مفاہمت
مولانا فضل الرحمن کا کاررواں بالآخر چل پڑا، کراچی میں شو اگرچہ متاثر کن نہ تھا اور مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کی شرکت علامتی، میاں نواز شریف اور مریم نواز تو خیر ہسپتال میں ہیں اور میاں شہباز شریف تیماری میں مصروف مگر احسن اقبال نے بھی شرکت کی زحمت گوارا نہ کی، محمد زبیر پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کی طرح شلجموں سے مٹی جھاڑنے آئے تھے۔ جھاڑ کر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی چاہتی تو بلاول بھٹو نہ سہی کسی قابل ذکر لیڈر کو نمائندگی کے لئے بھیج سکتی تھی، مگر رضا ربانی آئے، جو پیپلز پارٹی میں ہیں مگر تین میں نہ تیرہ میں، اس بار سینٹ کا ٹکٹ بھی انہیں بلاول بھٹو کی سفارش پر ملا، آصف علی زرداری تیار نہ تھے، ارشد سومرو نے سندھ سے چار لاکھ افراد لانے کا دعویٰ کیا تھا، ان سطور کی اشاعت تک آزادی مارچ کے شرکاء ملتان میں خیمہ زن ہیں اور تعداد جمعیت علماء اسلام تو درکار ان کے مخالفین کے اندازوں سے کہیں کم ہے، تبھی بابا گورونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر کہہ دیا کہ لانگ مارچ کریں یا کچھ اور میں کسی کی بلیک میلنگ میں آئوں گا نہ این آر او دوں گا۔ گویا حکومت کا پرنالہ وہیں ہے، جہاں پہلے تھا۔ میاں نواز شریف کو مگر اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے اب وہ آزاد شہری ہیں اور انہیں یہ ضمانت انسانی و طبی بنیادوں پر ملی ہے۔
این آر او یا ڈیل کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبروں کی تصدیق فی الحال ممکن نہیں، ہر فریق نے زبان پر تالے لگا رکھے ہیں یہی خاموشی قیاس آرائیوں کو جنم دے رہی ہے اور خبر و افواہ میں تفریق مشکل ہو گئی ہے، میاں نواز شریف بیمار ہیں اور پاکستان کے بہترین ڈاکٹر تاحال بے بس نظر آتے ہیں، میاں صاحب کے سیاسی کارکنوں اور مسلم لیگی عہدیداروں کے علاوہ میڈیا میں ان کے خیر خواہ اس بیماری کا ذمہ دار عمران خان، سردار عثمان بزدار اور نیب کو قرار دے کر دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ کوشش ان کی یہ نظر آتی ہے کہ پروپیگنڈے کی سموک سکرین میں شریف خاندان کی طرف سے ایک بار پھر رضا کارانہ جلاوطنی کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے اور کسی ممکنہ درپردہ انتظام و انصرام کو شریف خاندان کی کمزوری، پست ہمتی اور مفاہمت کے بجائے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری یا مودبانہ درخواست اور میاں نواز شریف و مریم نواز کی جوابی فیاضی و خیر سگالی پر محمول کیا جائے۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ شریف خاندان تھکاوٹ کا شکار ہے، آمادۂ مفاہمت اور بیرون ملک روانگی کے لئے بے تاب۔
ڈیل کے لفظ سے عدلیہ کی طرح عمران خان بھی الرجک ہیں۔ گورونانک یونیورسٹی کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ میری زندگی میں کسی کو این آر او نہیں مل سکتا۔ بات سچ ہے، این آر او جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان اور بے نظیر بھٹو خاندان کو دیا تھا، تمام مقدمات واپس، سب کھایا پیا معاف، موجودہ حکومت اور اس کے ساتھ جڑی اسٹیبلشمنٹ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ جس جس کو طبی، انسانی بنیادوں پر ریلیف ملا وہ حصہ بقدر جثہ کے مصداق کچھ نہ کچھ قومی خزانے میں جمع کرائے گا اور زبان و ٹوئٹرطے شدہ عرصہ تک بند رکھے گا، کسی سیاستدان کی بیرون ملک روانگی کے بعد اس کی سیاسی موضوعات پر خاموشی ہی مفاہمت کا بھانڈا پھوڑے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، ڈالر کی قدر میں کمی اور سٹاک ایکسچینج کے کاروبار میں تیزی اس کا کھلاثبوت ہو گی۔ مریم نواز صاحبہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضمانت کی طلب گار ہیں، میری اطلاع کے مطابق نیب ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی، اگر وصولی کے بغیر سزا یافتہ یا نیب کے زیر تحویل فرد کو کسی بھی بہانے چھوٹ ملی تو اس سے احتساب کا عمل ہی مشکوک نہیں ہو گا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ تباہ و بربادہو گی اور اپوزیشن کا یہ پروپیگنڈا درست مان لیا جائے گا کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان پر قائم مقدمات ان کا بازو مروڑنے اور انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے تھے، مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ نے حکومت و اسٹیبلشمنٹ کو اپنا تھوکا چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔
عمران خان کی پوزیشن نازک ہے اس نے 1995ء سے لے کر 2018ء تک کرپشن کے خاتمے، بلا تفریق احتساب، قانون کی حکمرانی، کمزور و طاقتور میں برابری اور لٹیروں سے قومی دولت واپس لینے کے لئے جاں توڑ جدوجہد کی اور قوم بالخصوص نوجوان نسل نے اس کے ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کی، اپوزیشن خلائی مخلوق کی کارستانی قرار دے کر اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کے لئے کوشاں ہے اور نیب، عدلیہ اور حکومت پر دبائو اسی سوچ کا نتیجہ ہے، علانیہ یا خفیہ اربوں ڈالر کی وصولی کے بعد اگر سابقہ حکمرانوں کو ڈھیل ملتی ہے تو یہ عمران خان اور اس کے ساتھ استقامت سے کھڑی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخی کامیابی ہو گی لیکن اگر کسی اندرونی و بیرونی دبائو اور سیاسی مصلحت کے تحت کوئی مفاہمت ہوتی ہے تو یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی بدترین ناکامی اور احتساب کا باب ہمیشہ کے لئے بند کرنے کے مترادف اقدام ہو گا۔ پاکستان میں آئندہ کسی طاقتور اور دولت مند سے قانون باز پرس کر پائے گا نہ کسی ریاستی ادارے کو یہ جرات ہو گی کہ وہ اشرافیہ اور مافیا کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ سکے۔ پرویز مشرف نے جب احتساب کے عمل کو مخالفین تک محدود کیا اور کرپشن کے الزامات میں گرفتار سیاستدانوں کو سرکاری جماعت کا حصہ بنایا تو اخلاقی ساکھ سے محروم ہو گیا اور این آر او کے بعد رسوائی اس کا مقدر بنی ع
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
عمران خان تاریخ کے دوراہے پر کھڑاہے، میاں نواز شریف واقعتاً بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں شفا کاملہ عطا فرمائے، انہیں اندرون و بیرون ملک علاج معالجے کی بہترین سہولتیں ملنی چاہئیں کہ ریاست کا دل ماں کی طرح کشادہ ہوتا ہے اور جذبہ ہمدردی سے معمور، لیکن پلی بارگیننگ یا کسی اور نام سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ انہیں بھی کرنا چاہیے جنہیں اس ریاست نے عزت، شہرت، دولت، اقتدار اوربہت کچھ دیا۔ میاں صاحب کی علالت اور آزادی مارچ کے طفیل اگر ریاست کی رٹ، حکومت و اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ اور عمران خان کی عزت نفس مجروح ہوئی تو یہ گھاٹے کا سودا ہے، میرا نہیں خیال کہ اس وقت کوئی ریاستی ادارہ گھاٹے کا سودا کرنے کے موڈ میں ہے، عمران خان سے بالا بالا کسی مفاہمت کی بیل منڈھے چڑھ سکتی ہے نہ ریاست، سیاست اور معیشت میں استحکام ممکن۔