تراویحیوں پر ایک کالم
الحمدللہ، آدھے سے زیادہ روزے گزر گئے اور ٹھنڈے بھی ہو گئے۔ جب بارش ہوئی تو پنکھا تک نہیں چلایا گیا جس پر مجھے جولائی اگست کے روزے یاد آ گئے اور اس کے ساتھ تراویحیاں۔ تراویحیاں بھی کیا خوب چیز پیں، رمضان کے دنوں کی خصوصیت کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لینا ہے تو راتوں کا حسن قیام اللیل ہے۔ بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ تراویحیوں کا لفظ تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں استعمال ہی نہیں ہوا، یہ قیام اللیل تھی اور رسول اللہ ﷺ رمضان کی راتوں میں خوب قیام فرمایا کرتے تھے۔
تین روز اس نماز کی امامت فرمائی اور پھر اس ڈر سے تشریف نہ لائے کہ کہیں امت پر فرض ہی نہ ہو جائے۔ میں صدقے اپنی امت کا سوچنے والے نبی ﷺ پر۔ حضرت عمرؓ نے قیام اللیل کی بکھری ہوئی جماعتوں کو ایک امام کے تابع کر دیا اور اب تراویح کا حسن یہ ہے کہ ہمارے ہر گلی محلے میں حفاظ کرام قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کے سینوں میں ابلتا قرآن زبانوں سے لہروں کی طرح روانی سے نکلتا ہے۔ اللہ کے حکم سے ہر حافظ اور ہر سامع قرآن کے ایک ایک حرف اور ایک ایک زیر زبر کی حفاظت کرتے ہیں۔ دنیا کی کسی اور کتاب کو یوں یاد کرنا اور پڑھے جانا ممکن ہی نہیں۔
میں نے اپنی زندگی کی ابتدائی تراویحیاں جامع مسجد دربار شاہ کمال رح میں پڑھیں۔ مولانا الیاس قادری کی دعوت اسلامی سے متاثر ہوا اور کالج یونیورسٹی کی بھرہور جوانی میں وہاں فیضان سنت سے بعد از نماز مغرب درس بھی دیتا رہا۔ جو تراویحیاں مجھے بہت بہت شدت سے یاد ہیں وہ جامع مسجد اوقاف (نزد دربار شاہ کمال) کی ہیں جو جولائی اگست کی تھیں۔ وہاں دیوبندی قاریوں کی قرات بہت خوب تھی مگر وہاں اے سی نہیں تھا۔
باہر کھلے میں تروایح کی جماعت ہوتی تھی۔ جان لیوا حبس ہوتا تھا۔ افطاری کے بعد شربت سے پیٹ گلے تک بھر کے تراویحیاں پڑھنے جاتا تو ہر مسام سے پسینہ یوں نکلتا جیسے مسام نہ پو کوئی نلکا ہو۔ مجھے یاد ہے تراویح پڑھنے کے لئے جاتے ہوئے ایک ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتل ہوتی تھی اور دوسرے ہاتھ میں تولیہ۔ پسینہ ایسا تنگ کرتا تھا کہ پانچویں چھٹی تراویح کے بعد ہی بھول جاتا تھا کہ کتنی رکعت ہوئی ہیں مگر خود کو صرف اس بات پر شاباش دیتا ہوں کہ ہر چار رکعتوں کے بعد دل کرتا تھا کہ اپنا مصلہ اٹھاوں اور نکل چلوں مگر بیس کی تعداد پوری ہی کی۔
