خواجہ رفیق شہیدکی برسی
عشرے گزر گئے کہ خواجہ رفیق شہید کی برسی ہربرس دسمبر میں لاہور کا ایک بڑا سیاسی اور فکری اجتماع ہوتی ہے۔ یہ کبھی خالصتا مسلم لیگ نون کی تقریب نہیں رہی بلکہ آپ اسے کسی حد تک آل پارٹیز کانفرنس کہہ سکتے ہیں۔ اس تقریب کا موضوع ہمیشہ آئین، جمہوریت، پاکستان اور عوام کے گرد گھومتا ہے۔
میں جیسے یہ سمجھتا ہوں کہ کسی جسمانی تکلیف کے لئے ہمیں اس بیماری کے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس جانا چاہئے تو ان امراض کے سپیشلسٹ وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وطن عزیز میں اعلیٰ سیاسی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے دان کی ہیں۔ ان میں نظریوں کا فرق ہوسکتا ہے مگر ان سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ایک مضبوط، خوشحال اور باوقار پاکستان ہے۔
یہ ایک لمبے سفر کی طرح ہے، کسی کے خیال میں وہ سفر بائے روڈ اچھا اور دلچسپ ہوسکتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ بائے ٹرین جو سہولت اور آسانی ملتی ہے وہ بائے روڈ کہاں اور اسی طرح کسی کی رائے ہے کہ اگر بائے ائیر ہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔ میں کنوینس ہوں کہ ہمیں پاکستان کو لاحق امراض کے حل کے لئے انہی کے ماہرین کے پاس جانا چاہیے۔ کیا ایسا کبھی ہوا کہ آپ کو کینسر کی شکایت ہو اور آپ معدے کے امراض کے ماہر کے پاس چلے گئے ہوں یا کسی عطائی کے پاس۔
ایسا ماہر جو پاکستان کے امراض کا ماہر نہ ہو مگر اسے کسی دوسرے نے سپشلسٹ کی ڈگری دے دی ہو۔ بات کھل کے ہونی چاہئے کہ جب آئین اورجمہوریت کے مسائل کی بات ہوگی تو پھر فوج کے پاس ان کاحل نہیں ہوگا جو اس کے پاس علاج کے لیے جائے گا وہ نقصان اٹھائے گا۔
مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ ہم دائرے میں سفر میں کر رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق سے سٹوڈنٹس پالیٹکس کے دور کا تعلق ہے۔ میں نے ان کی گفتگو ایک بار نہیں بار، بار سنی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون کی تقریب نہ ہونے کے باوجود خواجہ رفیق شہید فاونڈیشن کے زیر اہتمام یہ اجتماع مسلم لیگ نون کے رہنماوں اور کارکنوں کی بھاری اکثریت لئے ہوئے ہوتا ہے۔ یقین کیجیے، میں جب سے ان کی تقریریں سن رہا ہوں وہ اپنی پارٹی سمیت تمام سیاسی اور جمہوری جماعتوں سے کہہ رہے ہیں کہ ملک میں سیاست کی آزادی اور جمہوریت کی فراوانی مانگنے والے اپنی پارٹیوں کے اندر سیاست اور جمہوریت کی آزادی کیوں نہیں دیتے۔
یہ بات درست ہے کہ آمریتیں مقبول سیاسی قیادتوں کو کچلتی ہیں تو ان کے آس پاس سب لوگ ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ پھر بھٹو کا جھنڈا اس کی بیٹی بے نظیر اور نواز شریف کاجھنڈا اس کی بیٹی مریم اٹھا لیتی ہے۔ پاکستان کامسئلہ بنتا ہے تو سب سے پہلے اس کی روایت بابائے قوم کی بہن فاطمہ قائم کرتی ہے۔ ہماری تاریخ کا عجب تضاد ہے کہ مردانہ وار لڑنے والوں میں سرفہرست عورتوں کے نام ہیں اور بہت سارے جٹ اور چوہدری کہلانے والے اور اچے شملے والے جٹ ڈنڈا دیکھتے ہی لمے پے جاتے ہیں۔
میں قومی سیاست میں مزاحمت کا بہت زیادہ حامی نہیں ہوں، ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اس سے گریز کرنا چاہئے مگرمیں یکطرفہ مفاہمت کا بھی حامی نہیں ہوں۔ ہمیں اپنی سیاست اور معاشرت میں توازن لانا ہوگا۔ اس میں حکمت کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ حامد میر بتا رہے تھے کہ پچھلے عام انتخابات سے پہلے اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت اس وقت کے فیصلہ سازوں کی میٹنگ ہو رہی تھی اوراس میں شہباز شریف کوبھی بلایا گیا تھا۔
