صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے مضمرات
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کو پوری دنیا بالخصوص پاکستان اور چین نے بڑے غور سے دیکھا، حالانکہ اسی دوران امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی پرائمری انتخابات اور کرونا وائرس کے چین کی سرحدوں سے باہر نکل کرایک عالم گیر وباءکی شکل اختیار کرنے کے خطرات نے عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی تھی۔ بی جے پی کی حکومت نے اس دورے کےلئے بھرپور تیاریاں کی تھیں اور ایک لحاظ سے اسے شاہی دورے کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اس کا مقصد صدر ٹرمپ کی کبھی نہ تسکین پانے والی انا کو خوش کرنا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان غیر معمولی قریبی تعلقات کا اظہار کرنا تھا۔ چنانچہ قدیم بھارتی ثقافت کی نمائندگی کرتے سینکڑوں فنکار صدر ٹرمپ کے خیر مقدم کےلئے ائیرپورٹ پر موجود تھے۔ اس دورے کے موقع پر نئی دہلی میں ایک جشن کا سماں تھا اور شہر کے ناخوشگوار پہلوؤں کو مصنوعی طریقوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ ان سب اقدامات کا مقصد امریکہ پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ بھارت کی حکومت اور عوام امریکہ کےلئے کس قدر گرم جوشی پر مبنی جذبات رکھتے ہیں۔ دہلی سٹیڈیم میں دونوں رہنماؤں نے دل کھول کر ایک دوسرے کی تعریفوں کے پُل باندھے۔ مودی نے اپنے خطاب میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کئے جن کی بدولت اس تعلق کو ایک نیا رخ ملتا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اب یہ شراکت پہلے کی نسبت بہت بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ مودی کے اس اندازِ تخاطب سے مجھے تقسیم ہند سے قبل کے وہ ایام یاد آ گئے جب ہندوستانی اشرافیہ برطانوی شہنشاہیت سے اپنی الفت اور وفاداری کا دم بھرتی تھی۔ تعریف و توصیف کایہ عمل بڑا سوچا سمجھا تھا کیونکہ دونوں ہی رہنما اپنے ذاتی امیج کو فروغ دینے میں بڑے ماہر تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ ستائشِ باہمی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب کبھی بھارت یا ہندومت کا تذکرہ ہو تو صدر ٹرمپ اسی طرح فیاضی پر مبنی گفتگو کرتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ ان اصولوں اور آدرشوں کو فراموش کر دیتے ہیں جو کسی دور میں امریکی طرز زندگی کا خاصہ سمجھے جاتے تھے اور جنہیں دنیا کی نو آموز جمہوریتیں کبھی اپنے لئے ایک معیااور مثال کا درجہ دیتی تھیں۔
بلا شبہ بھارت اور امریکہ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں کے تاریخی تجربات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی سابقہ نو آبادیاں ہیں اور دونوں نے آزادی حاصل کرنے کی خاطر جدوجہد کی ہے۔ غلامی اور طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کرنے کا یہ تجربہ پاکستان پر بھی یکساں طور پر صادق آتا ہے۔ بڑی مہارت سے ترتیب دیے گئے اس نازو انداز اور خوشامدی طرز تکلم سے ذرا ہٹ کر دیکھا جائے تو مودی کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے نزدیک اپنی اہمیت اجاگر کر کے بھارتی تارکین وطن کو متاثر کر سکے۔ اس کی بدولت اسے سیاسی فوائد حاصل ہونے کے علاوہ ان تارکین وطن کی طرف سے بھارت میں سرمایہ کاری کے اضافی فوائد حاصل ہونے کا بھی امکان ہے۔ صدر ٹرمپ کا بھی مفاد اس میں ہے کہ وہ بھارت نژاد بااثر امریکیوں کی بڑی تعداد سے ایک تعلق قائم کر سکے۔ اسے بھی انتخابات کے دوران ان کی حمایت اور مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ یہودیوں کے بعد سیاسی اثر و رسوخ اور معاشی طور پر آسودہ حال ہونے میں انہی بھارتیوں کا نمبر آتا ہے۔ موجودہ یا حال ہی تک گوگل، مائیکروسوفٹ اور متعدد دیگر اہم کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز بھارتی نژاد امریکی ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں موجودہ گرم جوشی کی ایک اور وجہ دفاعی امور میں بڑھتا ہوا اشتراک ہے۔ آج بھارت امریکی دفاعی سازوسامان اور ٹیکنالوجی کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران تین بلین امریکی ڈالر کے دفاعی سودے کا اعلان کیا۔ 