ہمارے گھر کے قریب چھوٹی مسجد میں اے سی تھا مگر بیچارہ بہت تھکا ہوا تھا اور اوپر سے ایڈمن صاحب دروازے کھول دیتے تھے کہ ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ تازہ ہوا بھی آتی رہی۔ سو نہ ٹھنڈی ہوا آتی تھی نہ تازہ۔ یہاں زیادہ تروایح نہ پڑھنے کی وجہ اے سی نہیں بلکہ بریلوی قاری صاحب تھے جو اس سپیڈ سے تلاوت فرماتے تھے کہ یعلمون اور تعلمون کے سوا کچھ دماغ پکڑ نہیں پاتا تھا۔ آج بھی موجود ہیں اور ماننا پڑے گا کہ ان کی منزل بہت پکی ہے۔ بہت کم لقمے لیتے تھے۔ بریلویوں کی مسجد میں تراویحیاں بہت زندہ ہوتی ہیں۔ لہک لہک کے درود و سلام پڑھا جاتا ہے، نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری بھی بلند ہوتے رہتے ہیں۔
لاہور میں تنظیم اسلامی کے تحت گارڈن ٹاون میں تراویحیاں ہوں یا داتا دربار کی، مختلف قاریوں کی تراویح کی سپیڈ بھی مختلف ہوتی ہے۔ جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاون والوں کی قرات بہت اچھی ہے، کھلے صحن میں ہزاروں اہل ایمان، قسم سے بڑا ہی روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ جامعہ قاسمیہ رحمانپورہ والے بھی اچھے ہیں، غالبا دو برس وہاں بھی پڑھیں۔ تراویح آدھے گھنٹے میں پڑھانے والے شیر کے بچے بھی موجود ہیں تاہم میں نے سٹینڈرڈ ٹاہم پچاس منٹ (بغیر عشا کے فرض، سنت، نفل اور وتر کے) سے سوا گھنٹہ تک پایا ہے۔
شادمان کی مسجد میں سب سے لمبی تراویح پڑھی وہاں ہر چار رکعت کے بعد اتنا لمبا وقفہ ہوتا تھا کہ بندہ بور ہی ہو جاتا تھا کہ کیا کرے؟ سچ تو یہ ہے کہ میں نے قرآن پاک کے ذائقوں کے لئے بہت جگہوں پر خوشہ چینی کی ہے۔ آپ کو ایک بات بتاوں، یہ جو وقت ہوتا ہے یہ نماز پڑھے بغیر بھی گزر جاتا ہے اور نماز پڑھ کے بھی۔ بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز سے کام کا حرج ہوتا ہے تو یقین جانیے ایسا کچھ نہیں بلکہ اس سے بندہ ٹائم ٹیبل کا پابند اور ذمے دار ہو جاتا ہے۔
نئی بات نیوز نیٹ ورک میں، میں نے جتنا چوہدری عبدالخالق صاحب میں باجماعت نماز کا شوق دیکھا ہے وہ بہت ہی کم ہماری اس مادی دنیا کے کامیاب کسی دوسرے فرد میں نظر آیا۔ قول ہے کہ کوئی انسان کتنا قیمتی ہے، اس کا اندازہ اس کے احساس ذمے داری سے لگائیں۔ سچ پوچھیں تو تراویحیاں پڑھنے ہوئے مسائل کے ایسے ایسے حل دماغ میں آتے ہیں کہ کمال ہو جاتا ہے (اللہ تعالی اس بے دھیانی پر معاف فرمائیں)۔ تراویحیاں پڑھنے کا بہتر طریقہ یہ یے کہ قاری صاحب نے جس پارے، سوا پارے کی تلاوت کرنی ہے ہم اسے پہلے سے پڑھ کے جائیں۔ میرا تو اس وقت مزا دوبالا ہو جاتا ہے جب تلاوت قرآن پاک کی ان سورتوں پر پہنچتی ہے جو میں نے زبانی یاد کی ہوئی ہیں۔
