ریلیکس ریلیکس ریلیکس
میں مانتا ہوں کہ ریلیکس ہوجائیں کہنا بڑا آسان ہے مگر ریلیکس ہونا اتنا ہی مشکل لیکن ایک منطقی سی بات ہے کہ جو صورتحال آپ تبدیل کر سکتے ہیں اس کی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے، اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے، اور اگر آپ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی پوری کوشش کے باوجود تبدیل کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تو پھر اس کی ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے، پھر مان لیجئے کہ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے۔
اس شخص کی بات یاد آ گئی جس سے کسی نے پوچھا کہ جنگل میں اگر تمہارے سامنے اچانک شیر آجائے تو تم کیا کرو گے، وہ ہنسا اور بولا، پھر میں نے کیا کرنا ہے، جو کرنا ہے شیر نے ہی کرنا ہے۔ ہمارے بہت سارے دوست ہمیں ٹینشن دینے میں بہت آگے ہوتے ہیں اور ان سے صلاح و مشورے اسی قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ پوچھیں گے تم جنگل میں جا رہے ہو، آگے سے شیر آ گیا تو کیا کرو گے۔
میں کہوں گا کہ میں بھاگ نکلوں گا۔ جواب ملے گاکہ شیر بھی پیچھے بھاگا تو پھر کیا کرو گے۔ میں کہوں گاکہ میں درخت پر چڑھ جاوں گا۔ آگے سے یہ جانے بغیر کہ شیر درخت پر چڑھ سکتا ہے یا نہیں، کہا جائے گا کہ اگر شیر بھی درخت پر چڑھ گیا تو پھر کیا کرو گے۔ یہی سوال درخت سے نیچے اور پھر ندی میں چھلانگ لگانے تک کے بارے میں ہوگا اور مجھے آخر میں پوچھنا پڑے گا کہ تم میرے ساتھ ہو یا شیر کے ساتھ ہو؟
ہمارے ایک سوشل میڈیائی ڈاکٹر صاحب آجکل بہت رش لے رہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ نہ سموسے کھانے چاہئیں اور نہ ہی جلیبیاں حتیٰ کہ انہوں نے تو پیزے تک کو کوئی بم شم قرار دے دیا ہے۔ اب بندہ کھانے کی ہر مزے دار شے کو دیکھ کے ڈرتا رہے اور کہتا رہے کہ میں نے تو صرف سبزیاں ہی کھانی ہیں تو کوئی صاحب سبزیوں کو لگنے والے پانی اور کھادوں کو لے کر آ جائیں گے۔
یقین کیجئے میں نے ایک سے زیادہ ویڈیوز دیکھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہم سبزیاں نہیں بلکہ زہر کھا رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم لاہور کی فضا میں جو سانس لے رہے ہیں وہ ہماری جان لے سکتا ہے۔ اب اگر ہم ان سوشل میڈیا ئی ماہرین کو فالو کرنا شروع کر دیں توہم تو سبزیاں کھانے سے بھی جائیں گے اور ہمیں بتایا جائے گا کہ لاہور میں زندہ رہنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ سانس نہ لیا جائے۔
ایک اور مہم بہت چلتی ہے کہ آپ اپنے پیاروں کے مرنے پر رشتے داروں کوکھانے کیوں کھلاتے ہیں۔ اسے فضول خرچی اور عیاشی کہا جاتا ہے اور میں سوال کرتا ہوں کہ اگر تمہارے اماں یا ابا تمہیں زندگی بھر پوستے پلاتے مر گئے اور اگر تم ان کے نام پر ایک وقت کا کھانا ان رشتے داروں کو کھلا دوگے جو تم سے اظہار افسوس اور ان کی مغفرت کی دعا کے لئے آئیں گے تو کیا قلاش ہوجاوگے۔
فوتگی کے کھانے کو پنجابی میں کوڑا وٹا کہاجاتا ہے اور ہماری رسومات میں ہے کہ اس کا اہتمام کچھ عزیز رشتے دار کرتے ہیں۔ اس میں سادہ سے سالن کے ساتھ روٹی ہی ہوتی ہے کوئی چالیس ڈشیں نہیں بنائی جاتیں۔ اسی طرح ہمارے بہت سارے لوگ جہیزکے خلاف مہم چلاتے ہیں اور اسے بہت برا قرار دیتے ہیں۔
