مریم نواز کا راستہ روکو گے؟
مریم نواز کو مسلم لیگ نون کا مرکزی سینئر نائب صدر اورچیف آرگنائزر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ پارٹی کی کتابی طور پر سینئر ترین قیادت اور عملی طور پر طاقتور ترین شخصیت بن گئی ہیں جس سے واضح نشاندہی ہورہی ہے کہ مسلم لیگ نون جلد مسلم لیگ میم میں تبدیل ہوجائے گی۔
مریم نواز کا پارٹی کا چیف آرگنائزر بننا پارٹی کی انٹرنل پالیٹیکس میں ایک بہت ہی شارپ موو ہے۔ وہ چیف آرگنائزر بن کے وہ گھنٹہ گھر بن گئی ہیں جس کی طرف پارٹی کا ہر راستہ جاتا ہے۔ مسلم لیگ نون اس وقت تنظیمی بحران کا شکار ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسے اپنے پارٹی انتخابات کروانے کے لئے آخری مہلت دی ہے جس کے بعد پارٹی کا انتخابی نشان شیر بھی معطل کیا جا سکتا ہے۔ تنظیمی سطح پر پارٹی کے لئے لاہور جیسا اہم شہر سوا برس سے اپنے صدر سے محروم ہے تو باقی شہروں کی تنظیمی صورتحال کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
مریم بی بی کے چیف آرگنائزر بننے کے بعد پارٹی کی ہر وہ شخصیت چاہے وہ اپنے ضلعے، ڈویژن اور صوبے میں کتنی ہی تگڑی کیوں نہ ہو اسے اپنے عہدیدار بناتے ہوئے ان کی منظوری ہی درکار ہوگی اور یوں کوئی ایسا شخص پارٹی کا تحصیل سطح کا عہدیدار بھی نہیں بن سکے گا جس نے ان کے سامنے اف تک بھی کی ہو۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ جب عام انتخابات کا چناو ہوگا تو پارلیمانی بورڈ میں ہر ضلعے سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے نون لیگی امیدواروں کاچناو کرتے ہوئے وہی عہدیدار ہوں گے جن کا چناو مریم صاحبہ نے کیا ہوگا یعنی پارلیمانی پارٹی پر بھی انہی کی گرِپ، ہوگی۔
مسلم لیگ نون کا مستقبل مریم نواز ہیں، یہ امر تو اسی وقت واضح ہوگیا تھا جب میاں نواز شریف نے آج سے پانچ، چھ برس پہلے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد عوامی رابطہ مہم چلائی تھی اور اس میں ان کے ساتھ صرف ایک شخصیت تھی جو ان کی لاڈلی اور پیاری بیٹی ہیں۔
نواز شریف نے شہباز شریف کو وزارت عظمی بادل نخواستہ دی ورنہ وہ اپنے بھائی اوران کی فیملی کے لئے پنجاب کی حکمرانی ہی درست سمجھتے ہیں مگر ان کی اس قربانی نے انہیں فائدہ دیا جس سے وہ دوبارہ فیصلہ سازی میں ان، ہو گئے۔ میں نے ایک خبر دیکھی جس میں سینئر صحافی نے بڑے میڈیا گروپ پر انکشاف کیا کہ پارٹی کی تجربہ کار، لیڈر شپ میں مریم نواز کے سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بننے پر تحفظات پائے جاتے ہیں او روہ اسے غیر جمہوری سمجھتے ہیں۔
شریف فیملی اس خبر کو نظراندازنہیں کرسکتی کیونکہ اس میڈیا گروپ کی خبریں ان کے لئے ٹرینڈ سیٹر، ہوتی ہیں اور جس نے بھی اس میڈیا گروپ کا انتخاب کیا اس نے سمجھداری سے کام کیا مگر آپ ہمت دیکھئے کہ اس لیڈر نے جتنی بھی باتیں کیں وہ اس شرط پر کیں کہ اس کا نام سامنے نہ لایا جائے یعنی یہ واضح ہوگیا کہ پارٹی کا کوئی بھی رہنما اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ شریف فیملی کے فیصلوں کے خلاف بول سکے۔
یوں بھی سوشل میڈیا پر مریم بی بی کے شیروں کا قبضہ ہے اور وہ ان کے خلاف اف تک کرنے والوں کی ایسی ہی چیر پھاڑ کرتے ہیں جیسی پی ٹی آئی والے عمران خان کے ارشادات و فرمودات سے اختلاف کرنے والوں کی۔ اس وقت شہباز شریف کی حکومت کو سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے زیادہ ان جنگجووں کے تیروں، تلواروں کا سامنا ہے جو خود ان صفوں میں ہیں، وہ صفیں جن کی امامت یعنی صدارت ان کے پاس ہے۔
اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ مریم نواز کا چیف آرگنائزر بننا جمہوریت کی نفی ہے اور شریف فیملی کے پارٹی پر قبضے کو نسل در نسل برقرار رکھنے کی سازش ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پارٹی نواز شریف کی ہے، وہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں، جسے اس پر اعتراض ہے وہ باہر نکلے، اپنی پارٹی بنائے اور اس میں اپنے بچوں اور رشتے داروں کی بجائے کارکنوں کو لے آئے۔ تلخ حقیقت ہے کہ ہماری جمہوریت میں موروثیت نے ہی سیاسی جماعتوں کو بچا رکھا ہے ورنہ اس وقت عمران خان کے منظر سے غائب ہونے کے بعد کوئی ایک بھی تجزیہ کار ایسا نہیں جو پی ٹی آئی کے بچنے کی امید ظاہر کر رہا ہو۔
پارلیمنٹ میں موجود ایم کیو ایم کے سوا جتنی بھی قابل ذکر جماعتیں ہیں وہ خاندانوں اور بچوں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ میں نے پاکستان کے عوام کے حوالے سے خوش فہمیاں دل سے نکال دی ہیں۔ میرا تھیسز یہ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ سے محبت کرتے ہیں، یہ اپنے اپنے لیڈر سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ جوان سے باہر نکلتا ہے اس کی اوقات زیرو کردیتے ہیں۔
ہماری پارٹیوں میں جمہوریت اتنی ہی ہے کہ ایک لیڈر اپنی مرضی کے، اپنے وفادار لوگوں کی ایک جنرل کونسل بناتا ہے جس کا واحد میرٹ اس کی خوشنودی ہوتی ہے اور وہی جنرل کونسل جواب میں اسے اپنا لیڈر چن لیتی ہے۔ میں نے ایسے بہت سارے پارٹی الیکشن بطور جرنلسٹ اٹینڈ کئے ہیں جس میں انگوٹھے لگانے اور ہاتھ اٹھانے والی جنرل کونسل اپنے لیڈر کو منتخب کرتے ہوئے باقی تمام عہدوں پر انتخاب، کا اختیار اسی کو دے دیتی ہے۔
مریم نواز، نواز شریف کی صاحبزادی ہیں، وہ نواز شریف جو اب بھی پاکستان کے عوام کی بہت بڑی تعداد کے مطابق ماڈرنائزیشن، ڈویلپمنٹ اور پاکستانیت کا استعارہ ہے۔ مریم نواز خود ایک شاندار شخصیت کی مالک ہیں اور کرشمہ ساز لیڈر بننے کی بہت ساری صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ ان کے کافی کے مگ والے انداز سے ایک ہی رنگ کے باوقار لباس تک بہت کچھ ڈسکس ہوتا ہے، پسند کیا جاتا ہے، نقل کیا جاتا ہے۔ بس اتنا کہوں گا کہ انہیں اپنی تقریر کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔
مریم نواز نے اپنے والد کی جلاوطنی کے دوران اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ امیج بھی بنایا اور اب وہ اس دوران ہونے والے ڈیمیج کو کنٹرول بھی کر رہی ہیں۔ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان میں موجود جمہوریت کو جہاں تک دیکھا ہے اس میں مجھے نہیں لگتا کہ مریم نواز کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
ان کے مقابلے میں دو ہی ایسی جماعتیں ہیں جن کے مرکز میں اقتدار کی قیاس آرائی کی جاسکتی ہے، ان میں سے ایک پیپلزپارٹی ہے جس کی سربراہی اب تیسری نسل کے پاس ہے جبکہ پی ٹی آئی کی عمران خان کے بعد کوئی سمت اور کوئی مستقبل نہیں ہے۔
میں نہیں جانتاکہ مریم نواز کے چیف آرگنائزر بننے پر اعتراض کرنے والی نواز لیگ کی تجربہ کار لیڈر شپ کون سی ہے مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ نواز شریف کے اپنی لاڈلی، پیاری بیٹی سے زیادہ قریب اور عزیز نہیں ہوسکتی۔ یہ کیسی تجربہ کار لیڈر شپ ہے کہ اسے زمینی حقائق کا علم ہی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ تجربہ کار لیڈر شپ کسی روز کہہ دے گی کہ اعتراض والی خبر ٹیبل سٹوری ہے، من گھڑت ہے، ہاں، کسی کو سیاسی خود کشی کا شوق ہے تو وہ تو ضرور ٹکر مارکے دیکھ لے۔ اگر اس کا خیال ہے کہ اس کا سر نہیں دیوار ٹوٹے گی۔