شہباز شریف سے پوچھا جا رہا تھا کہ ان کی کابینہ میں کون ہوگا اور جب وہ وزیراعظم بنیں گے تو کیا وہ فیصلے نواز شریف کی مرضی کے بغیر بھی کریں گے۔ شہباز شریف جواب میں کہہ رہے تھے کہ کابینہ سمیت تمام فیصلے نواز شریف اور پارٹی کی مرضی سے ہوں گے۔ یعنی اس وقت بھی سب کو علم تھا کہ وہ خانصاحب کی صورت میں کوئی اچھا فیصلہ نہیں کررہے مگر ان سب کے لئے نواز شریف ناقابل قبول ہوچکے تھے۔
میں نے ہمیشہ لکھا بھی ہے اوربولا بھی ہے کہ نواز شریف کو مسترد کرنے کا حق صرف پاکستان کے عوام کا ہے، کسی دوسرے ادارے کا نہیں مگر میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ جب ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو ہمیں حکمت اور تدبر سے کام لینا چاہئے۔ ہمارے پاس صلح حدیبیہ جیسی عظیم، روشن اور حکمت بھری مثال موجود ہے۔ تھوڑے کہے کو زیادہ جانئیے کہ اس پر پہلے بات کرنے سے بہت سارے ناراض ہوچکے جن سے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بارہ اکتوبر ننانوے کو اسمبلیاں توڑ دی جاتیں تو بیس کروڑ پاکستانیوں کے مقدر میں ایک اور مارشل لا نہ ہوتا۔
خواجہ آصف بھی اس مرض کے سپیشلسٹ ہیں جو ا س وقت ملک و قوم کو لاحق ہے۔ خواجہ سعدرفیق جہاں فوج اور عدلیہ کی بات کررہے تھے، سیاستدانوں کے میثاق جمہوریت کو آگے بڑھانے اور میثاق معیشت کرنے کی بات کررہے تھے وہاں خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ ہمارا تو پورا ہی آرگن فیلئیر، ہوگیا اور اب اس فیلئیر کو ریورس کرنے کے لئے صرف سیاستدانوں کو نہیں بلکہ سب کو ہی بیٹھنا ہوگا مگر یہ بات درست ہے کہ سیاستدانوں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زیادہ محب وطن رہیں، زیادہ دیانتدار رہیں، زیادہ جمہوری رہیں۔
جن کا کردار خود اچھا نہ ہو اور وہ ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کریں تو پھر ویسی ہی ریاست مدینہ بنتی ہے جیسے خانصاحب نے بنائی۔ سیاستدان جمہوریت لانا چاہتے ہیں تو یہ وہی مثال ہوگی کہ مسلمان بنانے کے لئے پہلے خود مسلمان بننا ہوگا اور نماز کے لیے بلانے کے لئے پہلے خود نماز پڑھنی ہوگی ورنہ جمہوریت کے لئے یہ سب باتیں محض منافقت اور ڈرامے بازی ہوں گی۔ سیاستدانوں کو اس وقت کا تاریخ سنہری موقع ملا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی غلطی کرنے کے بعد کہہ رہی ہے کہ وہ غیر سیاسی ہوگی، غیر جانبدار ہوگی۔
سیاستدانوں کو اپنے اقوال، افعال اور کردار سے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ تاریخ کا دھارا موڑ سکتے ہیں۔ اس وقت عمران خان اور قاف لیگ کے سوا کوئی دوسرا فوج کی سیاست میں مداخلت نہیں چاہتا اور اچھی بات یہ ہے کہ ان دونوں کو بھی بار بار رابطوں کے باوجود صاف جواب مل رہا ہے۔ اب وقت ہے کہ جمہوریت پسند سیاستدان حکمت، تدبر اور محنت سے کام لیں اور پاکستان کے ماضی سے وہ مرض نکال پھینکیں جس کی وجہ سے بنگلہ دیش ہوا اور وطن عزیز دنیا کی نظر میں ایک ڈیپ سٹیٹ بن کے رہ گیا۔
خواجہ سعد رفیق کی اپنے والد کی ایک پچھلی برسی پر کی ہوئی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی کہ عمران خان کو ان کی جگہ پر آنا پڑے گا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو دو سال مشکلات کا سامنا رہے گا۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے کہ عمران خان بھی ایک وقت آئے گا کہ ان کے ساتھ ٹرک پر سوار ہوں گے۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کو میثاق جمہوریت جیسا شعور ایک ایک مارشل لا بھگتانے کے بعد ملا اور وطن عزیز اس وقت محض تحریک انصاف کو جمہوری بنانے کے لئے ایک اور ضیا یا مشرف کا دور برداشت نہیں کر سکتا۔ اللہ کرے خانصاحب اس سے پہلے ہی ٹھیک ہوجائیں۔