عدلیہ بمقابلہ پارلیمنٹ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزیراعظموں کو پھانسی پرچڑھانے والی، انہیں عہدوں سے ہٹانے والی، انہیں جیلوں میں ڈالنے والی اور مارشل لاوں کو جائزیت عطا کرنے والی عدلیہ ایک مرتبہ پھرآئین، کے نام پر اس پارلیمنٹ کے سامنے کھڑی ہے جو پارلیمنٹ آئین کی خالق ہے۔
دنیا بھر میں پارلیمنٹ آئین بناتی اور عدالت اس کی تشریح کرتی اور حکومت اس کانفاذ کرتی ہے مگر پاکستان دنیا کی انوکھی مثال ہے جس میں آئین کی تشریح کے نام پر اسے بدل دیا جاتا ہے اور اس پریہ خیال بھی نہیں رکھا جاتا کہ اعلیٰ عدلیہ کا ایک فیصلہ دوسرے فیصلے سے متصادم تو نہیں ہے جیسے حال ہی میں پنجاب میں حکومت حمزہ شہباز سے چوہدری پرویز الٰہی کو دلواتے ہوئے ارکان کی وفاداریوں اورووٹ کے استعمال کے حوالے سے فیصلے آئے۔
یہی اعلیٰ عدلیہ نواز شریف کو باہر رکھنے کے لئے پارٹی سربراہ کی اہمیت اور فضیلت پر صفحوں کے صفحے لکھ رہی تھی اسی عدلیہ نے قرار دیا کہ وہی پارٹی سربراہ اپنے ہی مقرر کردہ پارلیمانی لیڈر کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ہماری جوعدلیہ ایک منتخب وزیراعظم کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے کہ وہ انتخابات نوے روز سے آگے نہیں جانے دے گی وہی آمروں کوتین، تین برس دیتی رہی ہے، آئین میں ترمیم کرنے کا اختیاردیتی رہی ہے، وہ اختیار جو خود اس کے پاس بھی نہیں ہے۔
میں نے بہت سارے قانونی ماہرین سے پوچھا، ان میں وہ بھی شامل تھے جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں، ان سب کا کہنا تھا کہ سووموٹو اوربنچوں کی تشکیل کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی سو فیصد درست اور اہم ترین ضرورت ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ رائے دینے والے بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس دھڑے کے ساتھ ہیں جو عدلیہ کے ذریعے ایک ٹائم فریم کی تکمیل چاہتا ہے۔ وہ اگر مگر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون سازی کا وقت درست نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سووموٹو اور بنچوں کی تشکیل تو ایک طرف رہی، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی کے طریقہ کار کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ جتنا بھی جلد بدلا جائے یہ اتنا ہی درست ہوگا۔ میرے محدود مطالعے کے مطابق ماتحت عدالتوں میں ججوں کی بھرتی کا طریقہ کار زیادہ بہتر اور منطقی ہے اور رائے یہ ہے کہ ماتحت عدالتوں سے اعلیٰ عدالتوں میں تقرری کے لئے طریقہ کار وہی ہونا چاہئے جو فوج میں ترقی کا ہے۔ جیسے کمیشن لینے والے اپنی اہلیت اور کارکردگی پر کرنل اور بریگیڈئیر بنتے ہیں اسی طرح عدلیہ میں بھی ججوں کو ضلعی اور سیشن عدالتوں سے ہائیکورٹس میں جانا چاہئے اور جس طرح فوج میں لیفٹیننٹ جنرل بنتے ہیں اسی طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ میں جج جانے چاہئیں۔
میں پرزور سفارش کرتاہوں کہ ہائیکورٹس اور خاص طور پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کم از کم دوگنی ہونی چاہئے اور اس جدید دور میں ان کی طرف سے انصاف کی فراہمی جانچنے کے لئے کی پرفارمنس انڈیکیٹرز، کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانا چاہئے۔ جس طرح فوج میں سربراہ کی تقرری کے لئے تین کا پینل بنتا ہے اسی طرح عدلیہ میں بھی یہی طریقہ ہونا چاہئے کہ ہر مرتبہ ہر سینئر ہی سب سے بہتر نہیں ہوتا۔ اس سے کسی حد تک پارلیمنٹ یا منتخب وزیراعظم کی بالادستی بھی برقرار رہے گی۔
میں نے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں بہت سارے مقابلے دیکھے ہیں۔ وہ مقابلہ بھی، جسے یہ کہہ کے مشہور کیا جاتا ہے، کہ نواز شریف نے سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیا تھا اوراس کے نتیجے میں میرے لاہور کے تین مسلم لیگی دوست اختر رسول، میاں منیر اور طارق عزیز جیل بھی پہنچ گئے تھے۔
