مائنس تھری کا کھیل پھر شروع
سینیٹ انتخابات کے نتائج کسی بڑے کھیل کی تیاری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف عمران خان کی حکومت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، دوسری طرف اپوزیشن کے لیے بھی کامیابی کے دروازے پوری طرح نہیں کھل رہے ہیں۔ ایک ایسا منظر نامہ بن رہا ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی منجھدار میں پھنسے دکھائی دے رہے ہیں۔
ورنہ اس سے پہلے حکومت مضبوط اور اپوزیشن کمزور دکھائی دیتی رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کو اداروں کی نہ صرف مکمل سپورٹ حاصل رہی ہے بلکہ اپوزیشن روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم سینیٹ انتخابات نے منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ جب دونوں کمزور ہو رہے ہیں تو کیا ہوگا۔ کس گریٹ گیم کی صف بندی ہو رہی ہے؟ کیوں عمران خان کمزور ہوتے دکھائی دے رہے ہیں؟ اور مردہ اپوزیشن کا سانس کیسے بحال ہوگیا ہے؟ ایک طرف ہم نے دیکھا کہ حکومت اپوزیشن کے متعدد کامیاب جلسوں کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ لیکن دوسری طرف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سینیٹ کی ایک سیٹ کی شکست نے حکومت کو کمزور کر دیا۔ تا ہم یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل ضمنی انتخابات میں شکست پر شکست نے بھی حکومت کو کمزور کیا ہے۔
عوامی مقبولیت کا حکومتی بیانیہ بہت کمزور ہوا ہے۔ بالخصوص ڈسکہ کے انتخابی نتائج اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حکومتی موقف کو مسترد کرنے نے حکومت کو سیاسی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ نوشہرہ کی ہار نے بھی عمران خان کو پیغام دیا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ ضمنی انتخابات تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی کمزوری کا پیغام دے رہے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے حکومت کے لیے ضمنی انتخاب جیتنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جس طرح سینیٹ میں شو آف ہینڈ کے خلاف ڈٹ کر موقف لیا ہے، وہ بھی ایک پیغام ہی سمجھا جا رہا ہے۔ ایک رائے بن رہی ہے کہ وہ دن گئے جب حکومت سیاہ و سفید کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ شاید اب ایسا نہیں ہے۔ جس طرح الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان جواب الجواب کی فلم چلی ہے وہ بھی مستقبل کے منظر نامے کے کچھ اشارے دے رہی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ پیغام مل رہا ہے کہ اب کھیل الیکشن کمیشن سے شروع ہو کر الیکشن کمیشن پر ہی ختم ہوگا۔ اس لیے الیکشن کمیشن اگلی اننگز کی تیاری کر رہا ہے۔ ابھی تو صرف ٹریلر چلا ہے، فلم ابھی باقی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کے حوالے سے بہت ہی اہم کیسز زیر التوا ہیں۔ ان کیسز کے فیصلے مستقبل کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا جلد از جلد فیصلہ کرے۔ عمران خان نے اس کیس کے فیصلے کو رکوانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے متعدد حکم امتناعی حاصل کیے ہیں۔ تاہم ابھی تک وہ ایسا کوئی حکم نہیں حاصل کر سکے ہیں جس سے الیکشن کمیشن کو اس کیس کو سننے سے مکمل طور پر روکا جا سکے۔ اس لیے یہ کیس تمام تر تاخیر کے باوجود الیکشن کمیشن ابھی تک سن رہا ہے۔ اس کیس میں ابھی تک جتنی بھی محدود پیش رفت ہوئی ہے وہ حکومت اور بالخصوص عمران خان کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔
دوسری طرف عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن میں دائر کیا ہے۔ گو عمومی تاثر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف دائر ہونے والے فارن فنڈنگ کیس تحریک انصاف سے کم سنگین ہیں، لیکن قانون کی نظر میں چوری روپے کی اور لاکھ کی برابر ہی ہے۔ دونوں کی سزا یکساں ہو سکتی ہے۔
