لیڈروں کی اخلاقیات
یہ سوال ہمیشہ سے اہم ہے کہ ایک سیاسی رہنما کی ذاتی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں پر ختم ہوتی ہے اوراس کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے۔ میں اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی انہی آڈیوز کی بات کر رہا ہوں جن میں ہونے والی گفتگو ایسی ہے کہ ہمارے چینلز اسے آن ائیر کرنے کا رسک بھی نہیں لے رہے اور آن ائیر کرنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر وہ اسے آن ائیر کر دیں تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا سوشل میڈیا سے کیا فرق رہ جائے گا۔
کوئی ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جتنی چاہے تنقید کرے مگر بہرحال ابھی تک اس میں اخلاقیات کا ایک معیار اورایک احساس ذمے داری موجود ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے پروفیشنل ازم کا نام دے سکتے ہیں۔ ایک بڑے تاجر رہنما نے آڈیوز سننے کے بعد مجھے کہا، اس وقت ملک بڑے معاشی بحران کا شکار ہے، ادائیگیوں کے لئے ڈالر نہیں ہیں، کاروبار تباہ ہوچکے ہیں اور انڈسٹری بند۔ ایسے میں ہم کن کاموں میں پڑے ہوئے ہیں۔
یہ ایک عمومی موقف ہے جو پی ٹی آئی کی طرف سے بھی ان آڈیوزکو فیک قرار دیتے ہوئے اپنایا جا رہا ہے۔ ہم اس تاجر رہنما کے موقف پر بعد میں بات کریں گے مگر اس سے پہلے آڈیو یا ویڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے پر بحث کر لیتے ہیں۔ اس امر سے انکار نہیں کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے بعد ایسی کوئی بھی ویڈیو کسی قابل اعتماد فرانزک رپورٹ کے بغیر قابل قبول نہیں ہوسکتی مگر کیا وجہ ہے کہ جن صاحب کی آواز ہمیں سنائی جا رہی ہے اس پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ اس کی دو، تین وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ ان کا ماضی ہے جس میں وہ ایسے شغل کرتے رہے۔ ہمارے معروف وی لاگر اور صحافی رضوان رضی کی تحقیق ہے کہ یہ آڈیوز عام انتخابات سے پہلے کی ہیں یعنی کم از کم چار، ساڑھے چار سال پرانی۔ لہذا انہیں سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ درست ہے تو میری تشویش اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اگر ایسی آڈیوز اور بعض بڑبولوں کے مطابق ویڈیوز بھی موجود تھیں اوراس کے باوجود ایک طویل آپریشن رجیم چینج کیا گیاتو کیا سوچ کر کیا گیا۔ یاد رہے کہ میں تحریک عدم اعتماد کو ہرگز آپریشن رجیم چینج نہیں سمجھتا۔
میری نظر میں آپریشن رجیم چینج وہ تھا جس میں ایک سیاسی جماعت کی سہولت کاری کرتے ہوئے اس کے جلسے کروائے گئے، اس کا بیانیہ بنایا گیا، اس سے دھرنے کروائے گئے، ایک منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا، الیکٹ ایبلز کو مینج کیا گیا، آر ٹی ایس بند کیا گیا اور اس کے بعدا ٓزاد امیدواروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے ٹرک پر لاد کے ایوان اقتدار میں پہنچایا گیا۔ دوسری وجہ ان کے قریبی لوگوں کی گواہیاں ہیں یعنی ان سے تعلق رکھنے والے جو ان سے ناراض ہوئے یا ان کو چھوڑ گئے اور تیسر ی وجہ عمومی ہے کہ ایسی بہت ساری آڈیوز اور ویڈیوز بعد میں درست ہی نکلتی ہیں۔
اگر آڈیوز اور ویڈیوز کے بارے میں میری رائے پوچھیں تو میں دوٹوک اندا ز میں کہوں گا کہ ان کا لیک ہونا جرم ہے۔ آج کے جدید آلات کے دور میں یہ پتا چلانا ہرگز مشکل کام نہیں کہ ایسی آڈیوز کو کس جگہ سے اور کس شخص نے اپ لوڈ کیا اور اسے کس نے کہاں سے حاصل کیاسو اسے پکڑاجانا چاہئے، مگر میری نظر میں یہ تیسرے مرحلے پر ہونے والا جرم ہے۔
