1.  Home/
  2. Javed Chaudhry/
  3. Boundary Wall Per Kharay Kharay

Boundary Wall Per Kharay Kharay

باؤنڈری وال پر کھڑے کھڑے

انٹرلاکن ہماری اگلی منزل تھی، یہ سوئٹزر لینڈ کا وہ شہر ہے جو زندہ لوگوں کو پتھر کی مورتی بنا دیتا ہے، سوئس لوگ جھیل کو لاک کہتے ہیں، انٹر لاکن شہر دو بڑی اور دلفریب جھیلوں کے درمیان آباد ہے لہٰذا یہ انٹر لاکن یعنی "جھیلوں کے درمیان" کہلاتا ہے، یہ شہر تین اطراف سے گلیشیئرز اور پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، پہاڑوں کی اترائیوں پر جنگل ہیں اور جنگلوں میں چھوٹے چھوٹے صاف ستھرے گاؤں، تین تین منزلہ کھیت، جانوروں کے باڑے اور درجنوں ندیاں، نالے اور دریا ہیں۔

سوئٹزرلینڈ جھیلوں کا ملک ہے، سوئس جھیلیں اتنی وسیع ہیں کہ ان میں باقاعدہ بحری جہاز چلتے ہیں، شہر جھیلوں کے گرد آباد ہیں چنانچہ یہ بحری جہاز ٹرانسپورٹ کا بڑا ذریعہ ہیں، سوئٹزر لینڈ چیئر لفٹوں کا ملک بھی ہے، 80 لاکھ آبادی اور41 ہزار 2سو 85مربع کلومیٹر لمبے ملک میں سیکڑوں چیئر لفٹس ہیں، آپ جس طرف نکل جائیں آپ کو وہاں چیئر لفٹ ملے گی، یہ چیئر لفٹ آپ کو ہزاروں فٹ بلند چوٹیوں تک لے جائے گی۔

آپ کو وہاں گلیشیئرز کے درمیان ریستوران، ہوٹلزاور ٹرین سمیت زندگی کی تمام سہولتیں ملیں گی۔ میں درجنوں مرتبہ انٹر لاکن آیا ہوں، میں نے یہ شہر تقریباً تمام موسموں میں دیکھا، میں مئی جون میں بھی اس وقت یہاں آیا جب یہ پوری وادی پھولوں سے مہکتی ہے، میں نے اسے جولائی کی تپتی دوپہروں میں بھی دیکھا، میں نے یہاں کی برساتیں اور طوفان بھی دیکھے اور میں نے اس شہر کی شاموں کو سرد ہوتے بھی دیکھا، میں نے اس شہر کی دونوں جھیلوں کے گرد دوڑ بھی لگائی، لمبی لمبی واک بھی کی اور میں نے ان جھیلوں کے کنارے لیٹ کر گہری سیاہ راتوں میں تارے بھی گنے، میں نے انٹر لاکن کی جھیلوں میں سورجوں کو ڈوبتے بھی دیکھا اور نرم ملائم صبحوں کو ان پانیوں سے طلوع ہوتے بھی دیکھا۔

میں نے اس کے جنگلوں کی فریش چیریز کے مزے بھی لوٹے اور میں نے شاخوں سے انگور توڑ کر بھی کھائے، میں نے بس اس شہر کو برفباری میں نہیں دیکھا، میں جب بھی انٹر لاکن جاتا تھا، میں "ویو کارڈز" میں پوری ویلی کو برف کی چادر اوڑھے دیکھتا تھا اور ہر بار پروگرام بناتا تھا میں اگلی سردیوں میں انٹر لاکن ضرور آؤں گا مگر بدقسمتی سے اگلی سردیاں کسی نہ کسی فضول کام میں ضایع ہو جاتیں لیکن یہ سردیاں! میں نے یہ سردیاں ضایع نہ ہونے دیں۔