جہیزہو یا بری، ایک نوجوان جوڑے کو جو اپنی نئی زندگی کا آغاز کررہا ہے اس کی سہولت اور ضرورت کی چیزوں کی فراہمی کا نام ہے تو اس میں کیا برائی ہے کہ اگر نوجوان خود اپنی کمائی سے یا والدین اپنی بچت سے اس کا کچھ انتظام کر دیں کہ جب نیا جوڑا اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے گا تو اسے نئے بیڈ، صوفے یا ٹی وی وغیرہ کی تو ضرورت ہوگی۔
ہماری ایک مذہبی تنظیم نے اسے اتنا بڑا مسئلہ بنادیا ہے کہ اسے وراثت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ وراثت ایک حق ہے جو ہر بیٹی کو ملنا چاہئے تو کیا ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو انتظار کرنا چاہئے کہ کب لڑکی یا لڑکے کے ماں باپ مرتے ہیں اور وہ نئی زندگی شروع کرنے کے لئے کچھ سامان یا وسائل پاتے ہیں، عجب احمقانہ سی بات ہے۔
ہمارے بہت سارے دوست امیدیں رکھتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ حکومت آئے گی اور وہ ایسامعاشی انقلاب لائے گی جو ان کی قسمت بدل دے گا۔ یہی کام موٹیویشنل سپیکرز کرتے ہیں۔ یہ خوابوں کی مارکیٹنگ ہوتی ہے جو ہمارے ہاں بھی بہت کی گئی۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ نیا پاکستان بنے گا یا ریاست مدینہ بنے گی۔ مارکیٹ میں دو چیزیں بہت زیادہ بکتی ہیں ایک خواب اور دوسرے خوف۔ جب آپ نیا پاکستان نہیں بنا پاتے تو آپ خوف بیچتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ ہوجائے گا۔
یہ خوف آپ کو چیخنے اور چلانے پر مجبور کر دیتا ہے حالانکہ آپ کو ریلیکس رہنے کی ضرورت ہے اور اسی فارمولے پر جانے کی بھی کہ جو شے آپ کے اختیار میں نہیں اس پر ٹینشن مت لیں۔ کسی بھی فرد کی زندگی میں انقلاب صرف ایک ہی طریقے سے آسکتا ہے کہ اول وہ خود یا اس کی اولاد ایسی تعلیم اور ہنر حاصل کر لے جس سے وہ اچھا کمانے لگے ورنہ اگر آپ احساس پروگراموں پر بیٹھے رہیں گے تو کبھی آپ کی زندگی نہیں بدلے گی چاہے آپ کسی سیاستدان اور کسی حکمران کو جتنی مرضی گالیاں دے لیں۔
عمران خان جتنے مرضی لانگ مارچ کر لیں، اسمبلیاں توڑ لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فرق اس وقت پڑے گا جب وہ اپنی حکومتوں میں لوگوں کی تعلیم اور روزگارکے منصوبے لے کر آئیں گے۔ وہ اس وقت بھی خوف اور نفرت بیچ رہے ہیں اور وہ اس کے کامیاب بیوپاری ہیں کیونکہ اس کے گاہک بہت زیادہ ہیں بالکل اسی طرح جیسے بھاٹی لوہاری کے باہر مردانہ کمزوری کی جعلی دوائیں بیچنے والوں کے پاس مجمعے ہوتے ہیں اور وہ ہر روز ویسے ہی سانپ نیولے وہاں دکھا کے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے ان کے مردانہ جوہر سے محروم کر رہے ہوتے ہیں جیسے لبرٹی میں میلے لگاکے قوم کواس کے جوہر سے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا حل کیا ہے۔ ظاہر ہے اس کالم کو پڑھ کے لوگ بھاٹی لوہاری کے نیم حکیموں کے پاس جانا تو بند نہیں کریں گے مگر جو بھی پڑھ لیں ان سے اتنی سی درخواست ہے کہ وہ زندگی میں اعتدال اور توازن لے کرآئیں۔ وہ سموسے بھی کھائیں اور پیزا بھی مگر ایک حد میں رہ کے۔ وہ جہیز بھی دیں اور والدین کے ختم بھی دلوائیں مگر اپنے وسائل میں رہ کے۔
وہ لاہور میں گھومنا پھرنا ہرگز بند نہ کریں لیکن جب سوزش محسوس کریں تو ماسک ضرور پہن لیں اور عینک بھی۔ سوشل میڈیائی ماہرین سے خبردار رہیں۔ آپ کے ارد گرد بہت سارے لوگ آپ کو خواہ مخواہ ڈرا کے اپنا سودا بیچ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو ڈر گیا و ہ مر گیا، خیر مرتا وہ بھی ہے جو ڈرتا نہیں ہے مگر وہ اس وقت مرتا ہے جب اس کی موت آئی ہوتی ہے، ہر لمحے اور ہردن نہیں مرتا۔