مینارِ پاکستان
آج کا دن پاکستان میں ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہا ہے۔ 23 مارچ 1940کادن! قرارداد پاکستان سے لے کر مینار پاکستان تک تو ہم اپنا آدھا ملک گنوا چکے ہیں اور اب آدھا باقی ہے۔ ہمیں آدھا پاکستان گنوانے کے بعد خیال آیا کہ ملک کو آئین دینا چاہیے۔
آئین باہمی رضامندی سے ہی وجود میں آتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو پائیدار آئین کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ 1956 میں پاکستان کا پہلاون یونٹ آئین بنا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے برعکس بلکہ اس ایکٹ کے خلاف۔ یہ آئین سے انحرافی تھی اور اس ملک کی پھر یہی منزل رہی۔ ابوالکلام آزاد کے غبارِ خاطر میں سمائی ہوئی میرے ہاتھوں کی لکیریں، فیضؔ کے آخری شب کے ہمسفر کی کتھا ہو جیسے۔ ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، اب جالبؔ کا لاہور نہیں مانتا۔
حیرت ہوئی مجھے یہ جان کر کہ ن۔ م۔ راشد کی پیدائش بھی گجرانوالہ کی ہے۔ اگر تمام بڑے شعراء کی پیدائش پنجاب میں ہوئی ہے تو پھر کراچی میں کون پیدا ہوا تھا؟ کراچی میں پیدا ہوئے تھے جناح، کراچی میں رہتی تھیں ان کی بہن فاطمہ جناح جو تاریک راہوں پر ماری گئیں۔ کراچی میں رہتے تھے تھے ہمارے حسن ناصر، اعتزاز نذیر، امام علی نازش، راولپنڈی سازش کیس کے سجاد ظہیر۔ اعزاز نذیر جب بھی روپوش ہوتے تھے ان کا رخ نوابشاہ میں میرے گھر کی طرف ہوتا تھا۔
اسی طرح سو بھو گیان چندانی بھی۔ جب میرے والد انتقال کر گئے تو امام علی نازش نے ایک نظم چند سطروں کی میرے والد پر لکھی تھی جو مساوات اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ یہ تمام لوگ میرے گھر میں مہمان رہے۔ میاں افتخار، بھاشانی، مولانا حسرت موہانی، شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، اچکزئی، بزنجو، شیرباز مزاری یہ وہ تمام لوگ تھے جنھوں نے جدو جہد کی جمہوریت و مساوات کے لیے، ایسے پاکستان کے لیے جو بنا تھا 23 مارچ 1940 کی قرارداد میں۔
23 مارچ 1940، جب جی ایم سید اجلاس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو شہید اللہ بخش سومرو جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی تھے انھوں نے منع کیا کہ آپ اجلاس میں شرکت نہ کریں۔ انھوں نے جی ایم سید سے یہ کہا کہ تم جو پاکستان بنانے جا رہے ہو اس ملک میں بالادستی پنجاب کی ہو گی۔ لوگوں کو سبز باغ دکھائے گئے ہیں۔ بالآخر جی ایم سید نے شہید اللہ بخش سومرو کی اس بات کو تسلیم کیا اور اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ان کی قبر پر جا روئے اور کہا کہ اللہ بخش سومرو آپ اپنی اس بات میں بالکل صحیح ثابت ہوئے۔
مگر دیکھا جائے تو آج شہید اللہ بخش سومرو بھی اپنی اس بات میں درست ثابت نہ ہو پائے۔ کسے پتا تھا کہ آج جمہوریت و آئین کی بالادستی کی اس جدوجہد میں و ہی پنجاب اور شاید و ہی مسلم لیگ آگے آگے ہو گی۔ یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں کیونکہ آج سے پہلے ہمیشہ پنجاب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا رہا اور میرا سندھی رہبر بھٹو بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا تھا جب ہم نے بنگالیوں کو ملک بدر کیا۔
شیخ حسینہ جب اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے یہاں آئیں تھیں تو یہاں ان کی پہلی ملاقات یوسف ہارون کے ساتھ تھی اور دوسری ملاقات بینظیر بھٹو کے ساتھ تھی، ان ملاقاتوں کے سلسلے میں ان کی تیسری ملاقات مجھ سے اور میری اہلیہ سے تھی۔ میری بیوی کا تعلق اتر پردیش سے ہے اور ماں کی طرف سے وہ بہار سے تعلق رکھتی ہیں۔
