تو کیا ہوا؟
غلامیوں کے سیاہ بادل ایک دو سالوں میں نہیں چھٹتے بلکہ اس سے نجات پانے کے لیے برس ہا برس درکار ہوتے ہیں۔ بیکراں قربانیوں کے بعد کہیں جا کر آزادی کے سُورج کی سنہری کرنیں طلوع ہوتی ہیں۔ تو کیا ہوا؟ اگر ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی آزاد نہیں۔ جمہوریت کا حُسن یہ ہی ہے۔ تو کیا ہوا؟ اگر تاریخ، آئین اور عدلیہ سب نئی ساخت کے ساتھ متشکل ہورہی ہیں۔ توکیا ہوا؟ اگر پھر سے طاقت اپنا رُعب جما رہی ہے۔ ایسا تو قرنوں سے ہوتا آیا ہے۔ حقیقت اور افسانے میں فرق رہا ہی کہاں ہے۔ توکیا ہوا؟ اگر کہیں مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ ذرا دیکھیں تو لوگ کتنے خوش باش پھرتے ہیں۔ دیسی مرغے کی کڑاہیاں اور تکے کباب اُڑائے جاتے ہیں۔ بازار خریداروں سے اَٹے پڑے ہیں۔ تو کیا ہوا؟ اگر کھانے پینے کی اشیا پر بھی ٹیکس لاگو ہوچکا ہے۔ حالاں کہ کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس نہیں لیے جاتے۔ سب امن میں ہیں۔ تو کیا ہوا؟ اگر ملک میں بہت سے بچے سارا سارا دن کچرا چُنتے ہیں۔ خواہ مخواہ چند دل جلے اُن کے سکولوں میں نہ جانے کا پرچار کرتے ہیں۔ یہ تو ان کے ماں باپ کی ذمہ داری ہے جیسے تیسے کر کے انہیں پڑھائیں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری تھوڑا ہی ہے کہ وہ سکولوں میں ابتدائی تعلیم مفت دلائیں بھلے یہ آئین کا حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ تو کیا ہوا؟ اگر دیہاتوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا اہتمام نہیں ہے۔ یہ تو دیہاتیوں کو خود چاہیے کہ اپنے وسائل سے ورکشاپس کھولیں اور اپنی مدد آپ کے تحت غربت کی لکیر کو نیچے لانے کی کوششیں کریں۔ تو کیا ہوا؟ اگر ہر ہفتے چھ، آٹھ اور نو سال کی بچیوں کے جسموں کو بھنبھوڑا جاتا ہے اور پھر ان کی لاشوں تک کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کوئی سیاست دان، عالم، استاد، طبیب، سپاہی بولتے تک نہیں۔ تو کیا ہوا؟ یہ سب تو ہمارا وہم ہوسکتے ہیں۔ ہر شخص کو غم موافق اس کی طبیعت کے ہوتا ہے۔ ہم ہیں ہی اس قابل کہ ناخوشگوار واقعات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر سہتے رہیں۔ تو کیا ہوا؟ اگر سکولوں کے نصاب میں یہ ٹھیک سے یہ بتایا ہی نہیں جارہا کہ تاریخی طور پر درست کیا ہے اور کیا غلط۔ اب تک ہمیشہ سے بچوں کو وہی پڑھایا جاتا رہا ہے جس کا تعلق صاحبِ اقتدار کے تمغوں اور طاقت کی چھڑی سے ہے۔ ہمیں آٹھویں نویں جماعت ہی سے نظریہ¿ پاکستان رٹا رٹا کر اسے ہمارے اندر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم ہیں کہ پھر بھی اسے سیکھ نہیں پاتے۔ ہمارے حکمران تو اسی نظریے پر عمل کرتے ہیں۔ چلیے ذرا تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد ہی بدقسمتی سے بانی ¿پاکستان قائداعظم ؒ وفات پاگئے اور 1951 میں قائد ِ ملت لیاقت علی خان کو شہیدکر دیا گیا۔ اہل سیاسی قیادت کے بحران کی وجہ سے ملک صوبائی، لسانی اور معاشی نا اہلی کا شکار ہوگیا۔ آج بھی یہ ہی سلسلہ جاری ہے۔ تو کیا ہوا؟ اگر کبھی ہمیں یہ کہہ کر لُوٹا گیا کہ سول سروس میں زیادہ با اثر لوگوں کے دلوں میں اقتدار کی ہوس نے جنم لیا تو مارشل لا کا راستہ ہموار ہوگیا۔ تو کیا ہوا؟ اگر کبھی وزیر دفاع خواہ وہ فوجی تھے انہوں نے ہم پر برسوں حکومت کی۔ حق تھا ان کا کیونکہ وہ امورِ سیاست میں دلچسپی لینے کی وجہ سے ملکی سیاسی صورتحال سے آگاہ تھے۔ تو کیا ہوا؟ اگر BD یعنی بنیادی جمہوریتوں میں گاﺅں اور محلے کی سطح پر عوامی نمائندوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں اَسّی ہزار نمائندوں کو منتخب کیا گیا اور انہی نمائندوں نے اُس وقت کی موجودہ سرکار پر اعتماد کا اظہار کرنا تھا۔ 1965ءکے انتخابات میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو ملکی سطح پر بے انتہا مقبولیت اور محبت حاصل تھی۔ آپ انتخابات کے لیے میدان میں نکلیں تو ڈھاکہ سے کراچی تک آپ کا پُر جوش استقبال کیا گیا۔ عوام کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ مادرِ ملّت کے پنڈال میں پہنچنے سے پہلے ہی جلسہ گاہ میں عوام کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔ تو کیا ہوا؟ اگر 1965میں BD ممبران کی تعداد 80 سے بڑھا کر ایک لاکھ 20 ہزار کر دی گئی اور ان ارکان کو صدر، صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے انتخاب کے ذریعے انتخابی ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ انہی ارکان نے ایوب خان کو اکثریت سے صدر منتخب کرلیا اور محترمہ فاطمہ جناح جو ملّت کی ماں تھیں انہیں شکست ہوئی۔ پہلے تو مطالعہ¿ پاکستان کے نصاب میں یہ لائن لکھی ہوتی تھی کہ ایوب خان نے دھونس، دھن اور طاقت کے بل بوتے پر یہ الیکشن جیتا۔ لیکن اب تازہ نصاب میں یہ لائن حذف کر دی گئی ہے۔ تو کیا ہوا؟ اگر ہمیں سرکار کی مرضی کی چیزیں پڑھنا پڑتی ہیں۔ سرکاریں تو بنتی ہی حکم چلانے کے لیے ہیں۔ اس لمحے یہ لائنیں لکھتے ہوئے مجھے مجید امجد یاد آرہے ہیں۔ کیا عہد ساز اور درد مند دل رکھنے والے شاعر تھے۔ شاید یہ نظم جو میں یہاں حوالے کے لیے لکھ رہی ہوں اس دور کے ایوانوں میں کس طرح سے اس ملک کا جمہوری نظام رُل گیا تھا کے لیے لکھی گئی تھی ذرا پڑھیے: نظم کا عنوان ہے کہانی ایک ملک کی:
راج محل کے دروازے پر
آ کے رکی اک کار
پہلے نکلا بَھدا، بے ڈھب، بودا
میل کچیل کا تودا
حقہ تھامے اک میراسی،
پیچھے اس کا نائب، تمباکو بردار،
باہر رینگے اس کے بعد قطار، قطار
عنبر یار
نمبر دار
ساتھ سب ان کے دم چھلے
ایم ایل اے
راج محل کے اندر اک اک رتنا سن پر
کوڑھی جسم اور نوری جامے
روگی ذہن اور گردوں پیچ عمامے
جہل بھرے علامے
ماجھے، گامے،
بیٹھے ہیں اپنی مٹھی میں تھامے
ہم مظلوموں کی تقدیروں کے ہنگامے
جیبھ پہ شہد۔ اور جیب میں چاقو
نسل ہلاکو،
راج محل کے باہر، سوچ میں ڈوبے شہر اور گاﺅں
ہل کی انی، فولاد کے پنجے،
گھومتے پہیے، کڑیل باہیں،
کتنے لوگ کہ جن کی روحوں کو سندیسے بھجیں
سکھ کی سیجیں
لیکن جو ہر راحت کو ٹھکرائیں
آگ پئیں اور پھول کھلائیں
تو کیا ہوا؟ اگر یہ ملک آج بھی وہیں ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ اب تو کچھ یوں لگتا ہے کہ انتخابی میدانوں میں من چاہی کرسی حاصل کرنے کے لیے نعروں کی بھی دوقسمیں بن گئیں ہیں۔ ایک تو عوام کو ریوڑ سمجھتے ہوئے ان کے جذبات گرمانے کے لیے۔ دوسرا خریداروں کی قیمت لگا کر انہیں خریدنے کے لیے۔ عہد و عزم والے نعرے نہ تو کہیں موجود ہیں اور نہ ہی ان کا زمانہ ہے۔ عہد تو عمر بھر کے لیے اور نظریے کو پانے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ عہد صرف ایک بار قائداعظم ؒ نے اپنی قوم سے کیا اور پورا کر دکھایا۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح جنھوں نے اپنی زندگی کے پورے 28 سال اپنے بھائی کو سیاسی معاملات میں معاونت کرتے ہوئے لگا دی۔ وہ تحریکِ پاکستان کی ایک روشن ستارہ اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔ بد قسمتی سے جب وہ 1965 کا انتخاب ہار گئیں اور سیاست کے میدان میں زوال شروع ہوا تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کی بیشتر تقاریر پر پابندی لگا دی کیونکہ وہ بہت دبنگ اور صاف گو تھیں۔ بہر کیف انہوں نے نظریہ پاکستان اور اپنے بھائی کی زندگی کی کٹھن راہوں کے بارے میں آخری وقت تک لکھنا جاری رکھا۔ بنیادی جمہوریتوں کو انتخابی ادارے کی حیثیت دینا ہی ایک آمر کا زوال ثابت ہوئی۔ سیاست کے میدانوں میں طاقت کی چھڑی گھما کر اقتدار تو کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن حرام و حلال کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ طاقت کے سامنے جُھک جانا نظریہ نہیں کہلا سکتا بلکہ چاہت ضرور کہی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک امر عجیب ہے کیا ہم اپنے مذہب اور نظریے کی بھی پیروی نہیں کرسکتے یا یونہی غم زدہ ہی رہیں گے۔