کاٹتا رہا، میرے بل میں ایک سو چودہ یونٹس زیادہ ڈالی گئیں اور ظلم یہ کہ کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ایس ڈی او سے لے کر آر او تک، سب سے ملا، ان سے گزارش کی کہ محترم صرف اسی سوال کا جواب مطلوب ہے کہ دو چار نہیں ایک سو چودہ یونٹس زیادہ ڈالے گئے، بل پر لگی ریڈنگ کی تصویر، سابقہ اور موجودہ یونٹس کی تفصیل، کچھ بھی آپس میں میچ نہیں کررہا، کیا یہ بھی آئی پی پیز کے معاہدوں کی وجہ سے ہوا؟ ماہِ جون میں جس طرح کی اوور بلنگ کی گئی، حیران کن ہے، وہ صارفین جن کا بل سو، دو سو یونٹس سے کبھی اوپر نہیں گیا تھا، انھیں بھی تین سے چار سو یونٹس کا بل بھیجا گیا اور ایسے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں یا ہزاروں صارفین ہیں جن کے ساتھ یہ ظلمِ عظیم ہوا۔

میں جب اپنے بل کی درستی کے لیے آراو کے دفتر پہنچا تو اس کا تضحیک آمیز رویہ انتہائی شرم ناک تھا، وہ بات سننے کو تیار نہیں تھا، درجنوں لوگ اس کے دروازے پر کھڑے اندر جانا چاہتے تھے، اپنا دکھ بیان کرنا چاہتے تھے مگر وہ جس بدتمیزی سے پیش آ رہا تھا، اس پر کیا لکھوں۔ خیر جیسے تیسے میں نے آر او سے باہر کھڑے لوگوں کا مدعا بیان کیا، اس سے گزارش کی کہ تم جس سیٹ پر بیٹھے ہو، یہ سیٹ بھی باہر کھڑی لاچار اور بے بس عوام کی دین ہے لہٰذا کچھ احساس کرو اور ان کی بات سنو۔

واپڈا گردی کسی ایک علاقے یا وارڈ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ قومی مسئلہ بن چکا ہے، پورا ملک چیخ رہا ہے، چلا رہا ہے، دو وقت کی روٹی سے تنگ لوگ، تیس سے چالیس ہزار کا بل تھامے چوکوں چوراہوں میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں، وہ حساب مانگ رہے ان سے جو ووٹ کو عزت دینے آئے تھے، غریب کی زندگی کو پُرسکون بنانے آئے تھے مگر صد حیف، موجودہ مفلوج حکومت اور اس کے حامیوں نے آٹھ فروری سے پہلے جتنے دعوے کیے، سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ٹیکسوں کے نام پر، بزنس اور نوکریوں کے نام پر، بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کے نام پر، جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کی ذمہ دار بہرحال پی ڈی ایم ٹو ہے۔

عمران دشمنی میں یہ حکومت اور اس کے حامی بھول گئے کہ ہم عوام کی زندگیاں بہتر کرنے آئے تھے، مینار پاکستان کے سائے تلے نون لیگ نے جو دعوے کیے تھے، وہ کہاں گئے؟ شہباز شریف تو تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں سے ہاتھ ملا کر جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے مگر یہاں تو سب الٹ ہو رہا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جمہوریت، عدالتوں اور اسٹبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہے، باقی سارے مسائل ثانوی ہیں۔ حالانکہ یہ معاملہ الٹ ہونا چاہیے تھا، نظام کی مضبوطی کے لیے اداروں کو تمام سیاسی پارٹیوں کو متحد کرنا چاہیے تھے، انھیں جمہوری کی مضبوطی کے لیے ایک ٹیبل پر لانا چاہیے تھا مگر عمران خان کی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی نے نظام کر درہم برہم کر دیا ہے، ملک کے تمام اہم ادارے اندر سے کھوکھلے ہو چکے، صرف ذاتی عناد اور دشمنی میں۔

آپ صرف واپڈا کو ہی لے لیں، جتنا ظلم ہوا یا آگے ہوگا، اس پر کسی ایک آفسر کے خلاف بھی کاروائی ہوئی، کوئی ایک ایس ڈی او، ریوینیو آفیسر یا ایکس ای این کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا کہ اووربلنگ کیوں ہوئی، تین ہزار کے بل پر چھے ہزار کا ٹیکس کیوں لگایا گیا، دو سو یونٹس کا بل تین ہزار، جب کہ دو سو ایک یونٹ کا آٹھ ہزار کیسے ہوگیا؟ یا کم سے کم یہ تو سوال کیا جاتا کہ پروٹیکٹیو صارفین کو جان بوجھ کر اَن پروٹیکٹیو کیوں بنایا گیا، کس کی ملی بھگت سے یہ ڈرامہ رچایا گیا، کون کون اس میں حصے دار تھا، اتنا سوال تو پنجاب کی وزیر اعلیٰ کر کرنا چاہیے تھا مگر اس نے نہیں کیا۔

واپڈ ملازمین، سیاست دان، ججز، فوجی افسران اور بیوروکریٹس کو ملنے والی فری بجلی کا بل بھی عام آدمی دے رہا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے، ایک مزدور سے ان یونٹس کا بل بھی لیے جان رہا ہے، جو اس نے استعمال ہی نہیں کی، کیا اس کا حساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ ظلم بند نہیں ہونا چاہیے کہ جتنا بڑا سرکاری افسر ہوگا، بجلی کے اتنے زیادہ یونٹس فری ہوں گے؟

عوام کا غم و غصہ دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ چیف جسٹس ایکشن لیں گے مگر شاید ان کا بھی سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہے، عوام کے مسائل نہیں۔ مجھے خوشی ہے جو کشمیری عوام نے کیا، حکومت اس انقلاب سے ڈرے جس کے بعد انھیں سر چھپانے کو بھی جگہ نہیں ملے گی، شہباز، نواز، ذرداری، بلاول، مریم اور محسن نقوی، اس دن سے ڈریں جب حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں اور "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad