Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Ijaz Ul Haq
  3. Liaqat Ali Khan Ko Dora e Moscow Ki Dawat, Aik Moamma

Liaqat Ali Khan Ko Dora e Moscow Ki Dawat, Aik Moamma

لیاقت علی خان کو دورہ ماسکو کی دعوت، ایک معمہ

16 اکتوبر 1951ء ہماری ملکی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس سے ہم نے سبق نہیں سیکھا اور مسلسل سیاسی نقصان اٹھاتے چلے گئے آج سے 63سال قبل 16 اکتوبر کو قائد ملت جناب لیاقت علی خان راولپنڈی میں ایک بھرے جلسے میں گولی مار کر قتل کر دیے گئے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ان کی خدمات، مسلم لیگ کے لیے ان کی محبت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ لیاقت علی خان پاکستان کے استحکام کے لیے اتنے ہی اہم تھے جیسے قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی تشکیل میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔

وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم صرف اس لیے نہیں بنے کہ وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی قابل اعتماد آنکھ اور دماغ تھے بلکہ تقسیم ہند سے قبل عبوری حکومت میں مسلم لیگ کے حامیوں کی قیادت کرنے میں اپنی ثابت قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اس منصب پر فائز ہوئے انہوں نے اپنی تمام جائیداد ہندوستان میں چھوڑ کر ایک دعوی دائر کرنے سے انکار کر دیا جس کا وہ بطور مہاجرین، حق دار تھے پاکستان بن جانے کے بعد انہوں نے اپنا معیار زندگی کم کر دیا اور نئے ملک میں ادارے بنانے کا مصمم ارادہ باندھ لیا مسلم لیگ میں اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی نظروں میں یہی ان کا میرٹ تھا پاکستان کے اب تک کے سیاسی سفر میں جب ہم اپنے وزرا اعظم پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں کہیں بھی لیاقت علی خان جیسے کوئی ایک بھی وزیر اعظم نظر نہیں آتے، وہ واقعی اپنی سیاسی اور انسانی خوبیوں میں یکتا تھے اس لیے انہیں اپنی نا گہانی وفات کے بعد کسی بھی مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات سے نہیں گزرنا پڑا وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مخلص ساتھیوں میں تھے ملک کے لیے ان کا سیاسی کردار ہی اصل میں ان کی دولت تھی البتہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کے متعدد فیصلے تاریخ کا حصہ میں دو بنیادی سوالات ہیں جن کے جواب کی تلاش آج بھی جاری ہے تاریخی حوالہ ہے کہ 3مئی 1948ء کو جب یہ اعلان کیا گیا کہ یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس (USSR)اور پاکستان سفیروں کا تبادلہ کریں گے۔

اس موقع پر لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کی یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہوں اور روس کے ساتھ سفیروں کے تبادلے کا فیصلہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا دورہ امریکہ روانہ ہونا اور دورہ روس نہ جانا آج بھی ایک سفارتی معما بنا ہوا ہے متعد د حوالے ایسے بھی ہیں کہ انہیں ماسکو آنے کی دعوت ایک سال بعد 2جون 1949ء کو ایران میں سوویت سفیر کے ذریعے موصول ہوئی۔

اس کے بعد روس نے اصرار کیا کہ ان کے دورے سے قبل سفیروں کا تبادلہ کیا جائے اگر چہ انہیں اس وقت کے وزیر خارجہ نے یہ قدم اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا یوں پاکستانی سفیر کی تقرری 31 دسمبر 1949ء کو ہوئی تھی جبکہ سوویت سفیر کی تقرری 22مارچ 1950ء کو ہوئی تھی اسی طرح جون 1949ء میں سوویت یونین نے دعوت نامے کی تاریخ کو 20اگست سے 14اگست تک بڑھادیا تھا۔

