جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
عام آدمی کا ذکر چھوڑیں کہ اس کا تو مقدر ہی ذلت و رسوائی اور دَر دَر کی ٹھوکریں ہیں، جیل کی بیرکوں میں کھائے، عدالتوں کے دروازوں پر کھائے یا ہسپتال کی راہداریوں میں۔ کوئی مقابلہ نہیں اسکا ان لوگوں کے ساتھ جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آپ سونے کا چمچہ لے کر بھی پیدا ہوں تب بھی آپ اس "حسنِ سلوک" کے مستحق نہیں ہوسکتے جو حسنِ سلوک آپکو اس وقت میسر آتا ہے جب آپکے سر پر جمہوری سیاسی پارٹی کی ٹوپی ہو اور آپ کی جیب میں چند ہزار یا چند لاکھ ووٹ ہوں۔
اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو پاؤں کی ٹھوکر لگنے سے بچانے والے، آپ کے دلوں کی دھڑکن کے منتشر ہونے پر آہ و بکا کرنے والے، آپ کو چوری، ڈاکہ، قتل، اغوا برائے تاوان جیسے بدترین جرم کے باوجود بھی آپ کی محبت میں آپ کے دفاع کے لیے جھوٹ بولنے، کہانیاں تراشنے اور آپ کے جرائم کا جواز پیش کرنے والے ہرجگہ مل جائیں گے۔
پاکستان میں صرف جمہوری سیاست دان ہی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ بے شمار ارب پتی ہیں جن کے کاروبار سے لاکھوں افراد رزق حاصل کرتے ہیں۔ اعلی ترین بیوروکریٹ ہیں جن کے جنبش قلم کے بغیر کوئی سیاستدان، حکمران، جرنیل یا برسراقتدار وزیراعظم اہم فیصلے نہیں کر پاتا۔ وہ عزت دار زمیندار ہیں جن کے آباؤ اجداد صدیوں سے وسیع زمینداری کرتے چلے آئے تھے اور وہ آج سیاست و حکومت کے بکھیڑوں سے دور اپنی دیہاتی زندگی عزت و احترام سے گزار رہے ہیں۔
قبائلی سردار ہیں جن کے ہاتھ میں اپنے قبیلے کی زندگی ہے، وہ اس کے نظامِ امن و امان سے نظامِ عدل تک سب کے سربراہ ہیں۔ یہ سب کے سب بھی تواسی مملکت خداداد پاکستان کے معزز و محترم شہری ہیں۔ یہ عام آدمی بھی نہیں ہیں۔ عام آدمی کا پاکستان کے نظام حکومت اور نظام عدل و انصاف سے گلہ اپنی جگہ مسلّم لیکن پاکستان کا یہ نظام حکومت، نظام عدل و انصاف، سیاسی پنڈت اور میڈیا کے بزرجمہر جس طرح کا اعلیٰ و ارفع سلوک سونے کا چمچہ چھین کر اپنے منہ میں ڈال لینے والے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کرتا ہے اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
کسی بھی صوبے میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس دو ایسے عہدے ہیں جو اختیارات و طاقت کے اعتبار سے کسی طور پر بھی وزیراعلی سے کم نہیں ہوتے۔ ان میں سے کچھ ایسے ضرور ہوں گے جن کے والدین کی جائیدادیں میاں شریف، حاکم علی زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو سے کم نہیں ہوں گی۔ بہت سے فیڈرل سیکرٹری ایسے ہیں جن کے آباؤ اجداد اس وقت بھی صاحبان حیثیت تھے جب ان تینوں خاندانوں کا وجود بھی نہیں ہوتا تھا۔
آج اگر ان اہم عہدوں پر فائز بیوروکریٹس جو واقعی سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، ان کے کاروبار آصف علی زرداری، میاں نواز شریف شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی طرح وسعت اختیار کر جاتے۔ انکی ملوں اور فیکٹریوں کی تعداد بے حساب ہو جاتی، انکی اولادیں لندن کے فلیٹوں میں رہ رہی ہوتیں، آف شور کمپنیاں بنا کر کاروبار کر رہی ہوتیں ان کے دامادوں کی بھی لاٹریاں نکل آتیں، وہ بھی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ دبئی اور یورپ کی فرموں کے کنسلٹنٹ ہوتے، اقامے حاصل کرتے، یہ سب کچھ کرنے کے بعد انہیں کرپشن کے الزام میں نیب گرفتار کر لیتا توکیا ان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو آج نواز شریف، مریم نواز اور آصف زرداری کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کیا میڈیا کے چینلز پر ان کے دفاع یا حق میں جھوٹ بولنے اور بار بار بولنے کی اجازت ہوتی۔ انکی دفعہ تو خود اینکر ان پر غراتے، ڈانٹتے اور اپنی جیب سے شواہد نکال کر پیش کرتے۔ آج بھی اس سطح کے افسران جیل میں ہیں لیکن شاید ہی کوئی انکا نام تک جانتا ہو۔
