شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد (6)
آگے بڑھنے سے قبل دو تین اہم خبروں کی جانب پڑھنے والوں کی توجہ دلانا ضروری ہے۔ اولاً یہ کہ ہئیت التحریر الشام میں پاکستانی جنگجو بھی شامل ہیں جامعہ بنوریہ کراچی کے ایک مبینہ جنگجو طالب علم نے دمشق کی اموی مسجد میں کھڑے ہوکر اپنے استاد (جنہیں وہ شیخ کے طور پر مخاطب کررہا ہے) کے نام پر ویڈیو پیغام میں گیارہ بارہ دن کی جنگ اور فتوحات کی مختصر کہانی سنائی ہے۔
ثانیاً یہ کہ بدھ اور جمعرات کو ہئیت التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے اعلان کے برعکس مسلح جنگجوئوں نے امام علیؑ کے خانوادے کی بعض شخصیات کے مزارات پر شرپسندانہ طرزعمل اختیار کیا اس طرز عمل کی سامنے آنے والی ویڈیوز مستقبل کی خانہ جنگی کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔
اسی دوران " ہئیت التحریر الشام " کے علاقائی سرپرست ترکیہ کے انٹیلی جنس چیف سخت سکیورٹی کے حصار میں دمشق پہنچے جہاں انہوں نے محمد الجولانی اور دیگر لوگوں سے تفصیلی ملاقات کی۔ ثالثاً مسلح جنگجوئوں نے گزشتہ سے پیوستہ شب شام کے ایک مرحوم صدر اور بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی قبر پر بنی عمارت کو گراکراسے نذر آتش کردیا۔
ان خبروں کے بیچوں بیچ یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ بشار الاسد کے دور میں 2015ء سے 8 نومبر 2024ء کے درمیان ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا یہ خبر بنیادی طور پر ایک غیرمعروف نیوز ویب سائٹ کی ہے بعض خبر رساں ایجنسیوں نے حوالے کے بغیر خبر جاری کی اس کے باوجود گرفتاریوں سے انکار ممکن نہیں کیونکہ شخصی آمریت میں "سب چلتا" ہے۔
گزشتہ روز دمشق سے ایک 10 برس کے بچے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے دعویدار ہے کہ وہ 14برس قبل جیل میں ڈالے گئے اپنے والد کی تلاش میں ہے۔ صحافیوں کے اس سوال پر کہا تمہاری عمر کیا ہے؟ اس نے جواب دیا 10 برس۔
بالائی سطور کی تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ کامیاب مسلح بغاوت کے اگلے مناظر ایسے ہی ہونا تھے وجہ یہی ہے کہ بغاوت خالص فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوئی اور اس کی سرپرستی کرنے والوں کے لئے بشار الاسد کا کانٹا نکالنا اہم تھا۔
ان خبروں تجزیوں اور نتائج کے ساتھ گزشتہ دنوں کے حالات پر مزید بات کرنے سے قبل ہم "بعث پارٹی اور الاسد خاندان) والے موضوع کی جانب پلٹتے ہیں۔
جدید دور کا شام 20ویں صدی کے شروع تک عثمانی خلافت کی سلطنت کا حصہ رہا 1918ء میں فرانسیسی اور برطانوی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عثمانی خلافت سے "آزاد" حکومت قائم ہوئی بعدازاں فرانس اور برطانوی اختلافات کے باعث شام پر فرانسیسی تسلط مستحکم ہوگیا۔
شام میں آبادی کے تناسب کے حوالے سے گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا آبادی کے تناسب کی صورتحال تقریباً وہی ہے البتہ 82 فیصد سنی مسلم آبادی والا دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ 18 فیصد علوی ہیں 7 فیصد شیعہ اثناء عشری، 3 سے 5 فیصد مسیحی۔ اس طرح یہ تین طبقے مجموعی طور پر 28 سے 30 فیصد بنتے ہیں باقی ماندہ 72 یا 70فیصد کے لئے سنی مسلمان ہونے کی شناخت کو قبول کرتے وقت صوفی سنیوں اور سلفیوں (ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے متاثرین) کا تناسب طے کرتے ہوئے ساڑھے 3 فیصد شافی مسلک کے پیروکاران کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
ہم آگے بڑھتے ہیں پہلی جنگ عظیم کے عرصے میں سلطنت برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف لڑائی میں شام کے قوم پرستوں کی حمایت کی یہ الگ بات ہے کہ قوم پرستوں کے مقاصد کو اس وقت دھچکا لگا جب 1920ء میں لیگ آف نیشنز نے شام اور لبنان پر فرانس کا تسلط تسلیم کرلیا (یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے نام سے قائم ادارے سے قبل ممالک کی عالمی تنظیم کا نام لیگ آف نیشنز تھا)
1918ء میں قائم کی گئی فضیل بن حسین کی قومی حکومت کے عرصہ میں شام میں لبنان اور موجودہ مملکت اردن کے علاوہ فلسطین کے کچھ حصے بھی شامل تھے۔ 1921ء میں شام کے اس نئے جغرافیہ کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں شامی سرحد محدود ہوگئی۔ شام کی اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں علاقے میں کئی قوم پرست تحریکوں نے جنم لیا۔
1932ء میں پہلی بار شام کی آزادی کا اعلان ہوا تو اس موقع پر فرانسیسی استعمار کی ہٹ دھرمی اور جنگی پالیسی حتمی آزادی کی راہ میں حائل ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس جیسی عالمی سامراجی قوتیں معاشی بدحالی کا شکار ہوئیں تو شام کو آزادی دینے کا فیصلہ ہوا۔ بالآخر 17 اپریل 1946ء میں شام ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر آگیا۔
بدقسمتی کہہ لیجئے کہ آزادی کے بعد شام کے اندر شروع ہوئی قبائلی بالادستی کی کشمکش اور فرقہ پرستوں کی جانب سے حصہ وصول کرنے کی کوششوں کی وجہ سے کوئی مستحکم اور دیرپا حکومت قائم نہ ہوسکی۔ اس مرحلہ پر نیشنل بلاک، سیرین سوشل نیشنل پارٹی، عرب لبریشن موومنٹ اور نیشنل یونین نامی تنظیموں کی حکومتیں بنتی گرتی گرائی جاتی رہیں۔ شام اور مصر چند برس مشترکہ اتحاد کی صورت میں بھی رہے یہ اتحاد جمال عبدالناصر کے عرب نیشنل ازم کا نتیجہ تھا مگر یہ مستقل نہ ہوسکا۔ 1961ء میں شام مصر کے ساتھ بنے اتحاد سے الگ ہوگیا۔
1963ء میں فوج نے صدر ناظم ال قدسی کی حکومت کا تختہ الٹا اور حکومتی امور چلانے کے لئے انقلابی کمانڈ کونسل (NCRC) قائم کی اس کونسل نے لوائے اوتاشی کو شام کا صدر مقرر کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ملٹری کمیٹی نے ان سے استعفیً لے کر بعث پارٹی کے امین الحفیظ کو صدارت سونپ دی۔
امین 27 جولائی 1963ء سے 23 فروری 1966ء تک شام کے صدر رہے بعدازاں وہ پارٹی کی نیشنل کمانڈ کا اعتماد کھودینے پر صدارت سے الگ کردیئے گئے اس کی جگہ نورالدین العطاشی کو صدارتی اختیارات سونپ دیئے گئے۔
نومبر 1970ء تک صدر رہنے والے العطاشی بھی شام کے اصل حکمران آرمی چیف صالح جدید کے "دل سے اتر" گئے۔
1966ء سے 1970ء تک شام میں اقتدار اقتدار کھیلنے والے صالح جدید (آرمی چیف) کو دھچکا اس وقت لگا جب نومبر 1970ء میں العطاشی دور حکومت کے وزیر دفاع جنرل حافظ الاسد نے فوجی بغاوت کی قیادت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل حافظ الاسد نے ابتداً خود کو وزیراعظم بنایا لیکن مارچ 1971ء میں انہوں نے ازخود صدر کا منصب سنبھال لیا۔
ان کے دور میں اخوان الشام (اخوان المسلمین کی شامی شاخ) کی سخت گیر مسلح جدوجہد شروع ہوئی۔ 1976ء سے 1982ء کے دوران حافظ الاسد کو متعدد بغاوتوں اور مسلح مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ ان پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔
حافظ الاسد کے دور میں ہی ان کے ہم عقیدہ علوی مسلمان بعث پارٹی، فوج اور حکومت میں نہ صرف بڑی تعداد میں آئے اور اپنی پوزیشن مستحکم کی مگر یہ یاد رکھنا ہوگا کہ علویوں نے شام میں عثمانی خلافت پھر برطانوی و فرانسیسی تسط کے عرصے میں اپنا وزن قوم پرست تحریکوں کے پلڑے میں ڈالے رکھا۔
آگے چل کر جب سوشلسٹ نظریات کی حامل "بعث پارٹی" قائم ہوئی تو اپنے سماجی سیکولر رویوں کے باعث وہ اجتماعی طور پر بعث پارٹی کا حصہ بن گئے۔ علویوں کی فوج میں تناسب سے زیادہ نمائندگی حافظ اسلاد کے دور میں نہیں بلکہ اس کا سلسلہ صدر ناظم ال قدسی کے دور سے شروع ہوا جب علویوں نے فوجی ملازمتوں کو اپنے تحفظ کا مضبوط ذریعہ سمجھا۔
شام میں علوی مسلمان کہلانے والے علوی تقریباً 18 فیصد ہیں ان کے عقائد نصہریوں سے ملتے ہیں یا یہ خود نصیہری عقائد رکھتے ہیں البتہ سماجی طور پر ان کا جھکائو ہمیشہ اثناء عشری شیعوں کی طرف رہا اس لئے عمومی طور پر انہیں باقی ماندہ مسلم دنیا میں اہل تشیع کا ایک فرقہ سمجھا گیا۔
دوسری جانب اثناء عشری شیعہ مجتہدین علوی عقائد سے ہمیشہ برأت کا اظہار کرتے آرہے ہیں البتہ شام میں بشارالاسد اور قبل ازیں ان کے والد حافظ الاسد کے 30 سالہ دور میں 5 سے 7 فیصد اثناء عشری شیعوں پر عراقی بعث پارٹی اور صدام حسین دور جیسے مظالم ہوئے نہ ہی انہیں ریاستی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
خانوادہ رسالت مآبﷺ کی جن محترم ہستیوں کے مزارات شام میں ہیں ان کی جدید تعمیر کا سلسلہ نورالدین العطاشی کے دور سے شروع ہوا اور حافظ الاسد کے دور میں پابندیوں کے بغیر جاری رہا۔
مرحوم حافظ الاسد اپنے علوی ہونے کا اقرار کرنے سے کبھی چیں بچیں نہیں ہوئے۔ البتہ ان کے صاحبزادے بشارالاسد نے ایک سے زائد مواقع پر خود کو صوفی سنی مسلمان کے طور پر پیش کیا اور اسی پر مُصر ہوئے اس شخصی اقرار کے باوجود ان کے سیاسی مخالفین نے ان پر علوی ہونے کی پھبتی کسی اور ان کے دور میں ہونے والی گزشتہ دو بغاتوں کی طرح تیسری حالیہ کامیاب بغاوت کو بھی علویوں کے تسلط کے خاتمہ اور غلبہ اسلام کے طور پر پیش کیا گیا۔
جاری ہے۔۔