اس لیے ایک رائے یہ بھی ہے کہ مستقبل کے منظر نامے کو الیکشن کمیشن کے تناظر میں دیکھا جائے۔ ایک منظر تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو فارن فنڈنگ کے جرم میں سزا دے دے۔ اس طرح ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اور ان کے سربراہان نا اہل ہو جائیں گے، یہ وہ راستہ ہے جس میں بہت عرصے سے مائنس تھری کی جو بات کی جا رہی تھی اس کو عملی جامہ پہنایاجا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان نا اہل ہو سکتے ہیں۔ جب کہ پیپلزپارٹی کی طرف سے آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے نواز شریف ہی دوبارہ نا اہل ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جس کی ہم بہت عرصے سے بازگشت سن رہے ہیں۔ مائنس تھری تک پہنچنے کا یہ ایک آسان اور قابل عمل راستہ ہے۔
شائد کہیں نہ کہیں عمران خان کو صورتحال اور کھیل کا اندازہ ہے۔ اسی لیے وہ بار بار مڈٹرم انتخابات کی دھمکی دے رہے ہیں۔ تاہم ڈسکہ کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلوں نے مڈ ٹرم الیکشن کا آپشن روک دیا ہے۔ ڈسکہ کے انتخابات میں عمران خان کے لیے بہت واضح پیغام ہیں۔ پہلی بات انھیں اس بار وہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی جو انھیں گزشتہ انتخابات میں حاصل تھی۔ اس بار آر ٹی ایس کے بیٹھنے اور پولنگ اسٹیشن پر وہ ماحول بھی نہیں ہوگا جو گزشتہ انتخابات میں تھا۔ پھر یہ پرانے والا الیکشن کمیشن بھی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے بدلے بدلے رنگ عمران خان کو بہت سے پیغام دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے کہ اگر اس ماحول میں عمران خان مڈٹرم انتخابات کی طرف گئے تو تحریک انصاف کو پہلے سے بھی کم نشستیں ملیں گی۔
میاں نواز شریف پہلے ہی نا اہل ہیں، دوبارہ نااہلی سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آصف زرداری بھی اپنی اننگز مکمل کھیل چکے ہیں، اگر انھیں بھی نا اہل کر دیا جائے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ بلاول ان کی جگہ لے چکا ہے۔ البتہ عمران خان کی نا اہلی سے تحریک انصاف زوال کا شکار ہوجائے گی۔
تحریک انصاف کے پاس عمران خان کے بعدکوئی قابل اعتماد اور پاپولر سیاسی وارث نہیں ہے، جو سیاسی جماعت کو اقتدار تک پہنچا سکے۔ اس لیے مائنس تھری موجودہ صو رتحال میں شاید زرداری اور نواز شریف کے لیے کم خطرناک ہے جب کہ عمران خان کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا۔ ووٹ بینک کی بھی یہی صورتحال ہو گی باقی دونوں جماعتیں ان نا اہلیوں کے بعد بھی اپنا ووٹ بینک قائم رکھ سکیں گے، انھوں نے پہلے بھی یہ ثابت کیاہے جب کہ عمران خان کے لیے اپنی نا اہلی کے بعد اپنا ووٹ بینک قائم رکھنا مشکل ہوگا۔ تاہم مائنس تھری کی پاکستان میں بہت بازگشت رہی ہے اور آجکل پھر سنائی دے رہی ہے۔
اس سے پہلے بھی نا اہلی کے کھیل میں نواز شریف کے ساتھ عمران خان کو ناا ہل کرنے کا کھیل تیار تھا۔ لیکن پھر معاملہ رک گیا۔ حالانکہ اس وقت بھی ایک رائے یہی تھی کہ لڑتے لڑتے ہو جائے گی گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ تا ہم عمران خان بچ گئے اور جہانگیر ترین ناا ہل ہو گئے۔ تا ہم اب پھر اسٹیج تیار ہے اور شاید باقی دونوں جماعتیں بھی تیار ہیں۔ میرے چند دوستوں کی رائے ہے کہ شاید عمران خان نا اہلی کے بعد باہر بیٹھ کر نواز شریف اور زردادی کی طرح پارٹی نہ چلا سکیں۔ اس لیے اگر تینوں پارلیمنٹ سے باہر ہو جاتے ہیں تو اگلے انتخابات کے لیے کھیل بدل جائے گا۔ نئے کھلاڑی میدان میں آجائیں گے۔ مریم پہلے ہی نا اہل ہیں وہ نا اہل رہیں گی۔ بلاول ابھی تک محفوظ نظر آرہے ہیں، لیکن کب تک یہ سوال بھی اہم ہے۔