انٹر لاکن میں پہلی برفباری ہو چکی تھی، ہم لوگ جمعہ کی صبح گیسٹائین سے انٹر لاکن کے لیے روانہ ہوئے، آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ کا راستہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں شمار ہوتا ہے، برف پوش پہاڑ، سیاہ جنگل، پیلے اور آتشیں پتوں سے لدھے درخت، آبشاریں، ندیاں، نالے، دریا اور تیز ہوائیں آپ کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں، ہم گیسٹائین سے نکلے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، یہ بارش انٹر لاکن تک ہمارے ساتھ رہی، راستے میں کسی جگہ بارش رک جاتی اور سورج بادلوں سے نکلنے میں کامیاب ہوجاتا تو پورا ماحول کیلنڈروں کی دلفریب تصویروں کی شکل اختیار کر لیتا۔

ہم خوبصورت مناظرکی تصویریں کھینچتے ہیں لیکن آپ اگر آٹھ دس گھنٹے ایسے مناظر کے درمیان سفر کریں جس کا ہر "شارٹ" قدرت کی صناعی کا عظیم شاہکار ہو تو آپ اور آپ کا کیمرہ دونوں بے بس ہو جاتے ہیں اور ہم بھی بے بس ہو گئے کیونکہ ہم جس طرف دیکھتے تھے ہماری آنکھیں پھٹ جاتیں اور منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا، ہم انٹر لاکن پہنچے تو شام ہو چکی تھی، روشنیاں روشن ہو چکی تھیں اور جھیلوں کا پانی یخ ہو چکا تھا، شہر میں تیز آوارہ ہوائیں گردش کر رہی تھیں اور سناٹے پر پھیلا رہے تھے۔

انٹر لاکن میں شالیمار کے نام سے ایک پاکستانی ریستوران ہے، یہ ریستوران گجرات کے بلال بٹ نے چند برس قبل بنایا تھا، مجھے تین مرتبہ اس ریستوران میں جانے کا اتفاق ہوا، ہم تھکے ہارے شالیمار ریستوران پہنچے، ہمیں چھ دن بعد پاکستانی کھانا نصیب ہوا چنانچہ ہم اپنی ضرورت سے زیادہ کھا گئے، بٹ صاحب شکل سے جوان دکھائی دیتے ہیں مگر انھوں نے جب اپنی عمر بتائی تو معلوم ہوا یہ ہم تینوں سے بڑے ہیں، یہ حقیقتاً عمر چور ہیں۔ ہم نے انٹرلاکن کے مضافات میں بیرن گاؤں میں ہوٹل بک کرا رکھا تھا، بیرن انٹر لاکن سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر پہاڑی گاؤں ہے، گاؤں کا ماحول کالام سے ملتا جلتا ہے لیکن معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اس قصبے کے نصف سے قریب گھر پے انگ ہوم، گیسٹ ہاؤسز اور چھوٹے ہوٹل ہیں، یورپ میں چھوٹے ہوٹلز کا تصور عام ہو رہا ہے خاص طور پر سوئٹرز لینڈ میں لوگ دس بیس کمروں کا ہوٹل بناتے ہیں، گراؤنڈ فلور پر ریستوران کھول لیتے ہیں، یہ ہوٹل ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے اور بڑھاپے کی تفریح بھی۔ میں یورپ کے ایسے بے شمار ہوم ٹائپ ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوں، یہ ہوٹل مائیاں اور بابے چلاتے ہیں، ان ہوٹلوں میں دنیا بھر کی سہولتیں موجود ہوتی ہیں، گرم پانی، صاف ٹوائلٹس، صاف ستھری چادریں اور خوشبودار کمبل اور کرایہ بھی زیادہ نہیں ہوتا، کاش پاکستان میں بھی یہ تصور آ جائے، ہم بھی صاف ستھرے چھوٹے ہوٹل بنائیں لیکن ہوٹل بنانے سے قبل ہمیں عارضی رہائش کی فلاسفی تبدیل کرنا ہو گی۔

