گرفتاری تو دینی ہوگی
سیاست اگر کرنی ہے تو گرفتار ہونا ہوگا، آئین کی بالادستی کی جنگ ہو، وفاق کی جنگ یا پھرسول بالادستی کی جنگ۔ اس راہ پر جو سب پہ گذرتی ہے وہ آپ پر بھی گذرے گی۔ فیض کی زبان میں "تنہا پسند زنداں کبھی رسوا سر بازار" یوں بھی ہوتا ہے کہ فاطمہ جناح کی طرح آپ کے دامن پربھی غداری کے رفو ہوں۔ اس ملک میں جو کچھ سیاستدانوں کے حصے میں آیا، اس کا علم ہم سب کو ہے۔
تہمتوں کی طویل فہرست ہے، نیب کیسز کے انبار ہیں۔ پچھلے زمانوں میں جو سازش کیس ہوا کرتے تھے، وہ تھے راولپنڈی سازش کیس، حیدرآباد سازش کیس اور ایک جام ساقی سازش کیس۔ کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ ان سیاستدانوں کی عمریں جیلوں میں گذر گئیں۔ جلاوطنی نصیب میں آئی اور کچھ سیاستدان ایسے بھی تھے جو دار کی خشک ٹھنی پے وارے گئے۔ ہم نے مخصوص بیانیہ ترتیب دیا اور پھر کیا ہوا اس بیانیہ سے ہم اب جان چھڑانا بھی چاہیں تو چھڑا نہیں سکتے۔
جنرل ضیاالحق نے طلبہ تنظیموں پرپابندی لگائی۔ اس کے بعد تین مرتبہ نواز شریف اور تین مرتبہ پیپلز پارٹی کے ادوار آئے مگر یہ پابندی ابھی تک ختم نہ ہو سکی۔ ہم معاشی اور سماجی اعتبار سے یا اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے ابھی تک وہیں کھڑے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ پھر سے جیلیں بھر جائیں گی، کیونکہ اب سیاست پھر اسی موڑ پر آکے رکی ہے جہاں سے اک سفر ہم شروع کر کے چلے تھے اور یہاں تک پہنچے تھے۔ سیاست کو پھر اسی موڑ کا سامنا ہے۔
گرفتاریاں کیا ہوتی ہیں، جلاوطنی کیا ہوتی ہے۔ میں خود ایک ایسی ماں کا بیٹا ہوں جس نے اپنے شوہر کے پابند سلاسل ہونے کی بڑی قیمت ادا کی۔ اپنی زندگی کے آخری دو سال تو تقریبا نابینا ہو کر بسر کیے۔ پیشے کے اعتبار سے والد وکیل تھے۔ شاید سندھ میں حیدر بخش جتوئی کے بعد میرے والد کا دوسرا بڑا نام ہو، دہقانوں کی تحریک اور جدوجہد میں۔
وہ ہاری الاٹی تحریک کے روح رواں تھے۔ آدھی بئٹی تحریک ہو، ہاری حقدار تحریک، ون یونٹ کے خلاف تحریک، بنگالیوں کے ساتھ تاوقت آخرکھڑے رہے، آمریتوں کے خلاف تحریک ہو یا پھرصوبائی خودمختاری کی وہ ان تمام تحریکوں کی جہدوجہد کا حصہ بنے۔ اسکول سے جب گھر واپس لوٹتا تھا تو ایک فکر سی ہو تی تھی کہ خدا کرے گھر میں سب خیریت ہو۔ جب وہ جلاوطن ہوئے تو ان کا پہلے کچھ مہینوں تک پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں، وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔
روز اسکول سے آ تے وقت اسی امید پر لوٹتا تھا کہ شاید آج والد گھر میں ہونگے، مگر ہمیشہ کی طرح مایوسی ہوتی اورکبھی کبھی تو میں اور میری اماں ساتھ رونے بیٹھ جاتے تھے۔ جی ایم سید اپنی کتاب "جنم گذاریں جن کے ساتھ" میں میرے والد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب ایوب نے ایبڈو لگایااور سیاست پر پابندی لگائی تو قاضی صاحب نے ٹک کر وکالت کی اور ایک سال کی کمائی سے شاندار بنگلا تعمیر کروایا کہ ان کی بیوی کہتی ہیں کہ" خدا کرے یہ ایبڈو اب لگا رہے کہ یہ وکالت ہی کریں۔"
