سول بالادستی کا جنازہ
کان پک گئے تھے یہ سن سن کر کہ وسطی پنجاب اسٹیبلشمنٹ سے سخت شاکی، بہت ناراض ہے، پہلی بار وسطی پنجاب میں بھی فوج کے حوالے سے وہی جذبات جنم لے رہے ہیں جن کا اظہار خیبر پختونخواہ، بلوچستان کے قوم پرست برسوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں، یہ پروپیگنڈا بھی عروج پر تھا کہ پنجاب کے عوام عمران خان کی حکومت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی سے تنگ آ چکے ہیں اگر مسلم لیگ نے جرأت نہ دکھائی تو قیادت کے بغیر شتر بے مہار عوامی تحریک جنم لے گی، جو سب کچھ بہا لے جائے گی۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لاوا پک چکا ہے سیاسی قیادت آگے بڑھ کر اس غصے اور اضطراب کو کوئی مثبت سمت دے ورنہ حالات لیبیا، عراق اور مصر سے بدتر ہو سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ صادق آباد سے راولپنڈی تک تین دن پنجاب میں گزارے، ان کا مارچ جی ٹی روڈ سے گزرا، جس کی نمائندگی کا دعویٰ مسلم لیگ کرتی ہے مگرمجال ہے کہ لاہور، گوجرانوالہ اور گوجر خان سمیت کسی ایک شہر میں شہریوں کی قابل ذکر تعداد عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور مہنگائی بدامنی اور بے روزگاری کے خلاف نعرے لگاتی سڑکوں پر نکلی ہو، لاہور میں تو عوام درکنار مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی اور عہدیدار بھی غائب رہے۔
حد یہ ہے کہ پنجاب کے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ بھی آزادی مارچ کے شرکاء کی تعداد میں قابل قدر اضافہ نہ کر سکے۔ جتنے لوگ مولانا کے ساتھ ملتان میں تھے اتنے ہی لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے اور سارا جی ٹی روڈ مزید لوگوں کی راہ دیکھتا رہا۔ اگر ملک بالخصوص پنجاب کے عوام عمران خان کی حکمرانی اور پالیسیوں سے تنگ ہیں۔ مہنگائی بے رزگاری اور بدامنی نے پیمانہ صبر لبریز کر دیا اور سڑکوں پر نکلنے کی خواہش سے مغلوب تھے تو مولانا فضل الرحمن نے انہیں بھر پور موقع فراہم کیا کہ وہ جگہ جگہ ان کا استقبال کریں۔ جلوس میں شریک ہوں اور دل کا غبار نکالیں، فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے ناراض لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اگر موقع کی تلاش میں تھے تو مولانا نے یہ فراہم کیا مگر صادق آباد سے اسلام آباد تک "عوام" نامی مخلوق کہیں نظر آئی نہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے برہم عناصر۔
پنجاب کیا خیبر پختونخواہ میں بھی عمران خان کے مخالف موجود ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، اے این پی، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے کارکن اور سپورٹر حکومت اور عمران خان سے راضی نہیں، قوم پرستوں کے علاوہ میاں نواز شریف نے بھی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جذبات ابھارے اور پاکستان میں ایک ناراض نسل تیار ہو چکی ہے جو امریکہ اور بھارت کی طرح پاک فوج سے بغض رکھتی ہے لیکن عوام؟ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ نے اس منفی پروپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ بعض دانشور اورتجزیہ کار نجی محفلوں اور ٹی وی پروگراموں میں یہ چورن بیچتے رہے کہ مقتدر قوتیں پنجابی عوام کی ناراضگی کے خوف سے عمران خان اور حکومت سے فاصلے پر ہیں اور جونہی مولانا دھرنے کا اعلان کریں گے وہ بھاگی بھاگی بنی گالہ یا وزیر اعظم ہائوس کا رخ کریں گی۔ وزیر اعظم کو نئے انتخابات یا قومی حکومت کے فارمولے میں سے کسی ایک پر راضی کر کے مولانا کی خدمت اقدس میں عرض گزار ہوں گی کہ حضور! آپ کے مطالبات منظور بس عمران خان کی گرفتاری پر اصرار نہ کریں۔ گزشتہ روز مولانا کے طرح مصرعہ پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو گرہ لگائی اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