ہمیں اپنی معاشرتی روایات تبدیل کرنا ہوں گی، ہم لوگ ہوٹلوں میں رہنا اور مہمانوں کو ٹھہرانا توہین سمجھتے ہیں، ہم جب دوسرے شہر جاتے ہیں تو ہم وہاں کوئی ایسا رشتہ دار، دوست یا دوست کا دوست تلاش کرتے ہیں جو ہمیں ایک آدھ دن کے لیے اپنے پاس رکھ لے، ہمارے مہمان آئیں تو بھی ہم انھیں ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے بجائے گھروں پر ٹھہراتے ہیں، ہم ریستورانوں سے کھانا کھانے یا کھانا کھلانے کو بھی توہین سمجھتے ہیں، یہ روایات ماضی میں اچھی تھیں، ان سے اپنائیت اور محبت میں اضافہ ہوتا تھا لیکن یہ روایت آج کے زمانے میں دقت طلب بھی ہے اور ملک کی سماجی اور معاشی سرگرمیوں کے راستے کی رکاوٹ بھی ہے، گھروں پر مہمان بنانے اور بننے سے گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے، آپ مہمان کو اپنے معمول کے مطابق چلانے کے بجائے مہمان کے معمول کے غلام ہو جاتے ہیں۔

خواتین کو بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بچوں کی روٹین بھی خراب ہو جاتی ہے، پاکستان میں روزانہ 50 لاکھ لوگ دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں، یہ لوگ اگر ہوٹلوں میں رہائش اختیار کریں تو ہوٹلوں کے تیس سے چالیس لاکھ کمرے روزانہ استعمال ہوں گے، آپ تصور کیجیے، اس سے کتنی بڑی معاشی سرگرمی جنم لے گی اور ملک کا کون کون سا طبقہ اس سے فائدہ اٹھائے گا؟ آپ اگر یورپ کے چھوٹے ہوٹل اور ریستوران بند کر دیں تو پورے یورپ کی معیشت دم توڑ جائے گی کیونکہ یہ دونوں یورپ کی سب سے بڑی انڈسٹری ہیں۔

یہ صنعتیں پورے پورے ملک کو چلا رہی ہیں، یہ لوگوں کو جاب بھی دیتی ہیں، حکومت کو کھربوں ڈالر کا ٹیکس بھی اور سیکڑوں صنعتوں کو آکسیجن بھی اور یہ ساری انڈسٹری صرف ایک سماجی روایت پر قائم ہے، یورپ کے لوگ دوسروں کے گھروں میں نہیں رہتے، یہ دوسروں کو گھروں میں ٹھہرانا بھی پسند نہیں کرتے، یہ لوگ بیس بیس سال کے گہرے دوست ہوتے ہیں، یہ دوست سے ملنے آتے ہیں لیکن ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔

میزبان فیملی انھیں کھانا بھی کسی ریستوران میں کھلاتی ہے اور یوں لوگ مسائل سے بھی بچ جاتے ہیں اور معیشت کا پہیہ بھی رواں دواں رہتا ہے، ہماری حکومت اگر توجہ دے، یہ چھوٹے ہوٹل کھولنے کے رجحان کو تقویت دے، حکومت ہوٹلوں اور ریستورانوں کے معیار کی کڑی نگرانی کرے، ہم لوگ بھی میزبان تلاش کرنے کے بجائے ہوٹلوں میں رہنا سیکھیں تو ملک میں بڑا سماجی اور معاشی انقلاب آ سکتا ہے، ہماری حکومتوں نے بدقسمتی سے آج تک سیاحت کو انڈسٹری نہیں سمجھا، پاکستان بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے، ہم میں سے چار کروڑ لوگ سال میں دو بار سیاحت افورڈ کر سکتے ہیں۔

لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھروں اور شہروں سے نکلتے بھی ہیں لیکن سیاحتی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات ان کی چھٹیاں خراب ہو جاتی ہیں، یہ صحت مند جاتے ہیں اور بیمار اور زخمی ہو کر واپس آتے ہیں، حکومت اگر سیاحت کی انڈسٹری کو سنجیدگی سے وقت دے، محکمہ سیاحت غیر ملکی کمپنیاں ہائر کرے، یہ کمپنیاں سیاحتی مقامات کی نشاندہی کریں، گورے ان علاقوں کے لوگوں کو صاف ستھرے ہوٹل اور ریستوران بنانے کے طریقے سکھائیں، علاقے کا کچرا ٹھکانے لگانے، پانی، فضا اور ماحول کو صاف رکھنے کے طریقے سکھائے جائیں تو پورے ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن حکومتوں کے پاس شاید ایسے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے لیے وقت نہیں۔

بیرن خوبصورت گاؤں تھا، ہوٹل کی بالکونی سے پوری وادی کا نظارہ ہوتا تھا، ٹاؤن برفباری کی وجہ سے سفید ہو چکا تھا، چھتوں پر برف کی تہہ جمی تھی، پہاڑ کی چوٹیاں سفید ہو چکی تھیں، درخت سیاہ تھے لیکن درختوں کی انتہائی بلند شاخوں پر برف کے گالے اٹکے ہوئے تھے، ان گالوں پر سورج کی روشنی پڑتی تھی تو یہ سفید موتیوں کی طرح چمکتے تھے، میں نے کمرے کی کھڑکی کھولی، مجھے دور دور تک درختوں پر ہزاروں سفید موتی چمکتے نظر آئے، ہوائیں ان موتیوں کو گدگداتی تھیں تو یہ لرزتے، کانپتے ہوئے نیچے گرجاتے تھے اور زمین کی برف میں برف ہو کر غائب ہو جاتے تھے، میں کافی کا مگ لے کر ہوٹل کی باؤنڈری وال پر کھڑا ہو گیا، میرے چاروں اطراف نیچر تھی، لکڑی کے مہکتے ہوئے گھر تھے اور ہوٹل تھے۔

چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا، برف سے بھاپ اٹھ رہی تھی اور چھتوں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا، وہ لمحہ زندگی کے قیمتی ترین لمحوں میں سے ایک لمحہ تھا، میں قدرت کے عظیم صفحے کا ایک نقطہ بن کر اس کی بنائی کائنات میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں سکون ہی سکون تھا، شانتی ہی شانتی۔ میرے ہاتھ میں "کاپو جینو" کا مگ تھا، وقت ٹھہر گیا تھا اور میں ٹھہرے ہوئے وقت کا ایک خاموش لمحہ بن کر اس باؤنڈری وال پر کھڑا تھا اور میرے قدموں کے نیچے سڑک تھی اور سڑک سے آگے سیکڑوں فٹ کھائی، ہم لوگ جب لاکھوں، کروڑوں سال قبل جنت سے نکلے تو ہمارے آباؤ اجداد آتے ہوئے انٹر لاکن جیسے ہزاروں گنا عظیم مناظر ساتھ لے آئے۔

یہ مناظر ہمارے خون میں موجود ہیں، ہم جب شہروں کے دوزخوں سے تھک جاتے ہیں تو ہمارے خون میں چھپے انٹر لاکن جاگ جاتے ہیں اور یہ انٹرلاکن مقناطیس کے مثبت سروں کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتے ہیں، ہم جب جنت جیسی ان وادیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ہماری ساری ٹینشن، ہمارا سارا ڈپریشن ختم ہو جاتا ہے، ہم ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں اور بیرن کے اس ہوٹل کی اسی باؤنڈری کی وال پر کھڑے کھڑے میرے سر سے ڈپریشن کا بھوت اتر گیا، میں خود کو تروتازہ محسوس کرنے لگا۔

میں دھرنوں میں واپس آنے کے لیے تیار ہو گیا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Roohani Therapy

By Tayeba Zia