پاکستان میں لاتعداد ارب پتی سرمایہ دار ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کی آمدنی کسی ایک صوبے، کسی ایک بڑی مرکزی وزارت یا کسی ایک ضلع کی کل آمدنی سے زیادہ ہے۔ ان سرمایہ داروں میں سے اگر کسی کو گرفتار کرلیا جائے تو کیا میڈیا ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو آج ان سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میڈیا تو کوشش کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کا کوئی سکینڈل ہاتھ آئے، پہلے اسے دبانے کی قیمت وصول کی جائے، نہ دب سکے تو ہاتھ نرم رکھنے کے پیسے حاصل کیے جائیں، اگر دو پروگراموں میں دانستہ طور پر ہاتھ سخت رکھ دیا جائے تو ایسے لوگ بھی ہیں جوپروگرام نشر کرنے کے اگلے دن بیوی کو ساتھ لے کر اسی سکینڈل میں ملوث شخص کی شاندار ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹ منتخب کرنے چلے جائیں، انہیں میڈیا کنسلٹنٹ رکھ لیا جائے یا پھر انکی قائم کردہ ایڈورٹائزنگ فرم کو بیشمار بزنس عطا کردیا جائے۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اگر کوئی ایسا سرمایہ دار جو مسلسل ان سیاسی پارٹیوں کو فنڈز بھی مہیا کرتا ہو، اگر گرفتار ہو جائے تو اس کے جیل کے دوران ہسپتال منتقل ہونے پر شور مچ جاتا ہے۔ ہر کسی کو عام آدمی کے دکھ یاد آ جاتے ہیں اور ہر کوئی پکار پکار کر احتجاج کرنے لگتا ہے۔ عدالتوں کے جج ہسپتالوں اور جیل وارڈوں پر چھاپے مارتے ہیں اور انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے انہیں واپس جیل میں منتقل کرکے دم لیتے ہیں۔ آج بھی اس سطح کے بزنس مین اور کاروباری حضرات جیل میں ہیں یا نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی انکا نام تک جانتا ہو۔
یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہونا دنیا بھر میں کس قدر اعزاز کی بات ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی اس کا عزت و احترام موجود ہے۔ لیکن ان کی یہ عزت چونکہ چند ہزار ووٹوں کی بنیاد پر نہیں، اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے نہ کوئی انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کرنے کی ذلت سے بچا سکا اور نہ ہی آج کوئی جانتا ہے کہ اس وقت کتنے وائس چانسلر اور عظیم استاد جیل میں ہیں اور انہیں کیا کیا بیماریاں لاحق ہیں اور ان بیماریوں کے علاج کے لیے انہیں جیل کے ڈاکٹر بھی میسر نہیں ہیں۔ کیا عمر بھر قلم کی مزدوری کرنے والے عرفان صدیقی اور پاکستانی تاریخ کے سب سے مقبول پروگرام کے میزبان شاہد مسعود کو ایسے سلوک یا پروٹوکول کا مستحق قرار دیا گیا، نہیں بلکہ وہ تو ہتھکڑی میں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
لیکن کمال ہے پاکستان کے اس جمہوری نظام، جمہوری کلچر اور جمہوریت کی پاسبانی کی جدوجہد کا کہ آپ کا جرم کتنا بھی سنگین ہو، آپ کے پاس اپنی دولت کا کوئی حساب کتاب ہی نہ ہو، آپ اغوا برائے تاوان کے مجرم ہوں، آپ ٹارگٹ کلنگ میں شریک ہوں، بیرون از عدالت قتل کا ارتکاب کریں۔ لیکن اگر آپ ایک منتخب نمائندے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ منتخب نمائندوں کی پارٹی کے لیڈر ہیں تو پھر آپ کچھ بھی کر لیں آپ جیل میں نہیں کربلا میں ہیں اور جیل میں ڈالنے والے یزید اور آپ حسین کے وارث ہیں۔ آپ کی بیٹی کے آنسو بھی قیمتی ہیں۔
کاش آپ صرف اتفاق گروپ آف کمپنیز کے مالک یا انفنسن سٹریٹ پر بمبینو سینما کے مالک ہوتے اور پھر اسی طرح کے جرائم میں گرفتار ہوتے۔ یاد رکھیں! آپ کا کوئی تذکرہ تک نہ کرتا۔ سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہوتا۔ کچھ تو فراڈ کیا ہے جو گرفتار ہوئے، کوئی ہمیں کیوں نہیں پکڑتا۔