حویلی
کچھ دن پہلے پیرجوگوٹھ، ضلع خیرپورکے گردونواح میں مونیکا نامی سات سالہ بچی کی لاش، کھجورکے باغ میں ملی۔ یہ بات پوسٹ مارٹم سے سامنے آئی کہ بچی کو قتل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی ہے۔
ایک غریب مزدورکی بیٹی تھی مونیکا۔ مونیکا کا جنم ایک ایسے خاندان میں ہوا جو بھوک و افلاس کا مارا ہوا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس کی کچھ تصاویر شایع ہوئیں، بڑی پیاری بچی تھی۔ مونیکا کی ماں کا یہ کہنا ہے کہ اس خاندان کی بھوک مونیکا سے دیکھی نہ جاتی تھی اور اس چھوٹی سی عمر میں ہی اس نے گائوں کے ایک خاندان کی حویلی میں کام کرنا شروع کیا۔
اس بچی کی کل تنخواہ تین سو روپے ماہانہ تھی، روزانہ کھانے کے لیے تین روٹیاں بھی ملتی تھیں۔ شام ڈھلے جب گھر لوٹتی توکبھی کبھار حویلی سے بچا ہوا کھانا بھی ہمارے لیے لاتی تھی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی ماں سے یہ شکایت کر رہی تھی کہ ایک آدمی موٹر سائیکل پر بیٹھے اس کوگھورتا ہے اور اس آدمی سے اس کو بہت ڈر لگتا ہے۔
مو نیکا کے اس ہولناک قتل نے پورے سندھ کو ہلا کر رکھ دیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا، سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک۔ مگر یہ واقعہ ایک نہیں ایسے کئی واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، اگر یہ واقعات قتل تک نہ پہنچیں تو ہمارے سندھ میں سیکڑوں بچے اور بچیاں ہیں جو ایسی حویلیوں میں کام کرتے ہیں اور ہم اس بات کو بہت عام سمجھتے ہیں۔ جہاں مونیکا کام کرتی تھی، انھوں نے بڑے دکھ کا اظہارکیا ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ ہمارے آئی جی پولیس مہرصاحب بھی مونیکا کی تعزیت کے لیے ان کے گھرگئے تھے۔ تفتیش کے دائرے میں لگ بھگ تین سو لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوئے۔ اس تفتیش میں حویلی کے کچھ لوگوں کو بھی شامل کیا گیا، پولیس قاتل تک بھی پہنچ چکی ہے۔
یہ تفتیش، پولیس اورکچہریاں تو سب چلتا رہے گا، لیکن میری سوچ اس بھیانک رات پر ٹھہرگئی، جس رات اس معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ ان قاتلوں نے اب اعتراف کیا ہے کہ وہ تین لوگ تھے جنھوں نے مونیکا کے ساتھ اس رات زیادتی کی۔ اسی اثناء میں مونیکا کی موت ہوگئی اور پھرکھجورکے باغ میں ان قاتلوں نے مونیکا کی لاش کو پھینک دیا۔ ایک سات سالہ مزدورکی بیٹی، بھوک وافلاس کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی بچی جس نے کبھی گڑیا نہ دیکھی تھی، نہ کبھی کھیل کھیلے ہونگے، نہ ہی کبھی اسکول کی شکل دیکھی ہوگی۔
صبح سویرے کام کے لیے حویلی کی طرف چل پڑی ہوگی۔ کام نمٹاتے نمٹاتے تھک ہارکرگھرکو واپس جاتی ہوگی اور پھرگہری نیند میں سوجاتی ہوگی۔ اس کو اتوارکی چھٹی بھی میسر نہ ہوگی۔ اس کے پاس توگھرکا بھی کوئی تصور نہ ہوگا، گھر بھی زنداں تو حویلی بھی زنداں۔ بس اس کے خواب تھے جس کی کوئی تعبیر نہ تھی، ریزہ ریزہ سے بکھرے بکھرے ہوئے۔ مونیکا مجھے پوری کائنات جیسی دکھنے لگی۔ اس کی دو آنکھیں تھیں، سانس لیتی ہوئی، سوچتی ہوئی، خواب دیکھتی ہوئی بس وہ مونیکا!
