یہ کس دور میں مجھ کو جینا پڑا ہے
پاکپتن میں ہیلی کاپٹر یا جہاز ٹائپ اڑن کھٹولا بنانے والے محمد فیاض کی گرفتاری پر مجھے شیخ سعدیؒ یاد آئے۔ شیخ سعدیؒ کا گزر ایک بستی سے ہوا برفانی علاقہ تھا اور شیخ اجنبی، آوارہ کتوں نے گھیر لیا، کتوں کو بھگانے کے لیے پتھر ڈھونڈا تو برف میں جما پایا، پکار اُٹھے عجیب لوگ ہیں، کتے آزاد ہیں اور پتھروں کو باندھ رکھا ہے۔ سنگ را بستند و سگاں را کشادند۔ فیض احمد فیض کا اپنے ہی وطن میں حکمرانوں کے دوہرے معیار اور جبرو استبداد سے واسطہ پڑا تو انہوں نے شیخ سعدی کے خیال سے استفادہ کیا ؎ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشادکہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاددنیا بھر میں محمد فیاض جیسے جنونی، اختر اع پسند اور مست متوالی پسند کیے جاتے ہیں، رائٹ برادران نے 3دسمبر 1903ء کو صرف دس فٹ کی بلندی پر اپنا جہاز اڑایا جو دو سوفٹ کا فاصلہ طے کر پایا، امریکی اخبار ڈے ٹن نے دنیا کی بہترین ایجاد کی خبر شائع کرنے سے انکار کیا اور چوتھی پرواز میں یہ جہاز ہوا کا تیز جھونکا برداشت نہ کر سکا الٹ گیا مگر کیٹی ہاک کی انتظامیہ نے رائٹ برادران اور اس کے معاون چارلی ٹیلر اور ساحلی محافظ ایڈم ایتھرج کو گرفتار کیا نہ انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا۔ انسانیت دو جنونی بھائیوں کے شاندار تجربے سے صرف سفری حوالے سے نہیں دفاعی شعبے میں بھی بھرپور استفادہ کر رہی ہے۔ اگر پاکپتن پولیس کی طرح کیٹی ہاک کی انتظامیہ بھی رائٹ برادران کو گرفتار کر لیتی تو سوچئے کیا انجام ہوتا؟ بلاشبہ یہ خطرناک کام ہے، یہ اُڑن کھٹولا صرف محمد فیاض نہیں، مقامی شہریوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہوائی جہاز کی ایجاد ہو چکی، اس شعبے میں جو ترقی ہوئی اس سے آگے سوچنے اور کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور کم علم محمد فیاض کا اُڑن کھٹولا ایک صدی قبل کی یادگار ہے۔ ایوی ایشن کے شعبے میں ہونے والی ترقی، تقاضوں، قوانین اور حفاظتی انتظامات سے نابلد محمد فیاض محض جوش جنون کی بنا پر اس میں کیا اضافہ کر سکتا ہے؟ اکیلا چنا کیا بھاڑ پھوڑے گا۔ مطلوبہ علم نہ وسائل، بجا مگر پاکستان میں محمد فیاض جیسے کتنے ہیں جو اتنا بھی سوچتے ہیں۔ رہی بات ان کی جان کے ضیاع اور اندیشہ ہائے دور دراز کی تو پولیس و انتظامیہ نے آج تک ویگنوں اور رکشوں میں نصب گیس سلنڈرز اتار دیئے؟ مسافروں کی جان سے کھیلنے والی کھٹارا بسوں، چنگ چی رکشوں کے علاوہ ان کے افیونی ڈرائیوروں کو روکنے کے لیے کچھ کر لیا؟ کہ ایک محمد فیاض مجرم ٹھہرا۔ جس ریاست میں ازکاررفتہ ہوائی جہاز سینکڑوں مسافروں کو لے کر اُڑتے، مطلوبہ تجربے اور تعلیمی قابلیت کے بغیر پائلٹ جہاز اُڑاتے اور اسحق ڈار، اسد عمر ایسے لوگ پاکستانی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے لیے وزیر خزانہ بنتے اور کوئی پوچھتا نہیں۔ جعلی ڈگری ہولڈر ڈاکٹر ہسپتالوں میں تعینات اور ان پڑھ عطائی دل، گردوں حتیٰ کہ کینسر کا شرطیہ علاج کا دعویٰ کرتے اور خاکروب و کلرک مریضوں کو انجکشن لگاتے ہیں اور سرکاری ادارے بھنگ پی کر سوئے رہتے ہیں، وہاں محمد فیاض کی گرفتاری؟ سنگ رابستند و سگاں را کشادند، ہماری جامعات اور تحقیقی اداروں میں اساتذہ کیا محمد فیاض جیسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں؟ معمولی تعلیم یافتہ پاپ کارن فروش اور چوکیدار محمد فیاض قابل داد ہے کہ اس نے اپنی آنکھوں میں سجائے خوابوں کی تعبیر کے لیے ڈاکہ ڈالنے، ہیروئن بیچنے اور کسی جاگیردار و وڈیرے کا دلال بننے کے بجائے چار کنال اراضی بیچی، کچھ ادھار لیا، کاٹھ کباڑ اکٹھا کر کے جہاز بنایا اور اڑا بھی لیا، مگر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ، دولت مند اور ذہین لوگوں نے اس ملک اور معاشرے کو لوٹنے، کھسوٹنے، کنگال کرنے اور لوٹ مار کی دولت کو عیش و عشرت میں اڑانے کے سوا کیا کیا؟ پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے اور دیگر قومی اثاثوں کو سکریپ میں بدلنے والوں سے آج تک کسی حکومت، عدلیہ، پولیس، ایف آئی اے اور دیگر اداروں نے تعرض کیا؟ قوم نے جنہیں مسیحا سمجھ کر اقتدار دیا وہ لوٹ کھسوٹ میں پڑ گئے اور جسے اختیار ملا وہ جوہر قابل کی حوصلہ شکنی میں مصروف ہو گیا۔ چوری چکاری ہر ملک اور معاشرے میں ہوتی ہے مگر ریل کی پٹڑیاں اور بوگیاں، پی آئی اے کے جہاز اور لاہور، کراچی، اسلام آباد کے قیمتی رقبے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چوری ہوتے ہیں اور معلوم مجرموں کو کوئی نہیں پوچھتا، ہر فراڈیا، فریب کار، دو نمبریا اور لٹیرا یہاں معزز ہے اور عوام کی طرف سے داد و تحسین کا حقدار، عہدہ و منصب کی بندر بانٹ ہو، قومی دولت اور وسائل کی تقسیم یا اعزاز و اکرام کی بارش، اندھا بانٹے ریورڑیاں مڑ مڑ اپنوں کو دے۔ امریکہ و یورپ میں ریاست کے اداروں اور تحقیقی اداروں کو محمد فیاض جیسے کسی نوجوان کے خوابوں، جنون اور عزم کا پتہ چلے تو وہ اسے عزت و احترام سے بلائیں، ذہانت اور لگن کا ٹیسٹ لیں، خاندانی حالات سے آگاہ ہوں اور آئی کیو ٹیسٹ کے بعد سب سے پہلے تعلیم مکمل نہ کرنے کی وجہ پوچھیں گے، اسے تھانہ رنگ پور کے کسی اے ایس آئی کے حوالے کرنے کےبجائے مزید تعلیم کے لیے کسی یونیورسٹی نہیں تو ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرکے، ٹریننگ، مناسب تعلیمی قابلیت پیدا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تا کہ مطلوبہ تعلیم کے بعد وہ ایجاد و اختراع کی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لا کر کوئی لافانی کارنامہ انجام دے سکے۔ جو شخص کم علمی، غربت، وسائل کی کمی کے باوجود پائلٹ بننے کا خواب دیکھتا اور اپنا سب کچھ بیچ باچ کر ذاتی تگ و دو سے جہاز بناتا، اڑاتا ہے وہ کوئی معمولی شخص نہیں۔ دھرتی کا نمک ہے، اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے، حوصلہ شکنی نہیں، عمران خان اپوزیشن کے دنوں میں قومی ٹیلنٹ کو سامنے لانے اور خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی باتیں کیا کرتا تھا وہ انضمام الحق، وسیم اکرم کو اپنی دریافت قرار دیتا ہے، عثمان خان بزدار اور محمود خان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وسائل سے تربیت کر رہا ہے کہ وہ کامیاب سیاستدان بن سکیں مگر اس کے مشیروں کی نالائقی اور نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ ان میں سے کسی نے کپتان کو محمد فیاض کے بارے میں نہیں بتایا کہ بے چارے کو رنگ شاہ پولیس نے دھر لیا اور ایک غریب و مقروض کی زندگی بھر کی کمائی کے علاوہ جذبوں اور خوابوں کو خاک میں ملا دیا ہے مگر کوئی بتائے تو کیوں؟ جس دیس میں ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کی نظر بندی کا رواج ہے، جہاں سزا یافتہ قومی لٹیروں کے لیے ریاست اور اس کے اداروں کا دل دھڑکتا اور سینے میں دودھ اُترتا ہے۔ جس معاشرے میں چرسی تکہ شاپ پر تل دھرنے کو جگہ نہیں اور پنجاب پبلک لائبریری ویران، جہاں جوتے شوکیس میں سجے اور کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی گاہکوں کی منتظر ہوں اور ہاں جہاں غریب بھوک، پیاس اور امیر بسیار خوری و بدہضمی سے مریں، وہاں محمد فیاض بے چارہ کس باغ کی مولی ہے۔ ریاست مدینہ میں عام شہری کی بیٹی اور فاطمہؓ بنت محمد(ﷺ) کے لیے قانون یکساں تھا مگر ہمارے ہاں زرداریوں، شریفوں، خٹکوں، ترینوں اور ڈاکٹر عاصموں کے لیے ریاست حقیقی ماں بن جاتی ہے اور عام شہریوں کے لیے سنگدل سوتیلی۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے لیے عدلیہ کا دل پسیج جاتا ہے مگر سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر عالم بے بدل محمد اکرم چودھری کی ضمانت نہیں ہو پاتی کہ دولت مند ہیں نہ با رسوخ اور نہ معاشرے کی ترجیحات میں ان کا علم، ذہانت اور دین داری شامل۔ جہالت یہاں باعث فخر ہے اور لوٹ مار معیار عزت، وقار۔ صلاحیت کو بروئے کار لا کر ذاتی و اجتماعی خوشحالی و ترقی کے خواب سجانے والا کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ عبدالقدیر خان جیسا ہو یا محمد فیاض جیسا ان پڑھ، ان گھڑ، گردن زدنی ہے۔ ذہانت، جذبے، عزم اور خداداد صلاحیتوں کی یہ بے قدری اور پاکستان کو عظیم و رول ماڈل بنانے کے دعوے؟ ناممکن۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