کامیاب وہی ہوگا
"وہ ہمیشہ آپ کے خلاف بات کرتا ہے، آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے، نوجوان کے لہجے میں پیار بھی تھا، پریشانی بھی اور خلوص بھی، مجھے اس کے خلوص نے چند لمحوں کے لیے پریشان کر دیا اور مجھے سمجھ نہیں آئی میں اسے کیا جواب دوں، دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں، کچھ لوگ آپ سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے ہیں۔
یہ لوگ آپ کو انسان کے شرف سے اٹھا کر اوتار، ولی یا دیوتا بنا دیتے ہیں، ان کی عقیدت یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی کہ آپ واش روم بھی جاتے ہوں گے، آپ کو بھوک بھی لگتی ہو گی، آپ کی بجلی بند ہو جائے تو آپ کو بھی پسینہ آتا ہو گا اور اگر آپ کو چوٹ لگے تو آپ کے منہ سے بھی عام انسان کی طرح چیخ نکلتی ہو گی، یہ لوگ آپ کو یونانی دیوتا بنا کر کسی اونچے طاق میں رکھ دیتے ہیں اور دور کھڑے ہو کر آپ کے چرنوں میں عقیدت اور محبت کے پھول چڑھانا شروع کر دیتے ہیں، آپ ان لوگوں کو صدیق کہہ سکتے ہیں۔
یہ لوگ آپ کے ایک ایک لفظ پر یقین بھی کرتے ہیں اور اس کی گواہی بھی دیتے ہیں، یہ صدیق دنیا کے ہر انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں، دوسری کیٹگری میں ایسے لوگ شامل ہیں جو بلا وجہ آپ کے مخالف ہوتے ہیں، آپ زندگی میں ان کا کچھ نہیں بگاڑتے، آپ کا کبھی ان سے سامنا بھی نہیں ہوتا، آپ اور ان کے درمیان کبھی انٹرسٹ کا بھی " کلیش" نہیں ہوتا اور آپ کبھی ان کا کوئی حق بھی غصب نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود یہ آپ کے جانی دشمن ہوتے ہیں، یہ آپ کو ہنستا، کھیلتا، خوش اور کام یاب ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔
آپ کی ہر کام یابی، ہر خوشی اور ہر اچھائی ان کے دلوں پر بجلی بن کر گرتی ہے اور یہ آدم خور مگر مچھ کی طرح تلملا کر آپ کی طرف بڑھتے ہیں، یہ ابو جاہل نما لوگ ہوتے ہیں، یہ دل میں آپ کی خوبیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں، یہ آپ کی محنت، آپ کی ذہانت اور آپ کی اچھائیوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی آپ کی مخالفت کا بھی کوئی موقع ضایع نہیں کرتے اور لوگوں کی تیسری قسم میں ایسے لوگ شامل ہیں جو حضرت امام حسینؓ کے ساتھ بھی ہوتے ہیں اور یزید کی بھی بیعت کر لیتے ہیں۔
یہ حضرت امام حسین ؓ کو بھی اپنا لیڈر مان لیتے ہیں اور شمر کے لشکر پر بھی خاموش رہتے ہیں، ان کے دل حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن تلواریں ہمیشہ یزید کا ساتھ دیتی ہیں، یہ کوفی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، آپ کے ساتھ ان کے جذبات وابستہ نہیں ہوتے، یہ پہلے مقتول کا ساتھ دیتے ہیں اور جب قاتل کو پھانسی دینے کا وقت آتا ہے تو یہ اس کے لیے ہمدردی محسوس کرنے لگتے ہیں، آپ اگر گا رہے ہیں تو یہ آپ کو سن لیں گے، آپ نے گانا بند کر دیا تو یہ آپ کا نام بھول جائیں گے، آپ اگر لکھتے ہیں تو یہ آپ کو پڑھتے ہیں، آپ لکھنا بند کر دیں۔
آپ دنیا سے رخصت ہو جائیں یا آپ اپنا پروفیشن تبدیل کر لیں تو یہ اگلے ہی دن آپ کو فراموش کر دیں گے، یہ کوفی لوگ بھی ہر انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں، یہ گاہک کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں، کولیگز کی صورت میں بھی، آپ کے ہمسائے بھی اور آپ کے سامعین، ناظرین اور قارئین بھی، میرا ذاتی تجربہ ہے ان تینوں لوگوں میں سب سے خطرناک پہلی قسم کے لوگ ہیں، یہ لوگ کیوں کہ آنکھوں پر عقیدت کی عینک چڑھا کر آپ کے پاس آتے ہیں چناں چہ آپ کانچ کی نازک چوڑی بن کر ان کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
آپ ان کے سامنے چھینک مارتے، جمائی لیتے یا کان پر خارش کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیوں کہ آپ جب چھینک مارتے ہیں تو یہ بڑی حیرت سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں اور اس وقت ان کی آنکھوں میں اس نوعیت کا چیختا ہوا سوال ہوتا ہے "دیوتا آپ کو بھی چھینک آتی ہے" اور اس سوال پر آپ کی چھینک تک شرمندہ ہو جاتی ہے۔
