Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Maryam Arshad
  3. Siyasi Giraftariyan

Siyasi Giraftariyan

سیاسی گرفتاریاں

میں چھج پتاسے ونڈاں

آج قیدی کر لیا ماہی نوں

شیخ رشید صاحب کی گرفتاری پر یہ دلفریب گانا رانا ثنا اللہ گنگنا رہے ہوں گے۔ لگتا ہے پوری PDM سیاسی گرفتاریوں پر شادیانے بجا رہی ہے۔ سیاست اب ہر گلی، دروازے اور گھر تک پہنچ چکی ہے۔ عام لوگ بھی اب بدلے کی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں۔ ساری سیاسی پارٹیاں مل کر ایک پارٹی کے خلاف ہوگئیں۔ اس طرح کے سیاسی انتشار سے ملک میں صرف نا ممکنات جیسی صورت حال پیدا ہوتی ہے حل دکھائی نہیں دیتا۔

چند روز پہلے فواد چوہدری کو ان کے بیان پر گرفتار کیا گیا۔ پھر صحافی عمران ریاض مگر دو چار دن بعد ہی چھوڑ دیا گیا۔ پھر عمران خاں کا بیان آ گیا کہ میرے قتل کا دوسرا منصوبہ پایئہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دہشت گردوں کو پیسہ دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس کا الزام بھی عائد کر دیا تھا۔ یہی بات شیخ رشید صاحب نے بھی ایک نجی ٹی۔ وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہی تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

شیخ رشید وہ سینئر قابلِ احترام شہری ہیں جو متعدد بار وزیر رہ چکے ہیں۔ شیخ صاحب عوامی نمائندہ ہیں اور اپنی محنت کے بل بوتے پر یہ مقام حاصل کیا۔ شیخ رشید صاحب کو پیشی کے لیے بلوایا گیا تو انہیں دھکا لگنے پر وہ کسی پولیس اہلکار کے سینے سے جا ٹکرائے کیونکہ انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ اگر ان کے ہاتھ کھلے ہوتے وہ یقینا خود کو سنبھال لیتے۔ شیخ صاحب پر الزام لگایا گیا کہ وہ شراب کے نشے میں تھے۔ انہوں نے کلمے کی قسم اٹھا کر کہا جب سے میں پیدا ہوا ہوں، میں نے کبھی نشہ نہیں کیا۔ کبھی شراب نہیں پی۔

شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے میں پنڈی میں رہتا ہو اور یہ ایس۔ ایچ۔ اَو اسلام آباد کا ہے۔ سب سے پہلے تو عوام کے چْنیدہ نمائندے کو یوں ہتھکڑی لگانا قانون کے منافی ہے۔ دوسرے شیخ رشید احمد نے بذات خود تو یہ بیان نہیں دیا۔ شیخ رشید صاحب پر جعلی شراب اور اسلحے کے الزامات ڈال دیے گئے۔ یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی والا معاملہ ہے۔ شیخ رشید صاحب ایک سینئر پارلیمینٹرین ہیں اور کئی دفعہ ایم این اے رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک نہایت قابل مذمت ہیں۔

ایک 73 برس کے بزرگ پارلیمینٹرین کو ساری رات کرسی پر بٹھائے رکھا۔ تھانہ مری میں بھی ان کے خلاف درخواست دی گئی ہے۔ ماضی میں شیخ رشید صاحب اتنی دفعہ جیل جا چکے ہیں کہ وہ ہتھکڑی کو اپنا زیور موت کو اپنی محبوبہ اور جیل کو اپنا سسرال کہتے ہیں۔ دوسری طرف انٹیرئیر منسٹر رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ شیخ رشید کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے ہم نے کوئی 15 کلو ہیروئن تو نہیں ڈالی۔

