چونتیس واں دروازہ
تُک بندیاں، سرحدیں، حدیں اور نہ جانے کتنی لکیریں ہیں۔ ہاتھوں کی لکیروں سے لے کر دماغ میں رہتے خیالوں تک۔ سب جیسے گماں ممکن ہو اور گماں کہیں نہیں، تو پھر ممکن کیسے!
ہمارے ایک نسیم کھرل صاحب تھے، سندھی زبان کے کہانی کار، چھوٹے چھوٹے افسانے لکھتے تھے بہت گہرائی اور باریکیوں میں جاکر، سماج کے کرداروں کی عکاسی کرتے تھے۔ یوں کہیے کہ اپنے الفاظ سے ان باریکیوں کی تصویر اس طرح کھینچتے تھے کہ وہ دماغ میں منظر بن کر حقیقت نظر آتی تھیں۔ بالکل اس عظیم بنگالی فلم سازـ ـ رابندرہ دھرم راج کی طرح جس نے کچی بستیوں پر بنی فلم "چکرا" بنائی تھی۔
میں نہیں سمجھتا کہ نسیم کھرل کی چونتیس واں دروازہ سے بڑی کوئی کہانی ہوسکتی ہے۔ ایک عورت کی نعش جو سکھر بیراج کے چونتیس وے درواز ے میں پھنسی ہوئی تھی، بظاہروہ نعش ایک ایسی عورت کی تھی جو کاری تھی اور تھانیدار حقیقت سے واقف تھا کہ وہ کون ہے؟ کس ذات سے ہے؟ اور اس کی موت کی وجہ کیا ہے؟ سکھر بیراج کاچونتیس واں دروازہ، وہ دروازہ ہے جو دو تھانوں کے درمیاں حدوں، لکیروں اور تک بندیوں کا تعین کرتا ہے اور دونوں پولیس تھانوں میں تضاد کا باعث ہے۔
نعش کا نہ کوئی وارث ہے نہ ہی یہ یقین ہے کہ یہ قتل ہے یا خودکشی! نہ ایف آئی آر نہ پوسٹ مارٹم ہوتا ہے۔ بس یہ لاش منتظر ہے کہ جلدی ہی اس کی تدفین کی جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ 1978 میں پشکن کی طرح ہمارے نسیم کھرل بھی 39 سال کی عمر میں قتل ہوئے اور اب آپ یہ سمجھیں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو کتنی کہانیوں کا خزینہ ہمیں دے جاتے اور یہ بھی کہ سندھ میں اپنی لکھاوت کے ذریعے اس بدبودار جاگیرداری نظام کو یا توڑ دیتے یا پھر توڑنے کے قریب ہوتے۔
یہ بات مجھے یاد آئی کراچی کے نالوں کو توڑنے ان کی تق بندیوں، حد بندیوں اور لکیریں بنانے پر کہ نالے کہیں نہیں ہیں، نالوں پر حد لوکل گورنمنٹ کی لگتی ہے اور نالوں پر جو گھر بنے ہیں، اس کی این او سی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی دیتی ہے، اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے، یہ شہر پھیل نہیں رہا۔ یوں کہئے کہ یہ شہرhorizontally وسیع نہیں ہورہا بلکہ یہ شہر لمبا ہوتا جارہا ہے، یعنی vertically بڑھ رہا ہے جس کی اجازت کراچی بلڈنگ اتھارٹی دے رہاہے۔
گھر کے اوپر ایک گھر ہے مگر گلی کا کوئی راستہ نہیں، نہ ہی کار پارکنگ کی کوئی گنجائش ہے۔ جو سورج کل تک میری کھڑکی سے دکھائی دیتا تھا، اس منظر پر آج میرے برابر ایک بلڈنگ رخنہ بن گئی ہے۔ بالکونی میں جاکر کبھی کبھار شام کی ہوا کا مز ہ لیتا تھا، اب وہ بھی میسر نہیں۔ اس شہر میں حد بندیوں، تق بندیوں، سرحدوں اور لکیروں کی اتھارٹی کچھ سندھ حکومت کے پاس ہے اور کچھ محکمہ بلدیہ کے پاس۔ تھوڑا سا اگر ماضی میں جھانکیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ سندھ حکومت یا وفاق کی تق بندیاں، حدیں اور لکیریں کم تھیں اور بلدیہ کی زیادہ اور پھر ان کی دیدہ دلیریاں۔ بوریوں میں بند لاشیں تھیں، ہڑتالیں تھیں، دہشت کا راج تھا، چائنہ کٹنگ تھی، پھر شہر میں گھوسٹ سوئیپر آ بیٹھے، ان میں بہت سے ایسے بھی پیرول پر تھے جن سے اسپیشل کام لندن میں بیٹھے پیر صاحب لیتے تھے۔