جو ایک ظلمت کی رسم چلی ہے اس سماج میں، ایک مزدورکی بیٹی بلآخر اس کے سامنے ہارگئی۔ اس کی لاش جیسے کسی میدانِ جنگ سے ملی ہو اور مونیکا سندھ میں جیسے ان بیٹیوں کی سالار تھی۔ بلاول بھٹو کا یہ سندھ وڈیروں اور پیروں کی غلامی میں ابھی تک جکڑا ہوا ہے۔ پچاس سال ہوچکے سندھ کے لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں اور جب یہ نہیں آئے اقتدار میں تو جو آمریت اقتدار میں آئی، ان کے ساتھ بھی یہی شرفاء تھے۔ ہاں مگر وڈیروں اور گدی نشین پیروں کی حویلیاں دونوں ہی ادوار میں اپنی شان و شوکت کے ساتھ زندہ وجاوید ہیں۔ ان حویلیوں کی90 فیصد خدمت گذار اور خادمائیں مونیکا جیسی کمسن بچیاں ہوتی ہیں۔ میں بھی اسی ماحول کا ایک عکس ہوں۔
اس سندھ میں کوئی برلا اور ٹاٹا پیدا نہیں ہوسکتا جو سر پلس بنائے۔ اس کی بھی پھر ایک حویلی ہوگی، یہ بلیک ہول، اب سندھ میں بہت پختہ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جو ماضی میں کوئٹہ میں تقریرکرتے ہوئے کہتے تھے کہ میں نے آج اس ڈاکیومنٹ کے ذریعے سرداری نظام کو ختم کردیا ہے اور آج اسی پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کو سردار بنایا جاتا ہے۔ اس سرزمین کی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زمینی خدائوں کی عزت، دبدبہ اور شان وشوکت دیکھ کرایسا بھی ہوا کہ جس نے سرپلس کمایا، اس نے اپنی ذات بھی تبدیل کی۔
وہ کہانی جو چیخوف نے لکھی تھی، میں نے کئی سال پہلے پڑھی تھی، وہ یہ تھی کہ ایک چھوٹی بچی، مونیکا کی عمرکی، ایک رئیس زادے کے پاس کام کرتی تھی۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ اس رئیس زادے کے بچے کو جھولا جھلاتی تھی اور وہ جھلاتی ہی رہتی تھی تا وقت کہ اس کو نیند نہ آجائے۔ ایک دن وہ بچہ سونے کے لیے تیار ہی نہ تھا اور وہ کمسن بچی دھیرے دھیرے اس نتیجے پر پہنچی کہ اس کے قرب کی وجہ ہی یہ بچہ ہے لہٰذا اس بچی نے اس رئیس زادے کے بچے کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔ یہیں چیخوف نے اپنی کہانی کو ختم کیا۔
سندھ میں، میں نے کتنی ہی مونیکا جیسی معصوم بچیوں کو کاروکاری کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ آج سے بیس سال پہلے ایسی ہی ایک معصوم لڑکی شمشاد شرکے قتل نے مجھے جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ میں کراچی سے اس کے گائوں جا پہنچا۔ ایک لڑکی جس کا نکاح ایک پچاس سالہ آدمی کے ساتھ کرادیا جاتا ہے اور پھر کاری کرکے مار دیا جاتا ہے۔
کاروکاری کی سزا کے تحت، قبیلے کے فیصلے کے مطابق پھر اسی کی چھ سالہ بہن بھی اسی شخص کے حوالے کردی جاتی ہے کہ بالغ ہونے پر اس کا نکاح اس پچاس سالہ آدمی کے بیٹے کے ساتھ کردیا جائے گا۔ جب میں ان کے گھرگیا اور شمشاد شرکی اس چھوٹی سی بہن کو اپنی گود میں اٹھایا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس شخص نے میری بہن کو چارپائی سے باندھ کر اس کے سامنے مار ڈالا۔ میں شمشاد شرکی قبر پر بھی گیا تھا۔ میری آنکھ سے آنسو نہیں تھم رہے تھے، اس وقت ایک بے بسی کا احساس تھا کہ میں ان مظلوموں کے لیے کیا کر سکتا ہوں اور کیا کروں!
جب شائستہ عالمانی کو قبیلے والے کاری کرکے مارنے لگے تھے تو میں نے اردشیرکائوس جی سے رابطہ کیا اور ہم دونوں اسی رات آئی جی سندھ کمال شاہ کے دروازے کے باہرکھڑے تھے۔ اردشیرکائوس جی نے تو اپنے اس ہفتہ وار کالم کی شروعات ہی میرے نام سے کی۔
ہمارا سندھ اب بھی غلامی کے طوق میں جکڑا ہوا ہے، جہاں سے چارلس نیپیئر نے اس کو فتح کیا تھا۔ وہی پیری مریدی، گدی نشین، قبیلے اور وہی حویلیاں ہیں۔ نہ جانے اور کتنی مونیکائیں ایسے ہی ماری جائیں گی کہ جب تک کی اس مٹی کے بیٹے جاگیں گے، مگر جاگیں گے کب کچھ نہیں پتا۔ مگر آج میرا دل غمگین ہے مو نیکا کے لیے، اس سیاہ رات کی سیاہی کو سوچ کر بس اپنی آنکھیں بندکرلیتا ہوں کہ اگرمیری بھی کوئی بیٹی اورمیں محسوس کرسکتا، ان بیٹیوں والوں کے غم کو اور میں بھی ایک مزدورہوتا، دہقان ہوتا اوراپنی عمر ان بیٹیوں کے نام کرتا۔
آج کے نام …
اور
آج کے غم کے نام…
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مِرا دیس ہے
بادشاہِ جہاں ولی ماسواء،
نائب اللہ فی الارض
دہقان کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم
ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے