ترکھانوں کا بیٹا بازی لے گیا
31 اکتوبر1929ء کو غازی علم الدین شہید کو اس میانوالی کے علاقے کی جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا جہاں سے عمران خان کے ددھیال کا بھی تعلق ہے، لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس عاشق رسول کے آباء واجداد میں سے بابا لہنا نے جب اسلام قبول کیا تو اس نے لاہور کے سرحدی علاقے برکی ہڈیارہ میں آکر اپنا ٹھکانہ بنایا، یہ وہی برکی ہے جو عمران خان کا ننھیال ہے۔ مجھے کوئی مماثلت نہیں ڈھونڈنی۔
میں تو حیرت میں گم آج سے نوّے سال قبل آنکھوں میں آنسو لیے علامہ اقبال کے اس چہرے کو اپنے تصور میں لا رہا ہوں جو غازی علم الدین شہید کو لحد میں اتارتے ہوئے ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ میانوالی میں شہید کو دفن کرنے کے بعد جب مسلمانوں کا ایک وفد، علامہ محمد اقبال، سر محمد شفیع اور مولانا ظفر علی خان، کے ساتھ گورنر پنجاب سے ملا اور غازی علم الدین کے جسد مبارک کی حوالگی کی درخواست کی، تو وہ اس یقین دہانی پر مان لی گئی کہ امن عامہ کی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہوگی۔ پندرہ دن بعد لاہور کی تاریخ نے ایک خیرہ کن منظر دیکھا۔
غازی علم الدین کا جسد مبارک ایسا تروتازہ تھا کہ چہرے پر غسل کے پانی کے قطرے چمک رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے ابھی ابھی غازی علم دین شہید وضو کرکے آئے ہوں۔ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ، ساڑھے پانچ میل طویل، کون تھا جو اس سعادت سے محروم رہتا۔ شہید کو لحد میں مولانا دیدار علی شاہ اور علامہ اقبال نے اتارا۔ میت سرہانے کھڑے آنسوؤں سے تر اس عاشق رسول، عندلیبِ باغِ حجاز، پروانہ شمع رسالت علامہ اقبال نے کہا " ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے"۔
ہر وہ شخص جو سید الانبیاء ؐ کی ناموس اور حرمت سے محبت کرتا ہے، اس کی کیفیت اس وقت بالکل ویسی تھی جب عمران خان عالمی فورم پر سید الانبیاء سے مسلم امت کی والہانہ محبتوں کا اظہار کر رہا تھا۔ ایسے میں میرے پاس اسے نذر کرنے کے لئے آنکھوں میں ڈبڈباتے ہوئے آنسوؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔ کون ہے جس کا دل زخمی نہیں ہے، کس کی راتیں برسوں سے بے خوابی میں نہیں گزرتیں کہ اس کے پیارے رسولؐ کی شان میں روزانہ گستاخی ہوتی ہے اور وہ بے بس و لاچار ہے، اس کے بس میں کچھ نہیں، وہ پکار پکار کر بتانا چاہتا ہے کہ میں اس مدینے والی سرکار سے اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد سے زیادہ محبت کرتا ہوں، یہ میرا آخری سرمایہ ہے یہی میرے ایمان کی جمع پونجی ہے۔ لیکن اس کی آواز صدا بصحرا ہے۔
وہ کوئی مولوی ہے تو بس جمعہ کے خطبے میں آواز بلند کر لیتا ہے، کسی تحریک کا سربراہ ہے تو جلوس نکال لیتا ہے، دھرنا دیتا ہے، مفتی ہے تو فتوٰی دیتا ہے، کالم نگار، دانشور ہے تو کالم لکھتا ہے، ٹی وی پر گفتگو کرتا ہے۔ لیکن یہ سب مل کر بھی اپنی آواز ان گستاخانِ رسول اور اسلام دشمنوں تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی ان کو عالمی سطح پر اس طرح لاجواب کرسکتے ہیں، جس کا موقع اور استحقاق میرے اللہ نے عمران خان کو عطا کردیا۔
میں تو مالک کائنات کی فرماں روائی کا اس حد تک قائل ہوں کہ کوئی پتّہ بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو ناموس رسالت کیلئے آواز بلند کرنے کی توفیق منشائے الہی کے بغیر ہوئی ہو۔ یہ تو انتخاب ہے اور مجھے اس پرصرف رشک کرنا ہے۔ میرے پاس صرف تشکرکے آنسو ہیں۔ اقوام متحدہ کے 193 ممبر ممالک کے جمِ غفیر میں 57 مسلمان ریاستوں کے سربراہ ہیں اور ان میں سے اللہ نے میرے ہی ملک کے سربراہ کو یہ توفیق عنایت کی۔
شاتمین رسول کا قصہ کوئی تازہ نہیں ہے۔ مغربی دنیا میں اس کا آغاز سید الانبیاء ؐ کے وصال کے تقریبا ڈیڑھ سو سال بعد 780ء میں ہوگیا تھا جب ایک شخص تھیو فس (Theophanes the confessor) نے رسول اکرم ؐ کی شان میں گستاخانہ سوانحی خاکہ تحریر کیاتھا۔ یہ واحد شخص ہے جسے اپنے زمانے کے عیسائیوں کے دونوں بڑے گروہ یعنی رومن کیتھولک اور مشرقی آرتھوڈوکس نے 12مارچ 817ء میں اسکی موت کے بعد اسے ایک قابل احترام سینٹ کا درجہ دیا اور اسے پوری عیسائیت کا مشترکہ راہب قرار دیا۔