چونکہ ریاست کے اہم ستونوں کے متوالوں کے ان سے کچھ مفادات جڑے ہوئے تھے تو بھاڑ میں جائے کراچی!کراچی سے رونقیں اور روشنیاں روٹھی گئیں۔ لسانیت کے دلدل میں دھنستا گیا، کراچی اس کو اس سے لڑائو اور اس کو اس سے لڑائو یہ تھا کراچی۔ جب جنرل مشرف کی آمریت آئی تو کراچی کے گوٹھوں کو بھی اس شہر کے مالک، لندن میں بیٹھے پیر صاحب کے حوالے کیا گیا اور وزیر اعلیٰ صاحب کٹھ پتلی کی طرح ان کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتے رہے۔
پھر یوں بھی ہوتا ہے اس ملک میں کہ حد بندیاں، تق بندیاں، سرحدیں اور لکیریں جمہوریت اور آمریت پر بھی ہوتی ہیں کہ دس سال وہ آتے ہیں اور دس سال یہ آتے ہیں۔ جب وہ (آمریت) آتے ہیں تو ان کی صوبائی خودمختاری پر یلغار ہوتی ہے بہ ظاہر صرف دکھانے کو بلدیہ کو بحال کیا جاتا ہے اورجب جمہوریت آتی ہے تو صوبائی خودمختاری کی کچھ تو شکل بنتی ہے مگر بلدیاتی نظام کو کمزور بنایا جاتا ہے۔ یہ جو ہماری افسر شاہی ہے ان بے چاروں کو یہ بھی پتا نہیں ہوتاکہ ان کا باس کون ہے؟ آمریتیں یہاں بڑی جوڑ توڑ اور طاقت کے ساتھ آتی ہیں مگر جمہوریتیں معذور۔ وہ اس لیے کہ سندھ میں بالخصوص کراچی کے علاوہ، دیہی سندھ میں جمہوریتوں پر بنی حکومتوں کے ممبران الیکٹی بلز (electables) ہوتے ہیں یعنی وہ پارٹی کی مجبوری ہوتے ہیں پارٹی ان کی مجبوری نہیں۔ ٹکٹ کا ملنا یہ نہ ملنا ان کے لیے اتنا اہم نہیں ہوتا۔
ہاں مگر کراچی کے کرتا دھرتا پیر صاحب تھے۔ چاہے سائیکل والا ہو یا پان والا ووٹ پیر صاحب کا تھا۔ ریاست کے اہم ستونوں کے متوالوں کو بھی اچھا لگتا تھا کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے صرف ایک بندے سے ہی بات کرنی ہے۔ ان جمہوریت پرست پارٹیوں کا المیہ یہ تھا کہ انھیں ہر وقت پارٹی میں ہارس ٹریڈنگ کا خطرہ رہتا تھا۔ پھر انھوں نے آئین میں ترامیم کیں۔ پارٹیاں موروثیت پر چلتی تو ہیں مگر یہ سب فطری ہے۔ جب تک لوگ خود ان کو نکال باہر نہیں کریں گے، یہ نہیں جائیں گے لیکن ارتقاء کا یہ عمل بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، کراچی کی حد بندیوں، تق بندیوں اور لکیروں کا تعین اب تک نہ ہوسکا کہ کراچی کتنا وسیع ہوگا۔
اب تک یہ تق بندیاں، حدیں، سرحدیں اور لکیریں وہیں موجود ہیں جہاں نسیم کھرل سکھر بیراج کے چونتیس ویں دروازے پر چھوڑ گئے تھے۔ بات صرف کراچی کے گوٹھ بننے کی نہیں یہاں تو پورا پاکستان ہی گوٹھ بن گیا ہے۔ ستر سال میں جو ہمیں سفر کرنا تھا اور ہماری سیاست کی ٹرین کو جس رفتار سے چلنا چاہیے تھا اس کے برعکس یہ ریل ابھی تک جنگ شاہی پر ہی کھڑی ہے جس طرح جناح کی ایمبولینس راستے میں کھڑی ہوگئی تھی۔
دوسری طرف ہمارے جمہوریت کے متوالے جن کے اندر آجکل پیر، وڈیرے اور سائیں بابا بیٹھے ہیں اور وہاں شریف برادران ہیں جن کے اندر بیوپاری و سرمایہ دار بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت خوب کہ اٹھارویں ترمیم لے کر آئے مگر بلدیہ بھی وہی ہے جہاں ہماری ریل جنگ شاہی پر کھڑی ہوئی ہے۔