عمران خان کو سیاست آتی ہے؟
ایک دور میں غلغلہ رہا کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ پی ٹی آئی کے مفکرین بھی اس کو تسلیم کرتے اور کہتے کہ وہ ایک سیاستدان نہیں ہے یا کم از کم اس پر اتفاق ہوتا کہ وہ ایک روایتی سیاستدان نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے کچھ سیاستدانوں نے سیاست کو گالی بنا دیا ہے اور اس میں خود عمران خان بھی شامل ہیں ورنہ سیاست خدمت ہے، سعادت ہے اور آپ کے اعلیٰ فکری اور سماجی شعور کی نشاندہی کرتی ہے۔
سیاسی ہونے کی سماجی رابطے کی ویب سائیٹوں پر ایک تعریف گردش کرتی رہی ہے جس میں بجا طورپر سیاسی ہونے کو معاملہ فہم ہونا قرار دیا گیا۔ ایک وہ شخص جو معاملہ فہم نہ ہو، مشکلات کا حل نہ نکال سکتا ہو، اپنے لوگوں کو جوڑ نہ سکتا ہو اسے سیاسی کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سیاست اپنے نظرئیے کو لاگو کرنے کا نام ہے اور اس تعریف کے مطابق انبیائے کرام نے سب سے کامیاب سیاست کی ہے۔ دنیا کے سب سے عقلمند اور معاملہ فہم ہمارے آقا، سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ حضرت محمد ﷺ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کب ہجرت کرنی ہے، کب صلح حدیبیہ کرنی ہے، کب خندق کھود کے مقابلہ کرنا ہے اور کب بدر جیسے معرکوں کو برپا کرنا ہے۔
میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاست کو تین ادوار میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ دور تھا جب انہوں نے لاہور کے ایک ہوٹل میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ میں اس وقت روزنامہ خبریں سے وابستہ تھا اور میری صحافت کے ابتدائی ایام تھے۔
ہمارے چیف ایڈیٹر جناب ضیا شاہد مرحوم نواز لیگ سے ناراض ہوچکے تھے۔ ان کا اخبار ظالموں کے خلاف ننگی تلوار کے طور پر مشہور تھا اور وہ ایک انقلاب برپا کرنے کے خواہاں تھے۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت کے تیسرے مقبول ترین اخبار نے کس طرح عمران خان کا ساتھ دیا۔ خبریں اخبار نے قاضی حسین احمد مرحوم کا بھی نواز شریف کی مخالفت میں ساتھ دیا تھا۔ پہلے اخبارات اور اب ٹی وی چینلوں کی سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مخالفت کی ایک بڑی تاریخ ہے جس میں سیاسی جماعتیں بھی نفع نقصان کرتی ہیں اور میڈیا کے ادارے بھی۔
اس پیرا گراف کی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اس حمایت کے باوجود عمران خان کی پولیٹیکل پوزیشن قومی اسمبلی کی ایک آدھ سیٹ والی ہی تھی اور وہ اس پوزیشن پر اپنی سیاست کے پندرہ سولہ برس تک رہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی مقبولیت میں بانوے کے ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال نے اہم کردارادا کیا مگر میں اسے محض مغالطہ اور پروپیگنڈہ سمجھتا ہوں کہ بانوے کے ورلڈ کپ کے بیس برس بعد بھی وہ سیاسی لنڈورے ہی تھے اور بغیر کسی ڈور کے کٹی پتنگ کی طرح سیاست کے وسیع آسمان میں گرتے پھرتے تھے۔ پھر اس صدی کے دوسرے عشرے میں اس پتنگ کو فوج کی تناویں، ڈال کے اڑا یا گیا۔
تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ، ایک علامتی دن ہے ورنہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں کچھ عرصہ پہلے آ چکے تھے۔ لوگوں تک پیغام پہنچایا جا چکا تھا اورہوم ورک مکمل ہوچکا تھا۔ اس کے بعد کی سیاست جناب عمران خان کی اپنی اہلیت اور صلاحیت کی نہیں ہے۔ انہیں سب کچھ لکھ کراور پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جاتا تھا چاہے وہ ان کے فنانسرز تھے یا سیاسی رفقائے کار، چاہے وہ لانگ مارچ تھا یا کوئی سانحہ ماڈل ٹاون۔ انہیں صرف ایک کام کرنا تھا کہ سب کو گالی دینی تھی۔