اس ملعون کی موت کے بعدسے آج تک یعنی بارہ سو سال تک مغربی دنیا کی پوری علمی تاریخ، اسلام دشمنی، اسلام فوبیا اور سید الانبیاء ﷺ کی گستاخیوں سے بھری ہوئی ہے۔ کوئی بڑا مورخ اٹھا لیں آپ کو اس کی تحریروں میں اسلام اور سید الانبیاء ﷺ سے نفرت ملے گی۔ یہ نفرت اور تعصب ان کی تحریروں میں اتنا واضح ہے کہ وہ تکلیف دہ حدتک جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ آپ کوئی بڑا نام لے لیں، ولیم میور، مارگولیتھ، میکس ویبر، ڈاکٹر سپرنگر، ٹوائن بی، سر ہمیلٹن گب، منٹگمری واٹ، تھامس کارلائل، غرض ایک لمبی فہرست ہے جس میں ہر کسی نے ہر صدی میں اس جرم میں حصہ ڈالا۔
یہ وہ مورخین ہیں جنہوں نے تاریخ میں اتنا جھوٹ بولا ہے اور اس صفائی سے بولا ہے کہ آج مغرب کا ہر بچہ اور میرے ملک کا انگریزی میڈیم تاریخ پڑھنے والا ان بارہ سو برسوں میں لکھے ہوئے اس جھوٹ کو تاریخی مآخذ "Historical Source " سمجھ کر سچ مان لیتاہے۔ یہ ہے وہ صدیوں پر محیط سازش جس کے خلاف مسلمانوں میں سے محبت رسول ؐکے امین علمائے کرام، مفتیان، حکام اور ادیبوں دانشوروں نے ہمیشہ آواز اٹھائی، لیکن یہ تمام آوازیں اس امت کے لوگوں کے لئے تسکین روح کا باعث تو نہیں بنتی رہیں لیکن مغرب کے لئے یہ ایک چھوٹا سا واقعہ بھی نہ بن سکیں۔
عمران خان کی تقریر ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ یہ دو وجوہات کی بنیاد پر زیادہ پراثر ہے، جادوئی تاثیر رکھتی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اسی مغرب کی تہذیب کا ہیرو رہا ہے، اسے یورپ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں نے دہائیوں تک اپنے دل کا شہزادہ (Heart throb) بنا رکھا تھا۔ ایسا شخص جب میرے آقا سرکار دو عالم ؐکی ناموس کا پرچم اٹھاتا ہے تو پھر مغرب سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ان کا یقین ایسی تمام جھوٹی تحریروں پر متزلزل ہو جاتا ہے اور وہ اصل اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑے اسلامی ملک اور ایٹمی طاقت کا منتخب وزیراعظم ہے۔ اس کی آواز پورے عالم میں گونجتی ہے اور وہ بھی ایک عالمی فورم پر تو پھر وہ صرف عمران خان نہیں، بلکہ بائیس کروڑ مسلمانوں کا نمائندہ بن جاتا ہے ایسا نمائندہ جسے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمائندگی کا حق اور میرے آقا کی ناموس کے تحفظ کا شرف بھی خود بخود حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع گذشتہ تیس سالوں میں بے نظیر، زرداری، مشرف اور نواز شریف کو بھی اپنے دور اقتدار میں ملے، لیکن انہیں یہ سعادت حاصل نہ ہو سکی۔
سلمان رشدی کی واہیات کتاب 1988ء میں آئی تو پورا عالم اسلام سراپا احتجاج تھا۔ بے نظیر اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کی فرد جرم لے کر دنیا سے رخصت ہوگئی۔ 2005 میں گستاخانہ کارٹون چارلی ہیبڈو میں چھپے تو مشرف برسراقتدار تھا، پھر زرداری اور نواز شریف دور میں بھی بار بار چھپتے رہے، یہ سب حکمران اپنی خاموشی کی ایف آئی آر لیے اللہ کے حضور جانے کے منتظر ہیں۔ ہر ایک کو اقوام متحدہ کا یہ فورم میسر آیا سب نے تقریر یں کیں، لیکن ان کی زبانیں گنگ رہیں۔ کسی کو اللہ نے یہ قوت گویائی نہ دی تھی۔
علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے خلاف جب سپریم کورٹ میں خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ جمع کروائی تو لکھا کہ اوریا مقبول جان انہیں اخبار اور ٹی وی پر بہت سپورٹ کرتا تھا۔ میں نے فرد جرم کے جواب میں کہا تھا کہ ناموس رسالت کے لئے اگر بد نام ترین ڈاکو بھی کھڑا ہوگا تو میں اس کی جوتیا ں اٹھاؤں گا۔ اس وقت عمران خان کی تقریر کے خلاف بولنا یہ ثابت کرے گاکہ آپ کو ناموس رسالت سے نہیں، بلکہ اپنے نفس کی ریاکاری سے محبت ہے۔
میری حالت تو اقبال کے آنسوئوں سے بھیگے چہرے والی ہے کہ "ساری زندگی ناموس رسالت پر لکھتے، بولتے رہے اور ایک مغرب زدہ کھلاڑی بازی لے گیا"۔