میں نے شیخ حسینہ سے یہ سوال کیا کہ آپ وہاں کے مقید بہاریوں کو مکمل شہریت کیوں نہیں دیتیں؟ وہ کہنے لگیں کہ آج جب وہ پاکستان کے لیے روانہ ہو رہی تھیں تو ڈھاکا میں بسنے والے بہاری راستوں پر کھڑے تھے اور مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں پاکستان آکر یہاں کی حکومت سے یہ بات کروں کہ وہاں کے بہاری پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر شاید پاکستان میں بنگلہ دیش کے سفیر ہنسے اور بولے کہ ووٹ تو سندھیوں نے بھی بھٹو کو دیا تھا یعنی ہم بھی اس گناہ میں شریک ہیں جو بھٹو نے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جب ایم آر ڈی تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت پورا سندھ بینظیر بھٹو کے ساتھ بالکل ایسے ہی چل پڑا تھا جیسے آج پنجاب مریم نواز کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ وہ ہی لاہور ہے جس نے 10 اپریل 1986 کے دن بینظیر بھٹو کا وہ تاریخی استقبال کیا جو آج تک کسی اور کا نہ ہو سکا۔
1988 کے دور میں بینظیر ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھریں۔ اس نے سندھ میں پیر پگارا تک کو شکست دی، غلام مصطفی جتوئی کو ہرایا۔ ان کی پارٹی کے خورشید شاہ جیسے لیڈر بھی سامنے آئے۔ مگر پھر زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی میں آمد نے اس پارٹی کے جیالے پن کو روند ڈالا، اب پیپلز پارٹی صرف وڈیروں کی پارٹی ہے اور باقی سندھ کے نوجوان اب بھی جی ایم سید کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ بلاول بھٹو گلگت کے نوجوانوں کے لیڈر ہوں گے، مگر سندھ کے نوجوان بلاول بھٹو کے پیچھے اس طرح نہیں جس طرح آج پنجاب کا جوان مریم نواز کے پیچھے کھڑا ہے۔ آج مریم نواز اپنے والد سے بھی بڑی لیڈر بن چکی ہیں۔
13 دسمبر 2020 کو مینارِ پاکستان میں کتنا ہی پانی کیوں نہ ہو مگر لاہور کو پانی میں ڈبویا نہیں جا سکتا۔ جو سلسلہ اکتوبر کے مہینے میں گجرانوالہ سے شروع ہوا تھا وہ اپنی پہلی انگڑائی لاہور میں ضرور لے گا اور اسطرح آئین کی با لادستی کی یہ تحریک اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو گی۔
یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ 22 کروڑ عوام میں سے ایک ایک گروہ کو پارٹی بنایا گیا اور حکومت ان کے حوالے کر دی گئی، صرف اس لیے کہ وہ سوال نہیں کرتے۔ اب کراچی کا کوئی بھی حقیقی وارث ہی نہ رہا۔ ایک طرف کورونا ہے، دوسری طرف حکومت، تیسری طرف گیس کا شدید بحران پنجاب کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
لاہور آج کے دن یہ حقیقت سامنے لے آئے گا کہ یہ ملک کیا اس حقیقی جمہوریت کی طرف جا پاتا ہے کہ نہیں؟ مگر جاتے جاتے حاصل بزنجو کے ساتھ ایک یاد تازہ کرتا چلوں۔ حاصل بزنجو کو مجھے سیاست میں لانے کا بڑا اشتیاق تھا۔ پہلے اپنی پارٹی کا سندھ کا صوبائی صدر بنانے کا سوچا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ یہ میرا Cup of tea نہیں ہے، پھر جب وہ وفاقی وزیر تھے تو مجھے بڑی سنجیدگی سے یہ کہا کہ اب چلو اور مریم نواز کو اپنا لیڈر مان لو اور یقین کرو کہ وہ تمہاری سوچوں کے قریب ہے اور وہ کلاسیکل مسلم لیگ کے بیانیہ کو تبدیل کرے گی۔
پاکستان میں بینظیر بھٹو کے بعد اب مریم نواز پاپولر لیڈر کے طور پر ابھر رہی ہیں مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