میں اس واقعے کو بیان کرنے سے پہلے اپنا اخد کیا ہوا نتیجہ پہلے بتا دیتا ہوں کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ کو ہر اس موقعے پر نیچے لگایا، اسے خاک چٹائی جب جب اس وقت کی فوج سے کھلی یا چھپی ہوئی حمایت حاصل تھی۔ سجاد علی شاہ نام کے چیف جسٹس نے بھی مہم جوئی کی تھی مگر ناکام رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ نواز شریف کی لائی ہوئی تیرہویں آئینی ترمیم ختم ہوجائے جس سے صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم ہوگیا تھا اوراس کے ساتھ ساتھ ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے قانون سخت کر دیا گیا تھا۔
سجاد علی شاہ آئین کے تحفظ کے نام پر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی نفی کے لئے کام کر رہے تھے جو ان کا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ چونکہ اس وقت پیچھے فوج کی طاقت نہیں تھی لہذا وہ اپنے ہی ساتھی ججوں کی بغاوت سے ناکام ہوئے تھے۔ آج ہم اس بہترین دور میں ہیں جب فوج کہتی ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے، غیر سیاسی ہے اور سیاسی رہنماوں کو اپنے معاملات خود طے کرنے ہوں گے۔
میں گمان رکھتا ہوں کہ اگر فوج یا عدلیہ غیر جانبدار رہیں تو سیاستدان اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اگر سیاسی حکمت اور فراست کی بات ہو تو عمران خان کسی طور پر بھی نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف اور دیگر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آج تنازع پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا ہے اور خود پی ٹی آئی والے مان رہے ہیں کہ ان سے قومی اسمبلی چھوڑنے اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے بلنڈرز، ہوئے ہیں۔
اس وقت لڑائی نہ آئین کی ہے نہ انتخابات کی۔ جناب عمران خان کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مذہبی اور قومی تقاضے بنا کے پیش کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کا بلنڈر ایک خاص مقصد کے لئے کیا ہے کیونکہ ان کی نظر قومی اسمبلی کے انتخابات اور اس کے ذریعے وزارت عظمی پر ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقعے پر پنجاب میں نگران کی بجائے ان کی اپنی جماعت کی حکومت ہو جس کے ذریعے وہ سیکرٹریوں، ڈپٹی کمشنروں اورتھانے داروں وغیر ہ کا استعمال کرکے پنجاب سے بھرپور کامیابی حاصل کر سکیں۔
خیبرپختونخواان کا قریب قریب کلئیر ہے لہذا وہ اور ان کے حلیف وہاں کے انتخابات کو دوسری ترجیح میں رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ستمبر کے مہینے میں دو اہم ترین عہدوں سے ان کے حلیف جانے سے پہلے پہلے پنجاب کسی بھی طرح فتح ہوجائے اوراگر کوئی انتخابات کے بعد بھی مسئلہ ہو تو اسے ستمبر میں رخصتی سے پہلے پہلے حل کر لیا جائے۔
اس وقت سپریم کورٹ عملی طور پر الیکشن کمیشن کو بے روح، بنا چکی ہے اور الیکشن شیڈول تک خود جاری کر رہی ہے۔ اس پورے کھیل میں ایک بات کھل کے سامنے آئی ہے کہ بہت سارے لوگ پارلیمنٹ کی نفی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کرتے ہوئے اس میں صرف فوج کو ہی مراد لیتے تھے مگر جمہوریت کی نفی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ صرف فوج کا نام نہیں ہے۔ فوج کئی اوقات میں پارلیمنٹ کے ساتھ بھی کھڑی ہوتی ہے۔
بہرحال یہ واضح ہوگیا ہے کہ اصل معاملہ انتخابات کا نہیں ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کی وہی لڑائی ہے جو عشروں سے جاری ہے اور اس وقت فرنٹ فٹ پر اعلیٰ عدلیہ ہے جس کی حلیف پی ٹی آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب فواد چوہدری نے انتہائی دیدہ دلیری سے ایک اور وزیراعظم کے توہین عدالت سے جانے کی دھمکی دے دی ہے مگر اس مرتبہ یہ سب خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