نفرت کے رشتے محبت کے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ خانصاحب کی مقبولیت کے لئے دوسروں سے نفرت کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ انیس صد ستانوے سے ہی نوازلیگ او ر پیپلزپارٹی کے خلاف کام کر رہی تھی اور فوج میں کمیشن لینے والا ہر نوجوان یا اوپر والی عدلیہ میں آنے والا ہر جج جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو، کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ تھا اور ظاہر ہے کہ نقش کہن میں ہماری پرانی سیاسی جماعتیں تھیں، جو میچورہو چکی تھیں۔
عمران خان صاحب کا دوسرا دور گیارہ بارہ برس یعنی دو ہزار بائیس تک جاری رہا۔ اس دوران انہیں شجاع پاشا، ظہیر الاسلام اورفیض حمید اپنی طاقت سے چلاتے رہے مگر یہ کوئی عقل، فہم اور دانش والی طاقت نہیں تھی، یہ صرف اور صرف ڈنڈے والی طاقت تھی جس میں ہر ان کے ہر مخالف کو ڈنڈا ماراجاتا تھا۔
تیسرا دور اس وقت شروع ہوا جب موصوف عالمی سطح پر اپنے انا پسندی، ہٹ دھرمی اورناکامیوں کی وجہ سے ایکسپوز ہوئے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں شجاع، ظہیر اور فیض بھی کام نہیں آ سکے۔ ظاہر ہے وہ دوست ممالک کی قیادتوں کے ساتھ وہ نہیں کرسکتے تھے جو وہ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ کررہے تھے۔
عمران خان بری طرح ناکام ہوئے اور پھر قمر جاوید باجوہ محبور ہو گئے کہ وہ خانصاحب کے سر پر موجود فوجی چھتری اتار لیں، ان کے ہاتھ میں دی ہوئی اپنی چھڑی واپس لے لیں۔ فوج نے غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا تھا اور اس میں سیکٹر کمانڈر کی سطح تک کی مشاورت شامل تھی۔ یہ پاک فوج کے اندر ایک انقلا ب تھا جو ستر برسوں میں پہلی بار وقوع پذیر ہوا تھا۔ میں یہاں عمران خان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یہ ان کی نااہلی اور ناکامی کا پہلا مثبت نتیجہ تھا۔
عمران خان اب پھر اپنی حقیقی اہلیتوں اور ذاتی صلاحیتوں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی فین بنائے گئے تھے اب کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کوئی فوج مخالف قسم کی کوئی توپ بن گئے ہیں تو میر ا ان سے بصد احترام کہنا ہے کہ عمران خان نے غم اور غصے میں خود کو اور اپنی پارٹی کو جس بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے آپ اس نقصان کا اندازہ ہی نہیں کر پا رہے۔ ان کی طرف سے گذشتہ برس دس اپریل سے شروع ہونے والی مہم ہی قابل قبول نہیں تھی کہ نو مئی کی بدترین غلطی کر دی گئی۔ اب حالات یہ ہیں کہ عمران خان اور ریاست میں سے کسی کو ایک کو بچنا ہے۔
تمثیل بہت معیاری نہ سہی مگر موصوف جرنیل کا وہ گدھا ثابت ہوئے ہیں جسے ہر کسی کو دولتی جھاڑنے کی عادت ڈال دی گئی تھی اورپھر اس نے ایک روز بم کو دولتی مار دی۔ مجھے خانصاحب سے شکوہ ہے کہ اگر انہوں نے مرنا ہی تھا تو اکیلے مرتے کہ وزارت عظمیٰ بھی انہوں نے انجوائے کی اور اربوں روپوں کی دیہاڑیاں بھی انہوں نے ہی لگائیں مگر اپنے ساتھ ہزاروں عاقبت نااندیش کارکنوں کو بھی ساتھ ہی مروا دیا جن کی اکثریت جذباتی اور احمق ہے۔ اب ان پر ملٹری ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے چلیں گے۔
میں نہیں جانتا کہ کس فرد کو کیا سزا ہوگی مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جس روز عمر عطا بندیا ل کی آخری چھتری عمران خان کے سر سے اتری، اس روز پی ٹی آئی کالعدم ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس پارٹی کی اقتدار میں کوئی پانچ، دس برس بعد واپسی ہوجائے مگر شائد اس میں بھی عمران خان نہیں ہوں گے، ہاں، انہوں یہ ضرور ثابت کردیا ہے کہ انہیں سیاست نہیں آتی۔ ان کی اپنا سیاسی فہم اور وزن وہی ہے جو دو ہزار گیار ہ سے پہلے تھا اور اب کہیں زیادہ بری اور خطرناک صورتحال ہے۔