مولانا نے تاریخی خطاب میں اپنے علاوہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں بالخصوص اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، حاصل بزنجو کے سول بالادستی کے نعرے کی خوب مٹی پلید کی۔ ان تمام جمہوریت پسندوں نے ہمیشہ سیاسی معاملات میں فوج و آئی ایس آئی کی مداخلت کی مخالفت اور اداروں کو وزیر اعظم یاحکومت کا تابع مہمل بن کر احکامات بجا لانے کی تلقین کی، مگر ان جماعتوں کی قیادت کی موجودگی میں مولانا نے "اداروں " کو مخاطب کیا اور انہیں کہا کہ وہ عمران خان سے دو دن کے اندر استعفیٰ لے کر دیں، ورنہ ڈی چوک جا کر دنگا فساد اوربغاوت سمیت جو قدم ہم اٹھائیں گے اس کی ذمہ داری ہمارے بجائے اُن پر ہو گی۔ فوج اور دیگر اداروں کو سول حکومت کے خلاف اکسانے اور نافرمانی پر آمادہ کرنے کی یہ کوشش سول بالادستی کی طرف پیش رفت ہے یا ووٹ کی رہی سہی عزت کو سرعام پامال کرنے کا غیر جمہوری منصوبہ؟ جواب بلاول بھٹو اور شہباز شریف دے سکتے ہیں یا پھر وہ تجزیہ کار جو مولانا فضل الرحمن کو جمہوریت، شہری آزادیوں اور روشن خیالی کا قطب مینار بنانے پر تُلے ہیں، میاں نوازشریف اور آصف زرداری اقتدار میں ہوں تو آرمی چیف ان کی چاکری کرے مگر عمران خان وزیراعظم ہوتو سول بالادستی کا تقاضا ہے کہ فوج استعفیٰ مانگے، سبحان اللہ۔
آزادی مارچ کے ذریعے وفاقی دارالحکومت میں دینی مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور مذہبی کارکنوں پر مشتمل جو پچاس ساٹھ ہزار افراد جمعہ کے روز اکٹھے ہوئے ان کی اکثریت کا جمہوریت سے کچھ لینا دینا ہے نہ شہری آزادیوں اور روشن خیالی سے دور پرے کا واسطہ، اکثریت ان کی اسلام آباد کا قبضہ یہودیوں اور قادیانیوں کے ایجنٹوں سے چھڑانے آئی ہے مولانا نے ویڈیو پیغام میں عوام کے بجائے تبلیغی جماعت کے کارکنوں اور اپنے ہم مسلکوں کو دھرنے میں شرکت کی دعوت دی اور کہا کہ تبلیغی جماعت کے ارکان حصول ثواب کے لئے اتوار کے روز دعا کے بعد اسلام آباد کا رخ کریں۔ مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں کو بطور شہری سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے اور کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے مولانا کے نزدیک یہی عوام ہیں اور انہی کی رائے ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ووٹوں پر مقدم جو 2018ء کے الیکشن میں عمران خان اور تحریک انصاف کو ملے لیکن عوام کی اکثریت مولانا سے متفق نہ ان کے نظریات اور تصورات کی حامی۔ پاکستان میں شیعہ سنی، بریلوی، دیوبندی مناقشت ہمارے دشمنوں کی دیرینہ خواہش ہے اور پاک فوج و عوام کے مابین تصادم کے لیے امریکہ و بھارت عرصہ دراز سے کوشاں کہ صرف اسی صورت نیوکلیئر اسلامی ریاست خدانخواستہ عراق، شام، لبنان، افغانستان اور لیبیا کی طرح عدم استحکام اور انتشار سے دوچار ہوسکتی ہے۔ چودھری نثار علی خان وزیر داخلہ کے طور پر ایک عالمی منصوبے کا انکشاف کر چکے ہیں جو پاکستان کو بنانا ری پبلک بنانے کے لیے تشکیل پایا اور جس کا علم ان کے بقول نوازشریف سمیت صرف دو چار افراد کو ہے، مولانا اگر دھرنا کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہائوس، وزیراعظم ہائوس اور دیگر سرکاری عمارتوں کی طرف پیش قدمی اور عمران خان کے زبردستی استعفے کے لیے آمادہ فساد کرتے ہیں تو انارکی پھیلے گی اور پاکستان مخالف قوتوں کو اپنا منصوبہ آگے بڑھانے میں آسانی ہوگی لہٰذا حکومت محض اپنی جمہوریت پسندی ثابت کرنے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے فی الفور اقدامات کرے۔ مذاکرات پہلا قدم اور ناکامی کی صورت میں بلاتاخیر فتنہ و فساد سے نمٹنے کی تدبیرناگزیر آخری کاوش۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کا کوئی حصہ اس سازش میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ شریک جرم ہے تو اس کی نشاندہی میں تاخیر نقصان دہ ہوگی۔ بظاہر امکان نظر نہیں آتا مگر مولانا کے اعتماد کے پیچھے جھانکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مذاکراتی ٹیم پر بھی نظررکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کا کوئی رکن دوغلا تو نہیں۔ مولانا نے حکومت کو الٹی میٹم دے کر اپنے سادہ لوح کارکنوں کو امتحان میں ڈالا، خود بھی آزمائش سے دوچار ہیں۔ حکمت و دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ باعزت واپسی کا راستہ تلاش کریں۔ تصادم و محاذ آرائی ان کے مفاد میں ہے نہ ملک و جمہوریت کے حق میں۔ سسٹم کی بساط لپیٹنے کا ارادہ ہے تو جناب کی مرضی، لیکن پھر ان کی اور اتحادیوں کی خیر نہیں، جرم و سزا کے فیصلے پھر برسوں میں نہیں دنوں اور ہفتوں میں ہوں گے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ۔