آئین یاد آ رہا ہے؟
تحریک انصاف والوں کو آج کل سے آئین ہی نہیں بلکہ جمہوریت اور اخلاقیات جیسی چیزیں بھی شدت سے یادآ رہی ہیں حالانکہ ان کی طاقت اور اختیار کے پچھلے کئی برسوں میں ان کا ان تینوں کے ساتھ رتی برابر کوئی تعلق، کوئی ربط نہیں رہا۔ پی ٹی آئی کو آئین پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لئے یاد آ رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ بدترین مہنگائی کی وجہ سے پی ڈی ایم یا خاص طور پر نواز لیگ کو بہت بڑا ڈینٹ پڑ چکا ہے۔
اسے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر اس نے اکتوبر تک کا انتظار کیا تو شائد حکومت معیشت کو کسی حد تک سنبھالنے میں کامیاب ہوجائے (جس کے دعوے اور امید روز بروز کم ہوتی چلی جا رہی ہے) اور وہ انتخابات میں وہ نتائج حاصل نہ کر سکے جس کے وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ پچھلی مرتبہ پٹرول مہنگا ہوا تو عمران خان کے بہت قریبی صحافی نے شکریہ کی ٹوئیٹ کی۔ یہ اسی ذہنیت کی عکاسی تھی کہ وہ حکومت کے سخت اقدامات میں اپنے لئے سیاسی فائدہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایسی تمام خبریں شئیر کرتے ہیں جن میں یا جن سے پاکستان کی سبکی ہو اور خبروں کا درست ہونا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
عمران خان اور ان کے حامی بار بارنوے روز کی اس مدت کا ذکر کر رہے ہیں جو کسی بھی اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں انتخابات کے لئے مقرر ہے مگر کیا وہ یاد کرتے ہیں کہ عمران خان اور پرویز الٰہی کے خلاف تحاریک عدم اعتماد کے لئے بھی آئین نے چودہ روز کی مدت مقرر کی تھی مگر اس مدت کی پاسداری اس لئے نہیں کی گئی کیونکہ ان کے سپیکر اس مدت کو پامال کر سکتے تھے لہذا انہوں نے ایسا ہی کیا۔
میں ایک اور مدت کا ذکر کرتا ہوں کہ آئین کسی بھی اسمبلی کے انتخاب کی مدت پانچ برس قرار دیتا ہے۔ اس سے پہلے اسمبلی کا توڑا جانا یقینی طور پر قبل از وقت بڑے اخراجات کا باعث بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کون سی وجہ ہوئی کہ آپ نے وہ مدت پوری ہونے سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی کو بلیک میل کرتے ہوئے اور محمود خان کو حکم جاری کرتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تڑوائیں۔
کیا یہ مدت پوری کرنا ضروری نہیں تھا؟ آپ آئین اور جمہوریت سے کھلواڑ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے سو اگر آئین کے ساتھ کھلواڑ ہی کرنا ہے تو پھر آئین کا ایک اور آرٹیکل کہتا ہے کہ اگر کوئی ایسا کام جو آئینی مدت میں ہونا ضروری ہو اور وہ اس مدت میں نہ ہوسکے تواس کے بعد بھی وہ غیر آئینی نہیں ہوجاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین بہت سارے معاملات میں مدت کا تعین کرتاہے جیسے مردم شماری مگر ہمارے ہاں بیس اورتیس برس تک مردم شماری نہیں کروائی گئی۔ آئین نے اردو کے نفاذ کے لئے بھی مدت مقرر کی مگر آج بھی سرکاری اور عدالتی زبان انگریزی ہے۔ ہم نے انگریزی بولنے والوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ انہیں علم اور عقل کا دیوتا بنا رکھا ہے۔ ہمیں آئینی مدت وہیں یاد آتی ہے جہاں ہمارا سیاسی مفاد ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے دوستوں کو اس وقت جمہوریت بھی بہت زور سے آئی ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ فئیر اینڈ فری انتخابات ہوں مگر جب یہ خود اسٹیبلشمنٹ کی گود میں کھیلتے تھے تو اس وقت ایک منتخب وزیراعظم کو عمران خان، قمر جاوید باجوہ اورثاقب نثار کے ساتھ اتحاد کر کے نااہل کروا رہے تھے۔ جب پاکستان کی پرانی سیاسی قوتوں کے خلاف ریاستی خزانے سے کرپشن اور غداری کابیانیہ بنایا جا رہا تھا۔ جب پی ٹی آئی کو کنگز پارٹی بنانے کے لئے پورا جنوبی پنجاب اغوا کیا جا رہا تھا۔
