پنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹے گی؟
اس کھیل میں کس نے کیا کہا، یہ ہرگز اہم نہیں ہے، جزئیات سے باہر نکلیں اور ٹارگٹ دیکھیں۔ چوہدری پرویز الٰہی لاکھ عمران خان کے اتحادی ہوں کیونکہ مونس الٰہی سمجھتے ہیں کہ وہ پاپولر سیاست کے ذریعے اپنی جگہ بنا سکتے ہیں اوریہ جگہ وہاں نہیں بن سکتی جہاں پوری شریف فیملی پہلے سے موجود ہے۔
مریم نواز اور حمزہ شہباز کے بعد اب جنید صفدر میں لائن میں لگے ہوئے ہیں تو انہیں کیا ملے گا اور کہاں ملے گا مگر عمران خان کے پاس گنجائش موجود ہے سو طویل المدتی فوائد کے علاوہ قلیل المدتی فائدہ یہ بھی ہے کہ ابھی عمران خان کا بیانیہ ووٹر رکھتا ہے اور قاف لیگ نے یا نوازشریف سے ووٹر لینا ہے یا عمران خان سے، یہاں موخر الذکردوہے جانے کے لئے زیادہ آسان ہیں مگر چوہدری پرویز الٰہی کے خاندان اور نوا زلیگ کے مفادات ایک جگہ پر اکٹھے ہوگئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح پنجاب اسمبلی کو بچا لیا جائے۔
چوہدری سمجھتے ہیں کہ وہ ڈیڑھ سو ارب روپے اپنے ضلعوں میں لگا رہے ہیں تو نو مہینے انتظار کیا جائے تاکہ یہ ڈیڑھ سو ارب روپے ووٹوں والے بچے دے سکیں۔ نواز لیگ کے سامنے اس میں دو مفاد ہیں، پہلا یہ کہ وہ ابھی حالات کو موزوں نہیں سمجھتی کہ عام انتخابات میں جائے اور دوسرے یہ کہ اگر اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے تو اسے ایک بڑے بحران اور مہم کا سامنا کرنا پڑے گا، نواز شریف کوفوری واپس آنا پڑے گا لیکن ابھی تک قانونی معاملات طے نہیں ہوئے، اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔
آپ نے بڑے مقصد کو سامنے رکھ لیا اور اب جزئیات کو دیکھئے۔ چوہدری پرویز الٰہی، عمران خان کے ساتھ دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے جب انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ جنرل باجوہ کو بھی ٹارگٹ کیا۔ چوہدری برادران ہمیشہ سے مقتدر حلقوں کی گڈ بکس میں رہے ہیں۔ چوہدری برادران نے اگلے روز پی ٹی آئی کے حامی چینل کو پلانٹڈ انٹرویو میں بہت کامیابی کے ساتھ کئی شکار کئے۔ ایک تو انہوں نے عمران خان پر اسی طرح پریشر بڑھایا جس طرح پہلے نیپیاں بدلنے والا انٹرویو دے کر بڑھایا تھا اور اس کے ساتھ ہی وہ حیرت انگیز طور پر فیض حمید پر چڑھ دوڑے۔
اس کے ذریعے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دیا گیا کہ وہ فیض حمید کے ساتھ نہ تو پہلے تھے اور نہ ہی اب ہیں۔ عمران خان اس پر فوری طور پر دباو میں آ بھی گئے اور انہوں نے تین رکنی کمیٹی بنا دی جو پہلے دس قومی اور بیس صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لئے تھی مگر وہ پھر بڑھ کے پندرہ قومی اور تیس صوبائی ہوگئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو دوسرا دانہ پھینکا گیا تھا وہ چگا جاتا ہے یا نہیں۔ اس بارے کچھ حتمی نہیں ہے کیونکہ وہ انٹرویو سے ایک روز پہلے جو خصوصی ملاقات کے لئے گئے تھے وہ ذرائع کے مطابق نہیں ہوسکی تھی اور وہ نمبر ٹو پوزیشن سے ہی ملاقات کرکے واپس آ گئے تھے تاہم وہ بھی امید افزا نہیں تھی۔
کھیل بہت نازک بھی ہے اور دلچسپ بھی کہ ایک طرف پنجاب اسمبلی بھی بچانی ہے اور دوسری طرف عمران خان کو بھی قابو رکھنا ہے تاکہ ان کے ووٹ بینک سے فائدہ اٹھا یا جاسکے توپہلے کام کے لئے والد اور دوسرے کام کے لئے بیٹے نے کام شروع کر دیا۔ جس وقت وہ بریکنگ نیوز والا رپورٹرز کا انٹرویو آن ائیر ہونا تھا اس سے کچھ ہی وقت پہلے چوہدری مونس الٰہی زمان پارک میں عمران خان کے پاس پہنچ گئے اور بتایا کہ ان کے والد پر بہت زیادہ دباو ہے مگر وہ ان کے ساتھ ہیں۔
