ٹرمپ کا ’’پکڑائی نہ دو‘‘ والا لاہوری انداز
بدترین حالات میں بھی اُمید کی لوجگائے رکھنے کی عادت لاحق رہی ہے۔ پیر کے روز امریکی صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم کو دائیں ہاتھ بٹھاکر میڈیا کے سامنے جو رویہ اختیار کیا اسے بغور دیکھنے کے بعد 80 لاکھ کشمیریوں کو مگر یہ پیغام دینے کو مجبور ہوگیا ہوں کہ "اپنے بے خواب کو اڑوں کومقفل کرلو."پاکستانی صحافیوں نے اس سے اُمید افزا کلمات کہلوانے کی بہت کوشش کی۔ اسے "ایمان دار" کہا۔ نوبل پرائز کی جھلک دکھلائی۔ وہ مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔ لاہوری روزمرہّ کے مطابق "پکڑائی نہ دیا"۔
ہمارے وزیر اعظم صاحب کو اس نے "عظیم" کہا۔ یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ ان کی بات پر اعتبار کرتاہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ بھی لیکن اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ پاک-بھارت معاملات میں بہتری لانے کے لئے ثالثی کا کردار وہ اسی صورت ادا کرسکتا ہے اگر نریندرمودی بھی اس کے بارے میں رضامند ہوجائے۔ مجھ جیسا عام رپورٹربھی بخوبی جانتا ہے کہ مودی اس ضمن میں ہرگز رضامند نہیں ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019سے مسلط ہوئی اذیت کے ازالے کی لہذا پیر کے روز ہوئی ملاقات کے بعد اُمیدباندھ لینا خام خیالی ہی نہیں سفاکانہ خوش فہمی ہوگی۔ کبوتر کا وہ رویہ جہاں آنکھ بند کرتے ہوئے وہ خود کو اپنے اِردگرد اچھلتی بلی سے محفوظ تصور کرتا ہے۔ اپنی زندگی میں کئی بار میں نے نیویارک کی گلیوں میں گھنٹوں پیدل چلتے ہوئے گزارے ہیں۔ اس علاقے کی "انگریزی" نہیں بلکہ American میں چھپائے پیغامات کو بآسانی پڑھ لیتا ہوں۔ ڈونلڈٹرمپ اس علاقے کے منافع خور طبقات کا حتمی نمائندہ ہے۔ اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ لچھے دار گفتگو کے ذریعے اسے اپنی ترجیح کے معاملات کی طرف لاناناممکنات میں سے ہے۔ کشمیر کے تازہ ترین حالات کو نظرانداز کرنا فقط اس کی ذاتی ترجیح نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی ایک Deep State ہوتی ہے۔ اس کی سوچ کو ٹرمپ نے کئی بار ٹی وی کیمروں کے سامنے حقارت سے احمقانہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ خود کو اس سے بالاتر ثابت کرنا چاہا۔ زلمے خلیل زاد گزشتہ ایک برس سے امریکی صدر کی بھرپور سرپرستی میں طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات میں مصروف رہا۔ ٹرمپ کو ان مذاکرات کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ طالبان اور افغان صدر کو متوقع معاہدے پر دستخط کے لئے کیمپ ڈیوڈ مدعو کرلیا۔ نظربظاہر طالبان نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ لکھ کر ان کے ساتھ کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کی "موت" کا اعلان کردیا۔ اس کی ٹویٹ کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوج جارحانہ انداز میں متحرک ہوچکی ہے۔ بے گناہ شہری Collateral Damage کی نذر ہورہے ہیں۔ طالبان دائمی امن کے قیام کے لئے اب روس اور چین سے رجوع کررہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ سینہ پھیلاتے ہوئے "دہشت گردوں " کی پسپائی کی کہانیاں سنارہا ہے۔ قابض افواج کے خلاف حملوں کے علاوہ طالبان افغانستان کے کئی علاقوں کو داعش سے آزاد کروانے کی جنگ میں بھی مبتلا ہوچکے ہیں۔ امن کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ "دریں دولت" جیت گئی۔ ٹرمپ کی بات نہیں بنی۔ اس کالم میں تواتر سے یہ دہراتے ہوئے ہلکان ہورہا ہوں کہ سوشل میڈیا ہمیں ٹھوس مگر گہرے پیغامات کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کررہا ہے۔ مثال کے طورپر عمران خان صاحب نیویارک پہنچے تو ان سے ملاقات کے لئے امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد آیا۔ زلمے خلیل زاد کا دائرہ کار افغانستان تک محدود ہے۔ مقبوضہ کشمیر اس کی Turf نہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے اسے بھیج کر درحقیقت واشنگٹن نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ عمران خان صاحب کی امریکہ میں موجودگی کے دوران ڈونلڈٹرمپ ان سے مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات کے بجائے افغانستان کے معاملات زیر بحث لانے کو ترجیح دے گا۔ سینیٹر گراہم نے یقینا امریکی صدر کو لکھے اس خط پر بھی دستخط کئے ہیں جو مقبوضہ کشمیر پر امریکی حکومت کی توجہ کا طلب گار ہے۔ یہ سینیٹر بھی لیکن افغانستان کے بارے میں زیادہ متفکر ہے۔ عمران خان صاحب کی ٹرمپ سے ملاقات کروانے میں اس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس ملاقات کا اوّل وآخر مقصد امریکہ کی نظر میں مسئلہ افغانستان کو ٹرمپ کی ترجیحات کے مطابق حل کروانے کے لئے پاکستان کا بھرپور تعاون حاصل کرنا تھا۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کو اس ضمن میں رضا مند کرنے کے لئے ٹرمپ نے ازخود انتہائی ہوشیاری سے 22جولائی کے روز کشمیر پر "ثالثی" کی پیش کش کی۔ ہمیں جھانسا دیا کہ مودی بھی اس سے ثالثی کا طلب گار ہے۔ 5 اگست 2019 کو مگر آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان ہوگیا۔ وادیٔ کشمیر اس دن کے بعد سے ایک وسیع وعریض جیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔ کمیونی کیشن لاک ڈائون وحشیانہ انداز میں برقرار رکھا جارہا ہے۔ سوپور اور شوپیاں کے درختوں سے سیب اُتار کر منڈی میں نہیں بھیجے جارہے۔ گل سڑکر زمین پر گررہے ہیں۔ سیب کی پیداوارسے لاکھوں غریب کشمیری سردیوں کا راشن خرید کر جمع کرتے تھے۔ اب کے برس برفباری ان کے لئے فاقہ کشی لائے گی۔ اس کاروبار سے جڑے سینکڑوں گھرانے اپنی خوش حالی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ انسانی المیوں کی کئی داستانیں ہیں۔ ان کا ذکر اب نام نہاد عالمی میڈیا میں شدت سے نہیں ہورہا۔ توجہ ایران کی جانب مائل ہوچکی ہے۔ چسکہ فروشی کے لئے تذکرہ اس فون کا بھی ہورہا ہے جس کے ذریعے امریکی صدر نے یوکرین کے صدر سے اس خواہش کا اظہارکیا کہ جو بائیڈن کے بیٹے کو جو اس کے ملک میں کاروبار کرتا ہے کسی صورت مالیاتی بدعنوانی میں ملوث کیا جائے۔ سوشل میڈیا کی پھیلائی واہی تباہی سے حظ اٹھانے سے کبھی فرصت ملے تو خدارا ٹرمپ نے پیر کے روز عمران خان صاحب کو دائیں ہاتھ بٹھاکر جو گفتگو کی ہے اس کی ریکارڈنگ بارہادیکھیں۔ اپنی گفتگو کے ذریعے ٹرمپ نے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسے ہرگز خبر نہیں تھی کہ بھارتی وزیر اعظم اس کی موجودگی میں ہوسٹن میں ہوئی تقریب سے خطاب میں پاکستان کے خلاف "جارحانہ" زبان استعمال کرے گا۔ جارحانہ انداز کو خود کے لئے "حیران کن" بتانے کے بعد مگر وہ غالبؔ کے محبوب والی "سادگی" سے یہ بھی کہتا ہے کہ مودی کے جارحانہ انداز کو ہوسٹن کی تقریب میں موجود بقول اس کے 59 ہزار (پچاس ہزارنہیں) بھارتی نژاد امریکیوں نے والہانہ انداز میں سراہا۔ مودی کے "جارحانہ" انداز کی بہت سادگی سے "بھرپور پذیرائی" کا ذکر کرتے ہوئے درحقیقت ہمیں یہ پیغام دیا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم کو ایسے ماحول میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں "ہتھ ہولا" رکھنے کو مجبور کرنا ٹرمپ کے لئے بہت مشکل ہے اس سے جب یہ سوال ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستان پردہشت گردی کی سرپرستی کا الزام بھی لگایا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اسے امریکی حکومت کے کارندوں نے اس کے برعکس بتایا ہے۔ واضح جواب نہیں آیا اور سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی کے فروغ کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرادیاگیا۔ سوال گندم جواب چنا" کا یہ انداز"پکڑائی نہ دو" کی عملی مثال تھی۔ اپنے گھر تک محدود محض ریگولر اور سوشل میڈیا کی بدولت مودی اور عمران خان صاحب کی امریکہ میں موجودگی پر نگاہ رکھتے ہوئے میں بدنصیب یہ سوچنے کو مجبور ہورہا ہوں کہ "اندرخانے" امریکی صدر اوراس کے معاونین پاکستان کو کشمیر بھلاکر افغانستان پر توجہ دینے کو مجبور کررہے ہیں۔ افغانستان کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا مگر "فرمائش" یہ بھی آئی ہے کہ پاکستان ایران کے حوالے سے بھی "کچھ کرے"۔
ہمارے وزیر خارجہ نے بہت اتراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے انہیں نیویارک میں موجود ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سے خطے کی صورت حال کو پرامن بنانے کے لئے مذاکرات کا "مینڈیٹ" بھی دیا ہے۔ مسرت نذیر کے گائے گیت والا "نواں پواڑا"۔ طالبان ہماری بات پوری طرح سن نہیں رہے۔ ایرانی حکومت کیوں تو جہ دے گی؟ ایران سے معاملات بہتر بنانے کے لئے ٹرمپ کی مدد کے لئے فرانس کا صدر موجو د ہے۔ گزشتہ اگست میں جب ٹرمپ فرانس میں موجود تھا تو ایرانی وزیر خارجہ بھی وہاں "اچانک" آگئے تھے۔ بات مگر بنی نہیں۔ فرانس سے مطلوبہ مدد اگر میسر نہیں ہوئی تو ٹرمپ مودی سے ایران کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کے لئے رجوع کیوں نہیں کرتا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ پر بھارتی سرمایہ کاری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے۔
حکومت پاکستان کا فی الوقت فقط یک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ یہ ایجنڈا ہے کشمیر -کشمیر اور فقط کشمیر۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے ہم کسی اور معاملہ پر توجہ دے ہی نہیں سکتے۔