میرے سامنے بیٹھا نوجوان پہلی کیٹگری سے تعلق رکھتا تھا، وہ عقیدت کی عینک چڑھا کر میرے پاس آیا تھا اور میں بارش میں بھیگے بیمار کبوتر کی طرح اس کے سامنے بیٹھا تھا، اس وقت میرے گھٹنے پر شدید خارش ہو رہی تھی لیکن میں اس کے سامنے خارش کرنے کا رسک نہیں لے رہا تھا، اس کا کہنا تھا آپ کا فلاں کولیگ پچھلے دس برسوں سے آپ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے، میں نے اس سے عرض کیا، بھائی میں اس کو جانتا ہی نہیں ہوں، میری اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
میں نے کبھی اس کے ساتھ کام نہیں کیا چناں چہ اس کی رائے "ون سائیڈڈ" ہے اور کبھی ون سائیڈڈ رائے کا جواب نہیں دینا چاہیے لیکن وہ نوجوان ماننے کے لیے تیار نہیں تھا، اس کا خیال تھا مجھے ابھی تلوار لے کر اس کے ساتھ نکلنا چاہیے اور تمام مخالفوں کے سر اتار کر فاطمہ جناح پارک کے عین درمیان میں کھوپڑیوں کا مینار تعمیر کر دینا چاہیے اور اس کے ساتھ " مخالفین کا انجام" قسم کی تختی لگا دینی چاہیے، میں نوجوان کی خواہش سے بچنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کی تین چار موٹی موٹی وجوہات تھیں، ایک، میرے پاس تلوار نہیں تھی۔
دو، پندرہ لاکھ آبادی کے شہر سے اپنے مخالفین تلاش کرنا مشکل تھا، تین، میرا خیال تھا ملکی قوانین اور لوگ ہمیں ان کے سر اتارنے نہیں دیں گے اور چار، شاید ہمیں سی ڈی اے سے فاطمہ جناح پارک میں کھوپڑیوں کا مینار بنانے کا این او سی بھی نہ مل سکے چناں چہ میں نے اسے حالات کے ساتھ کمپرومائز کرنے کی تبلیغ شروع کر دی مگر وہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا، میں جب تھک گیا تو میں نے اس سے عرض کیا " چلو میں تمہیں رچرڈ نکسن کی زندگی کا ایک واقعہ سناتا ہوں " وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، میں نے عرض کیا۔
رچرڈ نکسن نے جب صدارت سے استعفیٰ دیا تو اس کا ایک مخالف اس کے پاس آیا اور اس نے اس سے کہا" میں آپ کے دور صدارت میں آپ کی شدید مخالفت کرتا رہا، میں آج آپ سے معذرت کرنے آیا ہوں " رچرڈ نکسن نے یہ سنا، وہ ہنسا اور نرم آواز میں بولا " آپ جب کام کرتے ہیں تو لوگ آپ کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی اس مخالفت سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب آپ اپنے مخالفوں کی مخالفت شروع کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو بہت فرق پڑتا ہے" بات ختم ہونے کے بعد میں نے نوجوان کے چہرے کی طرف دیکھا، وہ خاموشی اور ٹھنڈی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
میں نے اس سے عرض کیا " نکسن کے کہنے کا مطلب تھا تمہاری مخالفت سے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن میں اگر تمہاری مخالفت کرتا تو مجھے بہت نقصان ہوتا" نوجوان اب بھی نہیں سمجھا تھا، میں نے عرض کیا " آپ جب کام کرتے ہیں تو آپ کا وقت قیمتی ہو جاتا ہے، آپ کے مخالفین آپ سے آپ کا وہ قیمتی وقت چھیننا چاہتے ہیں چناں چہ یہ آپ کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔
آپ اگر اس ٹریپ میں آ جائیں تو آپ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینا شروع کر دیتے ہیں اور یوں وہ قیمتی وقت جو آپ کو اپنے کام کو دینا چاہیے تھا وہ مخالفتوں اور جواب مخالفتوں میں ضایع ہو جاتا ہے اور آخر میں آپ کو معلوم ہوتا ہے آپ خسارے کے سوداگر بن چکے ہیں " وہ خاموشی سے سنتا رہا، میں نے عرض کیا " آپ جب کام یابی کے گھوڑے پر بیٹھتے ہیں تو آپ کے مخالفین ہنٹر لے کر آپ کے راستے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، اس وقت آپ کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں، ایک، آپ سر جھکا کر صرف اپنے مقصد پر توجہ دیں۔
آپ یہ راستہ منتخب کر لیں تو مخالفتوں کے ہنٹر آپ کے گھوڑے کی رفتار میں اضافے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور دو، آپ اس کے برعکس ہنٹر والوں کا جواب دینا شروع کر دیں، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کا گھوڑا بھی رک جائے گا اور آپ کسی نہ کسی ہنٹر کا شکار بھی ہو جائیں گے چناں چہ ان کو اپنا کام کرنے دو اور تم اپنا کام کرتے رہو، آخر میں کام یاب وہی ہو گا جس کی رفتار زیادہ ہو گی۔ نوجوان نے میری بات سن لی لیکن وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