عمران خان اس پر مسکرائے اور اطمینان کا اظہار کیا مگر اس کے ساتھ ہی فواد چوہدری کی ڈیوٹی لگا دی کہ وہ پتا کریں کہ چوہدری کس کے ساتھ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چوہدری خود اپنے ساتھ ہیں اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ وفاق کی حکومت چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب کی حکومت چوہدری پرویز الٰہی کے ذریعے چل رہی ہے یعنی عملی طور پر انہوں نے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو اپنے آگے بلکہ نیچے لگایا ہو ا ہے حالانکہ ان کے پاس اتنی سیٹیں بھی نہیں ہیں جتنی میاں منظور وٹو کے پاس تھیں اور انہوں نے بینظیر بھٹو سے وزارت اعلیٰ لی تھی۔
دونوں مقاصد میں کامیابی کی صورت دیکھیے کہ خود پی ٹی آئی والے کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ جمعے کو اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی۔ میری سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اسمبلی اس وقت ٹوٹے گی جب گرد بیٹھے گی۔ میرے خیال میں گرد اب بیٹھنے والی نہیں ہے طوفان ہی بننے والی ہے۔
آپ کو میری بات کا یقین نہیں آ رہا تو ایک اور موو دیکھئے۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی کی تعیناتی ہمیشہ سے وفاق اور صوبے کا بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی اور کیا وجہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے اس لڑائی کے عین عروج والے دنوں میں دونو ں بندے وہ لگا دئیے جو چوہدری پرویز الٰہی کی چوائس تھے یعنی کامران علی افضل کے انکار کے بعد عبداللہ سنبل ہی پرویز الٰہی کے چیف سیکرٹری تھے اور عامر ذوالفقار کا نام دوسرے نمبر پر موجودتھا جو لسٹ آئی جی کے لئے چوہدری پرویز الٰہی نے شہباز شریف کوبھیجی تھی، کیا سمجھے؟
یہ بات دلچسپ ہے کہ رانا ثناء اللہ خان کہہ رہے ہیں کہ آئینی طور پر چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ نہیں رہے مگر ان ہی کے کٹھ پتلی گورنر (تادم تحریر) انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کر رہے کیونکہ اصل مقصد پرویز الٰہی کو ہٹانا نہیں ہے، اصل مقصد تو اسمبلی کو بچانا ہے اوراس کے لئے چوہدری پرویز الٰہی نے بھی گورنر ہاوس کو پوری طرح فیسیلی ٹیٹ، کیا ہے، وہ اس طرح کہ وہ بدھ کی شام کو آسانی سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے تھے اور ان کے (ایک کم ایک سونوے) ارکان لاہور میں موجو د تھے لیکن اگر وہ اعتماد کا ووٹ لے لیتے تو اس کے بعد جمعے کو اسمبلی توڑنی پڑ جاتی اور یہ اسی صورت ہی ممکن تھا کہ عمران خان کو بتایا جائے کہ مزاحمت یہی ہے کہ گورنر کا حکم نہ مانا جائے اور میں اس کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں مگر درحقیقت ارکان ہوتے ہوئے بھی اعتماد کا ووٹ نہ لینامزاحمت نہیں تھی، ایک خفیہ مفاہمت تھی، کیا سمجھے؟
اصل بات تو یہ ہے کہ عمران خان تیزی کے ساتھ اپنے پتے کھوتے چلے جارہے ہیں چاہے وہ بڑھکیں جتنی مرضی مارتے رہیں مگر اب تک وہ اپنی حکومت بچانے سے اپنی ایف آئی آر درج کروانے تک، لانگ مارچ سے وفاقی حکومت کو ڈرانے اور اب اسمبلی توڑنے تک اپنے ہر منصوبے میں ناکام ر ہے ہیں۔ اس کارکردگی کے ساتھ یہ سمجھا جائے کہ وہ الیکشن میں کوئی تیر مار لیں گے تو یہ کوئی معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ عمران خان کس طرح کہتے ہیں کہ وہ مائینڈ گیم کے ماسٹر ہیں۔ وہ صرف جاہلوں کی طرح ہر کسی کے گلے پڑنا جانتے ہیں یا ہر موقع بے موقع احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنے کے ماسٹر ہیں جو ہرگز ہرگز مائینڈ گیم نہیں۔ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ انہیں گیم بنا کے دیتی رہی ہے اور جب سے انہیں خود گیم بنانی پڑ رہی ہے تو وہ چوکے چھکے لگانے سے رہ گئے ہیں، صرف پچ ہی تباہ کررہے ہیں، معذرت کے ساتھ یہی ان کی پوری صلاحیت ہے۔