تبدیلی
پاکستان میں تبدیلی آ رہی ہے، آہستہ آہستہ خراماں خراماں، مشاہدہ مگر وہ کر سکتے ہیں جن کے دل و دماغ پر تعصب کے جالے ہیں نہ آنکھوں میں تنگ نظری کا خمار۔
مولانا فضل الرحمن نے پاکستان میں پندرہ لاکھ افراد کا ہجوم لانے کی شرلی چھوڑی تو سیاست اور میڈیا کے بڑے بڑے جغادری ایمان لے آئے۔ وہ بھی جنہیں اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام پر یقین نہ پیغمبر آخر الزمانؐ کے فرمودات پر آمناً و صدقناً کہنے کی توفیق، مولانا کے اعداد و شمار کو انہوں نے سچ مانا اور ایمان بالغیب کی نادرمثال قائم کی، مولانا سے یہ بے جا توقع وابستہ کر لی گئی کہ وہ اپنے لائو لشکر کے ساتھ جونہی اسلام آباد بلکہ پنجاب میں داخل ہوں گے، عمران خان اور اُن کے سلیکٹرز اپنا اپنا منصب چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔ حکومت نے اس شتر بے مہار ہجوم کو روکنے کی کوشش کی تو سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں جگہ جگہ پانی پت کی لڑائی ہو گی اور ریاستی نظم و نسق جتھوں کے رحم و کرم پر۔ ماضی میں حکومت خواہ مسلم لیگ کی رہی، پیپلز پارٹی کی یا ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے سول و فوجی آمروں کی، ہر ایک نے عوام اور سیاسی کارکنوں کو جلسے جلوسوں میں شرکت سے روکنے کے لئے پولیس و انتظامیہ کا ڈنڈا فراخ دلی سے استعمال کیا، آنسو گیس، لاٹھی چارج اور گاہے فائرنگ۔ سیاسی کارکنوں کی سب سے زیادہ اموات ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں صرف1977ء میں تین سو سے زائد۔
جب تک آزادی مارچ اسلام آباد میں بخیرو عافیت داخل نہ ہو گیا، قوم کو یہی دھڑکا لگا رہا کہ خدانخواستہ موجودہ حکمران بھی میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2014ء کی طرح کوئی حماقت نہ کر بیٹھیں اور اپوزیشن کے ہاتھ کوئی جذباتی ایشو آ جائے۔ ایک ہفتہ بعد تک مگر حکومت نے دھرنا کے شرکاء سے تعرض نہیں کیا، کوئی پابندی لگائی نہ چھیڑ چھاڑ کی، منتخب حکومت کا استعفیٰ طلب کرنے والے شدید مخالفین سے یہ حسن سلوک کیا تبدیلی نہیں؟ مولانا اور توقعات و خواہشات کے گھوڑے پر سوار ان کے قریبی ساتھیوں نے دینی مدارس کے بے آسرا بچوں اور مجبور و بے بس اساتذہ کے علاوہ مذہبی عقیدت مندوں کو اسلام آباد لانے سے قبل موسم کا سوچا نہ کارکنوں کے لئے قیام و علاج معالجے کے مناسب انتظامات کئے۔ 2014ء میں دھرنا کے دوران عمران خان تو کبھی کبھی کنٹینر چھوڑ کر اپنے گھر بنیگالہ چلے جاتے مگر ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کارکنوں کے ساتھ کنٹینر میں رات گزارتے جبکہ مخالفین کنٹینر میں دستیاب سہولتوں کی بنا پر عوامی تحریک کے قائد کا مذاق اڑایا کرتے۔ 2013ء کا دھرنا ہوا، جنوری کے سرد ترین مہینے میں شدید بارش کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری اپنے کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے، لیکن جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن، ان کے قریبی ساتھی اور رہبر کمیٹی کے ارکان میں سے کسی نے دھرنا کے شرکاء کے ساتھ شب بسری کی زحمت گوارا نہیں کی۔ تقریروں میں کارکنوں کو جوش دلا کر سب کے سب اپنے اپنے محلات کا رخ کرتے اور مرغ و ماہی کے مزے اڑاتے ہیں۔ رات جب شدید بارش میں کارکنوں کو جان کے لالے پڑے تھے، مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کے ظہور پیلس میں شوگر فری حلوہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ایک طرف دھرنا قیادت کی اپنے کارکنوں سے یہ بے رخی مگر دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جان کے پیاسے مخالفین کی تکلیف پر آسودہ و شاداں ہونے کے بجائے فوری طور پر اسلام آباد کی انتظامیہ اور سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ وہ فی الفور ان غریب، بے آسرایکطرفہ پروپیگنڈے کا شکار مجبور و بے بس شہریوں کی مشکلات کا ازالہ کرے، انہیں بارش اور سردی کے علاوہ موسمی بیماریوں سے بچائو کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ وزیر اعظم نے انسانی بنیادوں پر یہ سہولتیں فراہم کرنے کا اہتمام ان لوگوں کے لئے کیا جو انبیاؑ کی وراثت کے دعویدار اور اہل علم و فضل قائدین کے بے بنیاد اور شرانگیز پروپیگنڈے کے زیر اثر عمران خان کو یہودیوں اور قادیانیوں کاایجنٹ، اسلام سے بے بہرہ اور فاسق و فاجر سمجھتے اور اس کی حکومت کے خاتمے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ یہ تبدیلی نہیں توکیا ہے؟یہاں مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، حاملہ خواتین پر گولیاں چلانے اور پاکستان میں واجپائی کی آمد پر باریش بزرگوں کی داڑھیاں نوچنے کا کلچر تھا، مخالفین کی بہو، بیٹیوں کو بے آبرو، بے ہودہ تصویریں افشا کرنے اور ذاتی سکینڈل اچھالنے کی روایت رہی اور ناموسِ رسالت ﷺ کی حفاظت کے لئے جمع ہونے والے عاشقان رسولﷺ کا کھانا پانی بند کرنا پسندیدہ شغل، شاہد خاقان عباسی کے دور میں ہم سب نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا اور ناموس رسالتؐ کے خلاف قانون سازی کی واردات میں مولانا فضل الرحمن حکمرانوں کے ساتھ تھے۔ حکمرانوں کے شریک جرم اوراحتجاج کرنے والوں پر برہم۔ اب مگر ریاست مدینہ کے علمبردارحکمران نے اپنی زبان کی لاج رکھی، مخالفین کے ساتھ سختی کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ کے ایک سچے پیرو کار کی طرح اپنی راہ میں کانٹے بچھانے والوں کے دکھ درد، مشکل میں وہی کر دکھایا جو ایک امتّی کو زیباہے۔ مولانا اور ان کے پیروکاروں نے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران عمران خان کے خلاف، کیا کچھ نہیں کہا، کیا کچھ نہیں کیا؟۔ رسول اللہ ﷺ کی گستاخی تک کا مکروہ الزام لگا دیا، اسرائیل اور قادیان سے ناطہ جوڑا اور الیکشن کمشن کی ایک ایسی رپورٹ کا حوالہ دیا جسے الیکشن کمشن پاکستان نے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر عالم دین کے منہ پر دے مارا مگر عمران خان نے بارش میں بھیگتے کارکنوں کو مولانا فضل الرحمن کے اندھے عقیدت مند کے بجائے ایک پاکستانی شہری اور انسان گردانا، حساس اور نرم دل مسلمان کا یہی شیوہ ہے۔ یہی آدمی اور انسان کی پہچان ہے ؎
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
مولانا کو طیش میں خوف خدا نہ رہا، حقائق کے برعکس الزام تراشی کر ڈالی جس کا سر نہ پیر مگر ایک دنیادار اور "اہل تقویٰ" کے بقول "یہودیوں، قادیانیوں" کے ایجنٹ کو تیز بارش اور شدید سردی سے نبردآزما مولانا کے پیرو کار یاد رہے۔ یہی تبدیلی ہے جو معاشرے میں پائوں پھیلا رہی ہے مگر اس کا احساس و ادراک ان چند کو ہے جن کے دل و دماغ تعصب سے پاک اور آنکھیں تنگ نظری کے آشوب سے محفوظ۔ مولانا تو شائد کبھی بھی اعتراف نہ کریں کہ انہیں پہلی بار ایک ایسے سیاسی مخالف سے پالا پڑا جس کی زبان میں کڑواہٹ مگر دل میں نرمی اور دماغ میں کشادگی تھی۔ رہے ان کے پیرو کار، واپسی پر سوچیں گے ضرور۔ دھرنا اگر ایک دودن مزید طول پکڑے اور مولانا ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو عمران خان دھرنا کے مجبور و بے بس شرکاء کو گھر واپسی کے لئے فری ٹرانسپورٹ کا اہتمام کریں پھر دیکھیں اسلام آباد اور اس کے ظالم موسم سے اکتائے مسافروں کا ردعمل۔