جب بلوچستان میں ایک باپ، بنایا جا رہا تھا۔ جب ملک بھر سے الیکٹ ایبلز کو جہازوں میں بھر کے بنی گالہ میں ترنگے پٹے پہنائے جا رہے تھے۔ جب آر ٹی ایس بند کیا جا رہا تھا۔ جب جیتتے ہوئے امیدوار قمر جاوید باجوہ تک رسائی حاصل کرنے کے بعدہی جیت رہے تھے ورنہ ہار رہے تھے۔ جب عمران کو جعلی طور پر پاکستان کے چار حلقوں سے منتخب کروایا جا رہا تھا۔
جب ان تمام کے بعد پنجاب میں نواز لیگ جیت گئی تھی تو آزاد جیتنے والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح پی ٹی آئی کے ٹرک میں لادا جا رہا تھا تو اسوقت جمہوریت کیوں یاد نہیں آتی تھی اوراس کے بعد جب ایک صفحے کا راگ الاپا جا رہا تھا۔ سینیٹ کے انتخابات کو روندا جا رہا تھا تو کیا وہ سب کچھ حق تھا کیونکہ وہ آپ کے حق میں تھا؟ آج انہیں میرٹ یاد آ رہا ہے تو کیا پنجاب میں مسلط کیا گیا نمونہ عثمان بزدار اور خیبرپختونخوا میں محمود خان کی صورت عثمان بزدار پلس میرٹ تھے۔ کیا پنجاب میں فرح گوگی کے اختیارات میرٹ تھے؟
آج پی ٹی آئی کے دوستوں کوباربار اخلاقیات یاد آ رہی ہیں تو اس وقت اخلاقیات کہاں تھی جب ایک پوری نسل کو گالی گلوچ پر لگایا جا رہا تھا۔ جب اپوزیشن کے رہنماوں کو کئی کئی سو دنوں کے لئے جیلوں میں پھینک دیا جاتا تھا اور نیب کورٹ کے پاس ان کی ضمانت کا اختیار بھی نہیں ہوتا تھا۔ اپوزیشن لیڈر کو کینسر کا مریض ہونے کے باوجود بار بار گرفتار کیا جاتا تھا، انہی اپوزیشن رہنماؤں کی ماؤں، بہنوں اوربیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا تھا۔ جب اختلاف رائے رکھنے والے اینکروں کے پروگرام بند کروائے جاتے تھے، مالکان کو میسج بھجوا کے انہیں نوکریوں سے محروم کیا جاتا تھا۔
آج پی ٹی آئی کا سابق وزیراعظم کئی مہینوں سے ٹانگ پر جعلی پٹی باندھے عدالتوں میں پیش ہونے سے بھاگ رہا ہے۔ اس وقت کیوں خیال نہیں آتا تھا جب سابق وزیراعظم کئی کئی سو پیشیاں بھگتتا تھا۔ جب اس کے وزیروں کو ہتھکڑیاں لگا کے جیل کی گاڑیوں میں پھینکا جاتا تھا۔ جب اس کی بیٹی کو جیل میں اس سے ملاقات کرتے ہوئے گرفتار کر لیا جاتا تھا اور گرفتاری بھی اس مقدمے میں ہوتی تھی جو باقاعدہ درج بھی نہیں ہوا ہوتا تھا صرف شکایت اور تحقیق کے نام پر یہ سب سرکاری غنڈہ گردی کی جاتی تھی۔
آج رانا ثناءاللہ کی مونچھوں اورگفتگو پر اعتراض کرنے والے اپنے دور میں شہزاد اکبر جیسی منحوس صورت اور کردار کو مسلط کرتے تھے تو انہیں شرم نہیں آتی تھی۔ کیا اسی رانا ثناءاللہ پر ہیروئن کا مقدمہ اور پھر بدترین جیل اخلاقیات تھی۔ آج گرفتاری سے بچنے کے لئے زمان پارک میں عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کے بیٹھے ہوئے شخص کی اپنی اخلاقیات یہ تھی کہ وہ امریکاجا کے بھی یہی اعلان کرتا تھا کہ وہ جیل سے سابق وزیراعظم کی کوٹھڑی سے اے سی اتروادے گا۔
آج ناجائز اولاد ٹیریان کے ذکر پر آپے سے باہر ہونے والے اور اسے ذاتی معاملہ قرار دینے والے سابق وزیراعظم کی بستر مرگ پر پڑی محبوب اہلیہ کے ہسپتال پر جتھوں کی صورت میں حملے کرتے تھے جب مسجد نبوی میں نعرہ بازی کرائی گئی تھی تو کیا وہ سب اخلاقی تھا؟ پی ٹی آئی کے دوستوں سے کہنا ہے کہ آئین، جمہوریت اور اخلاقیات کی رٹ لگانا چھوڑیں۔ یہ بات وہ کرے جس نے کبھی ان پر ایک رتی برابر بھی عمل کیا ہو۔ کبھی کوئی شرم کی ہو، کبھی کسی کی حیا کی ہو۔