دوسرے مرحلے پر ہونے والا جرم ہے کہ کسی کی پرائیویسی میں گھستے ہوئے ایسی ویڈیوز کو ریکارڈ ہی کیوں کیا جائے۔ یہاں ریکارڈ ہونے والی ویڈیوز کی دوبڑی اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ ہوتی ہیں جو لوگ خود سے لطف اندوز ہونے کے لئے ریکارڈ کر لیتے ہیں اور وہ اپنے ہی فون میں محفوظ کرتے ہوئے کسی غلط جگہ رکھ دی جاتی ہے جہاں سے دوسرے اس تک پہنچ جاتے ہیں یا ایک دوسرے کو ٹرانسفر کرتے ہوئے غلطی کر لی جاتی ہے۔
دوسری ویڈیوز وہ ہوتی ہیں جو شکار کرنے کے لئے ریکارڈ کی جاتی ہیں اور ان کا مطمع نظر محض لطف اندوزی نہیں بلکہ بلیک میلنگ ہوتا ہے۔ اب اس امر کا فیصلہ نہیں ہوسکتاکہ یہ آڈیوز کسی نے خود اپنے لئے ریکارڈ کیں اور لیک ہوگئیں یا نجی زندگی میں در اندازی کی گئی۔ پہلے مرحلے میں ہونے والا جرم وہ واقعہ خود ہے جس کی ریکارڈنگ ہوئی اور پھر وہ لیک ہوئی۔ ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ فرد کی نجی زندگی ہے اور غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہیں۔
اب یہاں بھی بحث یہ ہے کہ یہ کیا ایک، دو مرتبہ ہونے والی غلطی ہے یا مجموعی رویہ ہے۔ ہم قانون کے طالب علم کے طورپر دیکھتے ہیں کہ ایک، دو مرتبہ ہونے والی غلطی کو معاف کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن اگر آپ ایک عادی مجرم کے لئے معافی کا آپشن استعمال کرتے ہیں تو آپ ظلم اور برائی کی ترویج کرتے ہیں۔
میں نے اگرچہ میاں نواز شریف کی بہت ساری پولیٹیکل مووز پر تنقید کی ہے مگر مجھے یہاں گواہی دینی ہے کہ انہوں نے دو مارشل لاوں کا سامنا کیا۔ ایک اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ننگا مارشل لا تھا اور دوسرا دوسرے عشرے میں برقعہ پوش مارشل لا۔ ان دونوں مارشل لاوں میں نواز شریف سے طاقتوروں کا ذاتی بغض اور سیاسی انتقام ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
ان کے گھروں پر قبضے کئے گئے، انہیں جیلوں میں رکھا گیااور خواتین تک کالحاظ نہیں کیا گیا مگر ان دونوں ادوار میں نواز شریف کے کردار کو سراہنا ہوگا کہ ان کے خلاف ایک بھی ایسی آڈیو یا ویڈیو نہیں لا ئی جا سکی حالانکہ ان کی وزارت عظمیٰ کا تیسرا دور سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا دور تھا بلکہ یہ جدت دوسرے دور میں ہی آچکی تھی جب جسٹس قیوم والی آڈیو آئی۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سیاسی امور پر اختلاف اور تنقید ایک طرف مگر ایک سیاسی لیڈر کو ایسا ہی بلند کردار ہونا چاہئے کہ ایک بڑا لیڈر ہرگز ایک عام آدمی نہیں ہوتا۔
اب اس سوال پر آجائیں جو بڑے تاجر رہنما نے کیا اور مجھے اس تحریر کی تحریک دی۔ میں ذاتی طو پر سمجھتا ہوں کہ ملک اس وقت تباہ وبرباد ہوتے ہیں جب لیڈروں کی اخلاقی حالت اور ذاتی ترجیحات ایسی ہوتی ہیں جیسی اس آڈیو میں سامنے آئیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ جب آپ ملک خدادداد کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچ گئے تو آپ کے پاس ایسی باتوں کے لئے وقت کہاں سے رہ گیا۔
میں نے کہا کہ میں تاریخ اور سیاست کا طالب علم ہوں اور میں نیض پڑھا ہے کہ یہ ملک اس وقت دو لخت ہوگیا تھا جب ماضی میں ایک حکمران ہوا کرتا تھا جس کی جنرل رانیاں ہوا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ترانہ نامی اداکارہ اس حکمران کے پاس پہنچی تو اسے اندر جانے دیا گیا مگر جب وہ واپس جانے لگی تو اسے سیلوٹ کیا گیا۔ کسی نے پوچھا کہ جاتے ہوئے سیلوٹ کیوں نہیں، آتے ہوئے کیوِں، ستم ظریف نے جواب دیا کہ جاتے ہوئے یہ اداکارہ ترانہ تھی اور واپسی پر یہ قومی ترانہ بن چکی تھی۔
پھر اقتدار کے ایوانوں میں ایسے قومی ترانے بجے توبنگلہ دیش بنا۔ سو حکایات سعدی کے مطابق اگرحکمرانوں کے اعمال تو کیا نیت ہی درست نہ ہو تو اس ریاست میں ہزاروں میل دورانار کے پودے پر انار کا رس آدھا رہ جاتا ہے یہ کاروبار تباہ ہونا اور انڈسٹری کا بند ہونا کیا بڑی بات ہے؟