لیاقت اس تاریخ سے متفق نہیں ہو سکے کیونکہ یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے انتقال کے بعد پاکستان کا پہلا یوم آزادی تھا۔ اس کے بعد امریکہ کی طرف سے دعوت نامہ آیا اور لیاقت مئی 1950ء میں وہاں سے چلے گئے یہ سب کچھ واقعات مختلف لوگ مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں اور سب کے اپنے اپنے دعویٰ ہیں اور حوالے بھی دئیے جاتے ہیں یہ تمام سوالات ہیں جن کے جواب آج کی نوجوان نسل بھی چاہتی ہے کہ حقائق سامنے آئیں، بہتر یہی ہے کہ ملکی پارلیمنٹ کوئی ایک ایسی راہ اپنائے کوشش کرے کہ ایسی مصدقہ تاریخ مرتب کر لی جائے جس سے ہماری آئندہ کی نسلوں کو بھی مستفید تاریخ متفقہ اور مصدقہ دستاویز قرار پائے اب تاریخی حوالہ تو یہ بھی ہے کہ جناب لیاقت علی خان نے امریکہ جاتے وقت سوویت دعوت کا ذکر کیا، پھر ایک سال بعد، انہوں نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس پوزیشن کی وضاحت کی کہ میں اس وقت تک ماسکو نہیں جا سکتا جب تک کہ وہ لوگ جنہوں نے مجھے مدعو کیا ہے وہ ایک تاریخ طے کرکے مجھے مطلع نہیں کرتے کہ دعوت نامہ آ گیا ہے یہ بھی تاریخ سے ہی حوالہ ملتا ہے کہ اس دورے کے لیے 14اگست 1949ء کی تاریخ تجویز کی گئی تو اس پر وز یر اعظم لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ یہ ہمارا یوم آزادی ہے۔ میں اس کے بعد کسی بھی دن آسکتا ہوں۔

اس کے بعد انہیں کوئی جواب نہیں ملا، بہر حال ماسکو کے دورے کی دعوت ایک حقیقت تھی یا افسانہ ہماری پارلیمنٹ کو اس بارے میں ضرور تحقیقی عمل سے گزر کر ایک مصدقہ دستاویز جونوجوان نسل کے سامنے رکھنی چاہیئے ہمارے ایک نہایت زیرک سفارت کار گزرے ہیں جناب ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی وہ اپنی کتاب "ڈپلومیٹس اینڈ ڈپلومیسی میں لکھتے ہیں کہ ایسی کوئی دعوت نہیں ملی تھی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان نیا نیا بنا تھا عالمی دنیا کے ساتھ تعلقات میں جس قد راحتیاط کی ضرورت تھی وہ اختیار کی جارہی تھی، آج بھی تو ہم ابھی تک ایسی ہی ملتی جلتی کیفیت سے گزر رہے ہیں، ہم امریکی بلاک میں ہیں نہ روسی نہ چینی بلاک میں، جس طرح دنیا سفارتی تعلقات کے لیے اپنا ایک پیمانہ بنائے بیٹھی ہم بھی اپنا ایک پیمانہ رکھتے ہیں، ہمارا پیمانہ ہے کہ ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور نہ یہ برداشت کرتے ہیں کہ کوئی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے، رہ گئی بات سفارتی تعلقات کی تو ہم تمام چھوٹے بڑے ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں، کشمیر اور فلسطین پر ہمارا موقف شروع دن سے واضح ہے البتہ سفارتی تعلقات کے لیے مسلم ممالک مسلم امہ ہماری اولین ترجیح ہے جب بھی ہم لیاقت علی خان کا ذکر کریں گے اور انہیں یاد کریں گے تو ہم ایک ایسی دستاویز کو بھی ذہن میں رکھیں گے جو دستور ساز اسمبلی میں ان کی تقریر ہے یہ تقریر انہوں نے 7مارچ 1949ء کو کی تھی ایک کریڈٹ ہے جو ان سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا کہ انگریزوں نے 1857ء سے فوجیوں کی بھرتی کے لیے کچھ معیارات نافذ کیے تھے لیکن لیاقت علی خان نے انہیں ختم کرکے پاک فوج میں بنگالیوں کو شامل کرنا شروع کر دیا۔

اسی طرح مشرقی پاکستان سے صرف ایک آئی سی ایس آفیسر نور نبی چودھری تھے۔ لیاقت علی خان نے فوری طور پر برابری پیدا کرنے کے لیے مشرقی بنگال کے سرکاری ملازمین کے لیے 50فیصد کوٹہ مقرر کیا، آکر میں صرف یہی کہوں گا کہ لیاقت علی خان پر تنقید کرنے والے بچ گئے لیکن لیاقت علی خان نہ بچے ان کی موت ایسے حالات میں ہوئی جس نے کبھی کسی کو اصل قاتل یا قاتلوں کی نشاندہی کرنے کی سمت تک نہیں دکھائی۔

Check Also

D Chowk Amwat, PTI Ka Party Muaqaf

By Haider Javed Syed