جلاوطنی ہوئی تودو سال بیت گئے۔ جب مشرقی پاکستان چلے جاتے تو مہینوں، مہینوں وہیں کے ہوجاتے۔ ان کا جیل جانا جیسے ہمارے گھر کا حصہ تھا اور پھر ایم آر ڈی کی تحریک سے ایک سال پہلے اوروالدکے انتقال کے بعد جب میری عمر سولہ سال ہوئی تو مجھے والد کی سیاست سے رومانس ہوگیا۔ میں ان کے لکھے ناولوں اور تحریروں میں الجھ سا گیا، لینن، مارکس، ڈیموکریسی وغیرہ۔ میری والدہ کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سب بہن بھائی پرندوں کی طرح اس گھونسلے سے اڑ چکے تھے۔ بس میں اور میری چھوٹی بہن اماں کے ساتھ رہتے تھے اور اماں یہ گھر چھوڑ کر کہیں جانے کو تیار بھی نہ تھیں۔ اسے اپنے گھر کا آنگن اچھا لگتا تھا۔
اماں کو بس یہ فکر رہتی تھی کہ کہیں میں بھی اپنے والد کی راہ پر نہ چل پڑوں۔ اسی اثناء میں ایم آر ڈی کی تحریک چل پڑی، سب لوگ اس تحریک سے جڑ گئے۔ میں بھی کبھی اس گائوں تو کبھی اس گاؤں۔ جب کامریڈ لوگوں نے مجھے سنجیدہ پایا تو ذمے داریاں سونپنے لگے۔ نوابشاہ میں لکھنو کے کمیونسٹ رشید احمد بھی رہتے تھے، میرے والد کے ساتھ وہ بھی تحریک میں تھے اور ہمارے استاد بھی تھے۔
تمام لوگ انھیں استاد کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک سیاسی کارکن کے لیے جیل خود ایک بہت بڑی ٰ درسگاہ ہے جو جیل نہ گیا وہ پک کر کندن نہ بنا۔ مجھے ہمیشہ یہ فکرر ہتی تھی کہ اگر میں جیل چلا گیا تو میری والدہ بے چاری توچل بسیں گی، یہ غم ان سے برداشت نہ ہوگا۔ وہ میرے ساتھ اس لیے رہتی تھیں کہ میرے اوپر احساس ذمے داری رہے۔
جب میں نے جام ساقی کی رہائی کے لیے ایک بہت بڑا جلسہ آرگنائز کیا اور جلسے کے اختتام کے بعد واپسی پر کچھ پولیس والوں نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی کیونکہ بہت سے کارکن گرفتار ہورہے تھے تو میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں آگے آگے اور پولیس میرے پیچھے۔ مجھے یہ احساس تھا کہ اگر میں گرفتار ہوا تو یہ خبر والدہ برداشت نہیں کر سکیں گی، کیونکہ اس نے تمام زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزاری جو جیلوں اور جلاوطنی میں رہا۔ مجھے نہیں پتہ اس دن میں نے اتنی بڑی دیوار کیسے پھلانگی اور پولیس مجھے گرفتار کر نہ پائی۔
شام کو استاد کے پاس حسب معمول سب جمع ہو ئے۔ میں نے بڑی شان سے اپنے بھاگنے کی روداد سنائی۔ سب کامریڈ منہ بسور کر میری داستاں سنتے رہے اور جب میں نے بات مکمل کی تو استاد نے کہا کہ " آپ کو شرم آنی چاہیے کامریڈ، آپ کو گرفتاری دینی چاہیے تھی" یہ بات سن کرمیں حیران بھی ہوا اور ناراض بھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر میں گرفتار ہو بھی جاتا تو میری والدہ پر کیا گذرتی۔ مگر آج مجھے یہ بات کتنی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ سیاست اور جیل جانا دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں۔
اب جب کہ سیاست اس موڑ پر آرکی ہے کہ جہاں شفاف انتخابات بھی ایک بہت بڑی منزل ہیں۔ اب وہاں گرفتار ہونا ایک سیاستدان کے لیے لازمی ہو جاتا ہے۔