Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aaghar Nadeem Sahar
  4. Ahmed Farhad, Adbi Baradari Kahan Hai?

Ahmed Farhad, Adbi Baradari Kahan Hai?

احمد فرہاد، ادبی برادری کہاں ہے؟

احمد فرہاد ایک دبنگ لہجے کا تیکھا شاعر ہے، ایک ایسا دردِ دل رکھنے والا سخن ور جس نے ہر اس واقعے اور حادثے پر آواز اٹھائی جس سے مظلوموں کی داد رسی ہو سکتی تھی، اس نے نتیجے کی پروا کیے بغیر طاقتور حلقوں کو للکارا، ان سے اپنے حقوق کا سوال کیا، آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے والوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا، اس کے تلخ لہجے اور اندازِ بیاں سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس کے سوالوں سے نہیں، احمد فرہاد کی جانب سے اٹھائے جانب والے سوالات صرف احمد فرہاد کے نہیں ہیں بلکہ ہر اس محب وطن کے ہیں جس کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے، احمد فرہاد نے ہر اس نوجوان کی آواز پر لبیک کہا جو اس وطنِ عزیز کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا تھا مگر اس کی آواز دبائی گئی، جمہوری اداروں پر شب خون مارنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا، ان سے حساب لینا ایک مشکل کام تھا، احمدفرہاد نے اس مشکل کام میں ہاتھ ڈالا اور یوں اسے اٹھا لیا گیا۔

میں نے پہلے ذکرکیا کہ ہم سب کو اس کے انداز اور لہجے سے اختلاف تھا اور ہے مگر اس کی باتیں اور اس کا غم و غصہ جائز ہے، وہ کشمیری ہے اور کشمیر روز ازل سے جس تکلیف سے گزر رہا ہے، فرہاد اسے کیسے بھول سکتا تھا سو اس نے کشمیریوں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا، کشمیر میں جاری احتجاج پر وہ غصے سے بھرے ہوئے ٹویٹ کرتا رہا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عسکری حکام کے خلاف احتجاج کرتا رہا اور اس احتجاج کی کوریج پر زور بھی دیتا رہا، کشمیر کا مستقبل داءو پر لگانے والوں کو سوشل میٖڈیا کے ذریعے للکارتا رہا۔

احمد فرہا د کی غیر قانونی گرفتاری کو دو ہفتے گزر چکے، تاحال کسی بھی طرح کی کوئی خبر نہیں مل سکی، عدالت چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہے کہ "احمد فرہاد کہاں ہے" جب کہ جواب میں آئی جی اسلام آباد صرف اتنا کہا کہ تلاش جاری ہے، اٹارنی جنرل کو عدالت نے جمعہ تک کا وقت دیا تھا مگر وہ ناکام رہے توجسٹس محسن اختر کیانی نے آٹھ صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلہ جاری کیا۔

ہم کچھ دیر کے لیے اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ احمد فرہاد کو کیوں اٹھایا گیا اور اس پر لگائے جانے والے الزامات کتنے گھمبیر ہیں، مجھے اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ احمد فرہاد کو اٹھانے والے کون ہیں اور وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، یہ سارے سوالات کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھتے ہیں۔

میرا سب سے اہم اور بنیادی سوال ادبی برادری سے ہے کہ اس ساری صورت حال میں وہ کہاں کھڑی ہے، کیسی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک شاعر کو اٹھا لیا گیا ہے اور پاکستان میں موجود لاکھوں شاعر خاموش بیٹھے ہیں، ہمارے وہ سینئرز کہاں ہیں جو ہرسرکاری کانفرنس، مشاعرے اور ایوارڈ پر اپنا حق سمجھتے ہیں، وہ سب کہاں ہیں، کہاں ہیں میرے سینئرزافتخار عارف، کشور ناہید، مستنصر حسین تارڑ، اختر عثمان، اصغر ندیم سید، عطاء الحق قاسمی، انور شعور، سحر انصاری، قاسم پیرزادہ، انور مسعود، سلمان گیلانی اورعباس تابش یہ سب کہاں ہیں، یہ کیوں نہیں بولے کہ آپ کو احمد فرہاد سے اختلاف ہے تو اسے قانون کے کٹہرے میں لائیں، اسے عدالت سے سزا دلوائیں مگر ایسے کسی بھی قلم کار کی آواز کو دبانا یا قتل کرنا بالکل جائز نہیں، یہ سینئرز احتجاج نہ بھی کرتے تو حکام بالا سے بات تو کر سکتے تھے، کوئی سیٹل منٹ تو کروا سکتے تھے مگر حیف صد حیف یہ سب خاموش ہیں، احتجاج تو کیا مصالحت کی کوشش بھی نہیں کر رہے۔

