جماعت اور اقتدار
میں نے ایک تصویر دیکھی، چینی کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، اس تصویر نے میرے دماغ میں عشروں سے پھنسے ہوئے ایک سوال کا مکمل جواب دے دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنی صحافت کے آغاز میں جناب ضیا شاہد مرحوم کے ساتھ قاضی حسین احمد کا ایک انٹرویو کرنے کے لئے گیا، مطلب انٹرویو ضیا صاحب نے ہی کرنا تھامیرا کام بطور نوجوان صحافی اسے لکھنا اور رپورٹ کرنا تھا۔ انٹرویو کے بعد ہم دارالضیافہ میں کھانے کی میز پر بیٹھ گئے اور آف دی ریکارڈ گپ شپ شروع ہوگئی۔
ضیا صاحب نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ آپ بہادر بھی ہیں اور علم والے بھی ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ عوام جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتے۔ یہ وہ دور تھا جب جماعت اسلامی، مسلم لیگ کو ٹارگٹ کرکے اینٹی نواز شریف ووٹ توڑ رہی تھی۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے کا نعرہ لگ رہا تھا اورپِف یعنی پاکستان اسلامک فرنٹ بن رہا تھا۔ قاضی حسین احمد کے پاس بھی اس سوال کاجواب نہیں تھا کہ ان جیسی کرشمہ ساز شخصیت پرعوام اعتماد کیوں نہیں کر رہے جبکہ ان کے پاس نیک اور اچھے لوگوں کی تنظیم بھی موجود ہے۔
میں نے جناب لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمان کو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا۔ یقینی طور پر یہ تصویر ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کراچی میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہے ہیں مگر یہ تصویر کچھ اور بھی ظاہر کر رہی تھی کہ جس وقت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور اسد عمر ہی نہیں بلکہ عثمان بزدار جیسے شخص کا سیاسی ویژن اسے بتا رہا ہے کہ یہ وقت عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کا نہیں، اس سے چاہے دنیا کو دکھانے کے لئے وقتی طور پر ہی سہی دور جانے کا ہے اس وقت جماعت اسلامی عمران خان کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔
میں ذاتی طور پر لیاقت بلوچ کا مداح ہوں، ان کی محبتوں کا مقروض ہوں مگر یہی محبتیں مجھے کہتی ہیں کہ مجھے ان سے جھوٹ نہیں بولنا، ان سے منافقت نہیں کرنی، ان سے سچ بولنا ہے اور سچ یہ ہے کہ انہوں نے مسرت جمشید چیمہ سے بھی کم سیاسی فہم و فراست اور آئی کیو لیول کا مظاہرہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی والے، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا احمقوں کی طرح نومئی کے واقعات کی اہمیت، سنگینی اور ممکنہ نتائج کا اندازہ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ اسے ایک معمول کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ واقعہ سمجھ رہے ہیں۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو ملنے والی سزاوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ادراک نہیں کر پا رہے کہ عمران خان، ان دونوں سے ہی نہیں ہندوستان کی فوج سے بھی آگے نکل گیا ہے جس کے جرنیلوں نے پینسٹھ میں پاکستان پر رات کے اندھیرے میں یہ سمجھتے ہوئے حملہ کیا تھا کہ وہ ناشتہ لاہور کے جمخانہ میں کریں گے اور وہاں شمپئن کی بوتلیں کھولیں گے۔ وہ بھی جناح ہاؤس یا آپ کو جناح ہاؤس کہنے پر اعتراض ہے تو لاہور کے کورکمانڈر ہاؤس پر نہیں پہنچ پائے تھے۔ اسے آگ نہیں لگا پائے تھے۔ وہ جی ایچ کیو پر حملہ نہیں کر سکے تھے اور نہ ہی شہداء کی یادگاروں کو تباہ کر سکے تھے۔
مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جماعت اسلامی والوں نے اس وقت اپنا وزن فوج کے پلڑے میں ڈالا تھا جب انہیں نہیں ڈالنا چاہئیے تھا اور اس وقت فوج مخالف پلڑے میں ڈال دیا ہے جب کوئی محب وطن اور کوئی عقل مند ایسا کرنے بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔
آہ، کچھ احمقوں سے مکالمہ ہوا اور وہ اسے بہادری کہہ رہے ہیں۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ بہادری اور حماقت میں فرق صرف عقل کا ہوتا ہے۔ بہادر کبھی چلتی ہوئی ٹرین کے سامنے کھڑا ہو کے دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ اسے اپنے سر کی ٹکر مار کے روک لے گا، ہاں، بے وقوف ضرور ایسا کر سکتا ہے۔ ایک نے تو حد کی کہ اسے شاہ احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید سے ملا دیا۔ اگر کوئی شخص اپنے ہی ملک کی فوج پر حملوں کو انگریز کے قبضے کے خلاف جدوجہد سے ملا کے پیش کرتا ہے تو میں اس سے بحث نہیں کر سکتا۔
دنیا کی کسی بھی ریاست میں فوج کے مراکز پر حملوں کے بعد وہی کچھ ہوگا جو یہاں ہونے جا رہا ہے بلکہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ فوج نے میچور رسپانس کا مظاہرہ کیا ہے، صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اپنی فوج سے سیاسی امور میں مداخلت یا سیاسی معاملات میں اختلاف پر نہ میں اس کو انگریز سے کے برصغیر پرقبضے سے تشبیہہ دیتا ہوں اور نہ ہی کفر کے خلاف کوئی جہاد، سو اس پس منظر کے ساتھ میں جماعت اسلامی والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر وہ فرسٹریشن کی اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے بعد فوج پر حملہ کرنے والی دوسری قوت کے بھی اتحادی بن گئے ہیں، پہلی قوت کے اتحادی اس وقت بنے تھے جب بہت ہی نیک اور دیندار امیر جماعت سید منور حسن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے فوجیوں کی شہادتوں کو متنازع بنانے کی ناکام کوشش کی تھی اور اپنی امارت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، تو انہیں اسلام کی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ دنیا کی سب سے دانا ہستی نے کب کیا عمل کیا تھا۔
میرے ماں باپ اور میری اولاد ان پر قربان، انہوں نے حکمت سے کام لیا تھا جب انہوں نے ہجرت کی تھی اور جب صلح حدیبیہ کی تھی۔ میں ایک اور مثال دوں گا کہ قائد اعظم نے ایک مرتبہ بھی جیل جائے بغیر مدینہ کے بعد دنیا اسلامی ریاست بنا کے دکھا دی تھی۔۔ پھر کہوں گا کہ بہادری اور پاگل پن میں فرق صرف حکمت کا ہوتا ہے۔
مجھے افسوس تو یہ ہے کہ اس تصویر میں لیاقت بلوچ موجود ہیں جن کی سیاسی بصیرت کو میں جماعت اسلامی میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کئی برس پہلے میری رائے تھی کہ اگر لیاقت بلوچ، سید منور حسن کے بعد جماعت اسلامی کے امیر بن جاتے تو وہ زیادہ بہتر سیاسی فیصلے کرتی مگر میرا خیال ہے کہ مجھے اپنی رائے واپس لے لینی چاہئے۔ جماعت اسلامی کے تمام سیانے مل کربھی ایک خادم رضوی کے برابر بھی سیاسی حکمت اور عوامی نتائج لینے کے اہل نہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمان کو غلط تو کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ مولانا نے حاصل کیا کچھ کر لیا ہے۔
جماعت اسلامی والے وہ سیانے ہیں جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے مخالف کا ہاتھ اس کی بے وقوفی کی وجہ سے چکی میں آ گیا ہے اور انہوں نے فوری طور پر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کراچی میں اپنا ووٹ بینک بنا لیں گے مگر مجھے خدشہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی مخالفت کی وجہ سے ڈیلیور ہی نہیں کرپائیں گے۔ میں آج برملا کہتا ہوں کہ مجھے اپنے بہت پرانے سوال کا جواب مل گیا ہے کہ جماعت اسلامی کے اچھے لوگ اقتدار میں کیوں نہیں آپاتے، ان کی راہ کی رکاوٹ صرف ان کا آئی کیولیول ہے۔