گرم دنوں میں ٹھنڈی تراویحیاں سٹی فارٹی ٹو کے ساتھ ہسپتال کی بیسمنٹ میں مسجد بنی تو کچھ سال وہاں پڑھیں۔ اب تو شائد ہی میری زندگی میں دوبارہ گرمیوں کے روزے یا تراویحیاں آئیں۔ انہی دنوں کی یاد ہے کہ پروگرام تو افطاری سے پہلے ہی ریکارڈ ہو جاتا تھا۔ مگر میں گھر یا کہیں بھی افطاری کے بعد واپس دفتر پہنچ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے محسن نقوی صاحب مجھے اس وقت دفتر میں دیکھ کے خوش ہوتے، غالبا ہ سمجھتے تھے کہ میں جانفشانی سے ڈیوٹی کے لئے آفس ہوں اور میں بھی ان کی خوش فہمی دور نہیں کرتا تھا۔
بہرحال، گاڑی پارکنگ میں لگا کے سب سے پہلے بڑے اے سی کی جالی کے سامنے ڈیرہ ڈال لیتا تھا۔ پھر یوں ہوتا تھا کہ مسلسل ٹھنڈی پڑنے والی ہوا منہ یخ بھی کر دیتی تھی مگر یہاں کے قاری صاحب کی قرات بھی زبردست تھی۔ ایک ایک لفظ دل میں اترتا تھا۔ ان کی دوسری بڑی یاد ہے کہ ان کا چھوٹا سا منا سا پیارا سا غالبا سات سالہ بیٹا ہی سامع ہوتا تھا۔ مجھے بہت پیارا لگا۔ ختم قرآن پر میں نے اسے عیدی پر ایک بڑا نوٹ دیا تو شرما گیا۔ اس کے ابا سے سفارش کروا کے اسے عیدی دی۔ آج کل مسئلہ یہ ہے کہ سوسائٹی کی مسجد میں صرف دو صفیں بھی ہوں تو امام صاحب لازمی انٹرنل سپیکر آن کر لیتے ہیں اور آواز بھی اونچی رکھتے ہیں تاکہ گزرنے والے بھی ثواب لیتے رہیں یا شائد تلاوت سن کے شرم کے مارے اندر آ جائیں۔
کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ (پولیٹیکل رپورٹنگ کے دنوں تو سیاسی رہنماوں افطاریوں پر ڈیوٹی ہوتی تھی یا نیوز نائٹ کرتے ہوئے، پھر شہبازشریف نے سرکاری خرچ پر افطاریوں پر پابندی لگائی تو تعداد کچھ کم ہوئی) پورے رمضان میں گھر افطاری کے لئے کوشش کرکے آنا پڑتا تھا مگر پھر یہ سب فضول کی پی آر ایکسرسائز لگی۔ اب کوشش ہوتی ہے کہ افطار گھر پر ہی ہو چاہے اس کے لئے دعوت دینے والے کو نیک نیتی کے ساتھ کوئی بہانہ ہی نہ پڑے تاکہ وہ اسے بے عزتی محسوس نہ کرے۔ اللہ معاف کرے بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ میں روزوں میں بھی ایک اچھا مسلمان نہیں بن پاتا۔ ایک موقع تھا کہ رمضان میں شیو کرنے اور پینٹ کوٹ پہننے پر مکمل پابندی لگا لیتا تھا مگر پھر غم روزگار کے۔۔
تراویح کی نماز رمضان المبارک کا حسن ہے۔ میرے آقا، رسول اللہ ﷺ، نے تین روز تک اس کی جماعت کروائی اور چوتھے روز حجرہ مبارک سے باہر نہیں آئے سو یہ نہ فرض ہے نہ واجب۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ کتنی پڑھنی ہیں کہ حرم پاک میں دس ہوگئی ہیں۔ اہلحدیث بھائی آٹھ پڑھتے ہیں۔ اہل تشیع شائد نہیں پڑھتے۔ دیوبندی اور بریلوی بیس پڑھتے ہیں۔ ویسے تراویح پڑھنے کا فائدہ ہے کہ افطاری کا ٹھونسا ہوا بہت کچھ ہضم ہو جاتا ہے بلکہ تھوڑی بہت بھوک پھر لگ جاتی ہے اور یوں اہل ایمان مسجد سے واپس آ کے برتنوں میں جھانکتے پھرتے ہیں۔