کہاں ہیں ہمارے ادبی اداروں کے سربراہان، کیا وہ طاقتورطبقوں سے بات نہیں کر سکتے کہ یہ ظلم بند کریں، کسی بھی قلم کار کوغائب نہ کیا جائے اور نہ اسے غیر قانونی کاروائی کا حصہ بنایا جائے، ایک قلم کار کا بنیادی کام سوال اٹھانا ہے، ایک شاعر اگر معاشرے کی زبوں حالی، نا انصافی پر بات نہیں کرے گا تو وہ کس پر بات کرے گا۔ ادیب اگر طاقت کے سامنے جھک جائے گا تو اس کا لکھا کس کام کا، کیا ہمارے ادیب صرف مشاعرے اور ادبی میلوں کی حد تک دوست ہوتے ہیں، کیا ایک قلم کار کا دکھ، ساری برادری کا دکھ نہیں ہے؟ مدثر نارو غائب ہوا تھا، آج تک واپس آیا؟ تابش بلوچ غائب ہوا، کسی نے آواز اٹھائی، کیا وہ واپس آیا؟ آج احمد فرہاد اٹھا لیا گیا، یاد رکھیں کل آپ کا کوئی اور پیارا بھی اٹھایا جا سکتا ہے، کیا آپ تب بھی خاموش رہیں گے؟ مجھے دیکھ کر انتہائی دکھ ہوا کہ اسلام آباد میں فرہاد کے لیے صرف بارہ لوگ نکلے اورلاہور میں تیس کے قریب سٹوڈنٹس جب کہ ملک بھر میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں شاعر تو ہوں گے۔

ممکن ہے آپ کو احمد فرہاد سے اختلاف ہو، مجھے بھی اختلاف ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شاعر کو سچ بولنا چاہیے مگر جان بچانا بھی فرض ہے، آپ سوال اٹھائیں، بات کریں مگر اپنے رویے اور لہجے پر ضرور غور کریں، فرہاد کی نظ میں تو سخت تھیں مگراس کے ٹویٹ اور متشدد نعرے اسے لے ڈوبے، خیر جو بھی ہوا ہ میں ایک قلم کار کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تاکہ کل کوئی اور شاعر ایسے لاپتہ نہ ہو۔

آج نہیں تو کل ہمارے ادبی اداروں کو ایک واضح روڈ میپ بنانا پڑے گا، احمد فرہاد ہو یا کوئی بھی قلم کار، غیر قانونی گرفتاری قابل قبول نہیں ہے، طاقتور اداروں کی عزت اور احترام اپنی جگہ مگر ایک قلم کار کی آواز کو دبانا معاشرے کی چلتی نبض کو روکنے کے مترادف ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، ادارہ فروغ قومی زبان، انجمن ترقی اردو، مجلس ترقی ادب، بزم اقبال، پلاک، اقبال اکادمی پاکستان، نیشنل بک فاءونڈیشن، حلقہ اربابِ ذوق، انجمن ترقی پسند مصنفین، پنجابی ادبی سنگت اور دیگر درجنوں ادارے اور آرٹس کونسلیں، یہ سب مل کر ایک لاءحہ عمل بنائیں، ایک ایسی پالیسی جس میں قلم کاروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، یہ سارے ادارے احمد فرہادکی بازیابی کے لیے متحرک ہوں، حکومتی مشینری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کریں تاکہ کل کسی اور شاعر کے اہل خانہ کو اس اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔

ادبی اداروں کا کام صرف فنڈز لینا اور کانفرنسیں کروانا نہیں ہوتا بلکہ ادیب برادری کی زندگیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا بھی ہوتا ہے۔ شاعر کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی قوم اور قبیلے کا ہو، کسی بھی گروہ سے ہو، اس کا کام لکھنا اور بولنا ہے سو بولے گا، ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کیاخوب کہا تھا کہ"اگر ادیب میں اخلاقی اور تخلیقی جرات نہیں تو اسے لکھنا چھوڑ دینا "۔ ہماری ادبی برادری پالیسی بنائے کہ قلم کار پر قدغن نہ لگائی جائے ا، اگر شاعروں پر قدغن لگانے اور ان کو اٹھائے جانے کی رسم چل نکلی تو یاد رکھیں کوئی بھی نہیں بچے گا، سب کے گھر جلیں گے۔

Check Also

Asad Muhammad Khan

By Rauf Klasra