سیاسی مسخرہ اس کیس کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ صرف قانون پر عمل ہوا ہے۔ پسلیاں تو نہیں توڑیں۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ عمران نیازی نے اپنے دور میں سچ بولنے والے صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا ان کے اوپر جھوٹے مقدمے بنوائے۔ گزشتہ چار سال کے دور میں بہت زیادتیاں کی گئیں۔ یہ ہر اس ادارے کو گالیاں دیتے ہیں جو ان سے جواب مانگے۔ کہا جاتا ہے اداروں کی ساکھ کو بد نام کیا جاتا رہا۔

حضور! اداروں کی اپنی ساکھ اداروں کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ہی بنتی ہے۔ اداروں کا کام اپنی ذمہ داریاں ایمان داری سے نبھا نا ہے۔ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کوئی خاص قسم کی تفتیش نہیں کی جا رہی بس مجھ سے میری وفاداریاں تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔ مگر میں مر تو جاؤں گا اپنی وفاداریاں ہر گز تبدیل نہیں کروں گا۔ الیکشن لڑنے سے متعلق بھی شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہی انتخابات لڑیں گے۔

شیخ رشید کو سیشن کورٹ سے بھی ریلیف نہیں مل سکا۔ ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ دوسری طرف شیخ صاحب بہت اچھے سپرٹ میں نظر آ رہے ہیں۔ گھبراہٹ کی کوئی جھلک ان کے چہرے پر نہیں۔ شیخ رشید احمد اگر کبھی کسی کو للکارتے ہیں تواس طرح ان کے حریف بھی انہیں للکارتے ہیں۔ کیا اگر غریب عوام کے حق میں کوئی سیاست دان بات کرے توسیاسی گرفتاریوں میں ہتکھڑیاں لگانا بنتا ہے۔

قانونی نقطِ نظر سے فواد چوہدری اور شیخ رشید کو ان کے بیانات پر یوں گرفتار کرنا منہ پر کپڑا ڈالنا وغیرہ وغیرہ کسی طور درست نہیں۔ قانون کے مطابق گرفتاریاں بھی تعظیم کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ عام مقدمات اور فوجداری مقدمات میں لوگوں کو اس سلسلے میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر مقدمات درج کروانے کے بعد پولیس کو کہا جاتا ہے جاؤ اس کو بے عزت کرو اور پکڑ دھکڑ کر لو۔ اس سلسلے میں ماضی کے حوالے دیے جاتے ہیں لیکن آج کا دور اور سیاست میں اسے قابلِ مذمت سمجھا جاتا ہے۔

اس سلسلے کو ہر صورت بند ہونا چاہئیے۔ اس کے ردِّ عمل میں عمران خاں صاحب نے جیل بھرو تحریک کاعندیہ دیا اور اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ تیار ہو جائیں ہم اتنے لوگ جیلوں میں جائیں گے کہ حکومت کی خواہش پوری ہو جائے۔ کسی بھی ملک میں کوئی نظام بھی اس وقت تک فروغ نہیں پا سکتا جب تک وہاں امن قائم نہ ہو۔ سیاسی تنازعات اور مخالفتیں آئین کے مطابق حل ہو سکتی ہیں۔

پارلیمنٹ کا ہال کسی بھی قومی مکالمے کے لیے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔ جب جمہوری طریقوں کی بجائے غیر جمہوری ہتھکنڈے اپنائے جائیں گے تو حالات جو پہلے ہی مشکل ہیں ان میں سدھار آنے کے امکانات نہیں ہوں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے سیاسست دان صرف اپنی ذاتی انا اور پارٹی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیاسی گرفتاریوں اور بدلے کی سیاست کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دینے پر ہی جمہوری سیاست کی عمارت کھڑی ہونی چاہیئے۔

حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کی راہیں کھوٹی کرنے کے غیر جمہوری طریقوں کے بجائے جمہوری راستوں کو اپنانا چاہیئے۔ ذاتی عناد اور دشمنی کو چھوڑ کر اس پاک سر زمین کے مفادات کی سیاست کرنے میں آخر کیا قباحت ہے؟

Check Also

Alfaz Ki Taqat

By Adeel Ilyas