2007ءسے لےکر اب تک بھارت نے امریکہ سے لگ بھگ 17 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے اور یہ نئے معاہدے ان خریداریوں میں ایک نئی تیزی کا موجب ثابت ہوں گے۔ دفاعی سازوسامان کی فہرست میں 24 عدد ایم ایچ 60 آر سی ہاک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔ بھارت نے اگلے تین سے پانچ سالوں کے دوران امریکی اسلحہ خریدنے کیلئے دس بلین ڈالرز مختص کئے ہیں۔ بھارت مصر ہے کہ امریکہ اسے اس اسلحہ کی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرے اور یہ اسلحہ بھارت میں تیار کرنے کی اجازت دے۔ امریکہ بھارت کو اس حد تک اجازت دینے پر آمادہ ہو جائے گا کہ ان میں انتہائی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ شامل نہ ہو۔ امریکہ کی طرف اس جھکاؤ سے بھارت اپنے روایتی اسلحہ سپلائر روس سے بتدریج دور ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ صدر ٹرمپ عوامی یا نجی سطح پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے بھارتی حکومت کے ناروا سلوک کا تذکرہ کریں گے یا پھر ان خطرات کا ذکر کریں گے جو اس سلوک کے باعث بھارت کو ایک ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل کرنے کا باعث بنیں گے یا پھر کشمیر پر ایک خوفناک حکومت مسلط کر دینے کے معاملے پر بات کریں گے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال اور مذہبی بنیادوں پر برتے جانے والے تعصب کا بھی کوئی ذکر نہ کیا گیا۔
معاشی مصلحتیں تو رہیں ایک طرف، صدر ٹرمپ کا اپنا ریکارڈ بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف سخت تعصب پر مبنی رہا ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ جب صدر ٹرمپ بھارت کے دورہ پر تھے تو دہلی میں شہریت کے متنازعہ ایکٹ کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں جاری تھیں۔ امریکہ اور بھارت کے رہنماؤں کے درمیان باہمی تعریف و توصیف کے یہ بلند بانگ اشارے کنایے اندرون ملک اور بین الاقوامی برادری کےلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان اور چین کےلئے امریکہ بھارت تعلقات کا حجم، گہرائی اور ان کی اصلیت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان کےلئے یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ تعلقات کس طرح ان کے اپنے ممالک اور اس خطے کو متاثر کریں گے۔ بہت سے پہلو مثلاً جغرافیائی، تزویری، سیاسی اور معاشی پہلو قابل توجہ ہیں کیونکہ ان کی بنیاد پر امریکہ اور بھارت کے مفادات اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تزویری سطح پر بھارت کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں چین کے مساوی دم خم ہے۔ اس کے وسائل، قابلیت، حجم اور آبادی چین کے برابر ہیں لیکن اس کی معیشت جو اگرچہ حال ہی تک دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی معیشتوں میں سے ایک تھی مگر اب سُست روی کا شکار ہو گئی ہے اور اسے وہی رفتار دوبارہ حاصل کرنے کےلئے طویل المیعاد امداد کی ضرورت ہو گی۔ علاوہ ازیں بی جے پی کی عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں قومی اتحاد و یگانگت کمزور پڑ چکے ہیں۔ بھارت کی کل آبادی کے 12 تا 16 فیصد مسلمان اور دیگر اقلیتیں جن میں عیسائی اور دلت شامل ہیں، حکومت کی امتیازی پالیسیوں کا مسلسل ہدف بنے ہوئے ہیں۔ یہ پالیسیاں ہندو قوم پرستوں کے دل تو جیت سکتی ہیں مگر طویل مدت میں قومی ترقی کےلئے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ یہ ایک مختلف معاملہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے عوامی سطح پر یا ذاتی سطح پر بات چیت کے دوران اس مسئلے پر بات نہیں کی کیونکہ اقلیتوں سے معاملات طے کرنے کے سلسلہ میں تو اس کا اپنا ریکارڈ بھی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
وزیراعظم نریندرا مودی کی پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ بھارت پاکستان پر جتنا بھی ناجائز دباؤ ڈالے گا اوراس پر امریکہ خاموشی اختیار کرتا رہے گا، پاکستان اتنا ہی چین کی طرف جھکتا چلا جائے گا اور امریکہ و بھارت کے اس طرز عمل سے ہی پاکستان کے اس جھکاؤ، مسلمان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے نیز یورپی یونین سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو جواز ملے گا۔