Chacha Chela Ram
چاچا چیلا رام
ڈیرہ نواب صاحب کے جدید بازار کے اختتام پر نواب امیر آف بہاولپور نے ایک خوبصورت گول چکر (چوک) بنوایا ہوا تھا۔ جس کے درمیان میں ایک سنگ مرمر کا فوراہ بھی نصب تھا۔ چاروں جانب خوبصورت پھلواری کی بہار ہوتی تھی۔ اسکے مشرقی جانب ایک بہت ہی پرانہ اور گھنا بوہڑ کا سایہ دار درخت ہوا کرتا تھا۔ جس کے نیچے گرمیوں میں مقامی لوگ اور مسافر بیٹھتے تھے۔
مغربی جانب ایک خوبصورت چھوٹی سی مسجد تھی۔ اس چوک سے ایک مشرقی سڑک قدیم محل، ڈاک خانہ اور صادق گڑھ پیلس کی جانب جاتی تھی۔ مغربی سڑک کربلا کی جانب اور شمالی سڑک نور منزل یا مہمان خانے کے اندر جاتی تھی۔ یہ وہی تاریخی شاہی مہمان خانہ تھا۔ جہاں دنیا بھر کی عظیم شخصیات بطور مہمان ٹھہرا کرتی تھیں۔ اس کے انچارج شیخ ہدایت اللہ مرحوم ہوا کرتے تھے اور جنوب میں بڑا خوبصورت جدید بازار ہوا کرتا تھا۔
کربلا، ٹبی مہاجراں، ٹبی مراثیاں اور قبرستان احمد خان شہید کی جانب جانے والی سڑک کے ساتھ ہی شہر کے واحد معالج ڈاکٹر محمد حسین بدر مرحوم کا کلینک تھا۔ جو ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کی ایک بڑی روحانی شخصیت اور بےشمار دینی اور تاریخی کتب کے مصنف بھی تھے۔ ان کے برابر میں محمد دین قصائی اور اللہ بخش ہوٹل والا ہوتا تھا۔ ان دوکانوں کے آگے جوتی مرمت کرنے والے کئی موچی ایک قطار میں اپنے اپنے ٹاٹ بچھاے اور ڈبے رکھے براجمان تھے۔ جن میں سے اکثریت ہندو وں کی تھی۔ انہیں مڑیچے (ملیچھ) بھی کہا جاتا تھا۔ ان میں سے ہی ایک مشہور ہندو چیلا رام رام ہوا کرتا تھا۔ جو اس ہندو برادری کا سربراہ اور بڑا سر پنچ سمجھا جاتا تھا۔
ہمارے اباجی کہتے تھےکہ ہمارے اردگرد ہماری خدمت اور ہمارے کام کرنے والے افراد ہمارا اثاثہ ہیں ان کے ساتھ عزت سے پیش آیا کرو اور انہیں عزت سے پکارا کرو اس لیے ہم سب بچے اسے احترام سے چاچا چیلا رام کہہ کر پکارتے تھے۔ چاچا چیلارام تھا تو ہندو مڑیچہ اور ایک موچی لیکن اس کی شخصیت بڑی بارعب اور وضع دار ہوا کرتی تھی۔
صاف ستھرے ہندوانہ کپڑے، سر پر روائتی پگڑی، پیروں میں سادہ کھوسہ اور اسکی چھوٹی مگر نوکیلی روائتی مونچھیں اس کی شخصیت کو سب سے منفرد کردیتی تھیں۔ شہر میں وہ اپنی ہندو اقلیت کی نمائندگی کرتا تھا۔ اسی لیے ہمارے اباجی مرحوم نے ان کی قوم اور ملک سے محبت اور بے مثال خدمات کی وجہ سے ضلعی امن کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کیا تھا۔ ہمارے شہر کے صرف ہندو ہی نہیں مسلمان بھی اس کا احترام کرتے تھے۔
پورے شہر میں کسی کو کسی ہندو مڑیچے سے کوئی شکایت ہوتی تو وہ فوری طور پر چاچا چیلارام کو شکایت کرتا جس کا چیلا رام فوری نوٹس لیتا اور اس شکایت کا فوری ازلہ بھی کرتا تھا اور بعض اوقات انہیں سب کے سامنے سزا بھی دیتا اور اسکی جانب سے خود بھی معافی مانگتا اور اگر کوئی مسلمان کسی مڑیچے سے زیادتی کرتا تو چیلارام زبردست احتجاج کرتا اور مجبوراََ اس مسلمان کو بھی معافی مانگنی پڑتی تھی۔ شہر میں آپس کی اس محبت اور باہمی خلوص کا رشتہ بےحد مضبوط بنانے میں چیلا رام کا نمائیاں کردار تھا۔
ایک مرتبہ ایک ہندو نوجوان مڑیچے نے ایک مسلمان دوکاندار کی معمولی سی چوری کرلی جب پکڑا گیا تو اسے چیلا رام کے پاس لایا گیا کیونکہ وہ ہندو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اس لیے جرم ثابت تھا۔ چیلا رام نے چوک میں ہی اپنا کھسہ اتارا اور سب کے سامنے اس کو مارنا شروع ہوگیا اور ساتھ ساتھ کہتا کہ ایک ہندو چوری کرے تو سارے ہندو بدنام ہوتے ہیں۔ تو نے ہمیں اور ہمارے دھرم کو مسلمانوں کے سامنے شرمندہ کرادیا ہے۔ پورا ہجوم دیکھ رہا تھا اور وہ چور معافی مانگ رہا تھا۔ سب نے چیلارام کو کہا بس کرو یہ سزا بہت ہے۔ اب اسے معاف کردو تو وہ بولا نہیں اس نے ہمارے دھرم کو بدنام کیا ہے۔ آئندہ ہم ہندوں کا اعتماد کون کرے گا؟ جب تک وہ معاف نہ کرے جس کی اس نے چوری کی ہے یہ آئندہ ہماری بستی میں نہیں گھس سکتا۔ آج سے ہمارا اس سے حقہ پانی بند ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑی سزا سمجھی جاتی تھی۔ ایک ہفتے تک وہ چور مڑیچہ دربدر پھرتا رہا۔ چیلارام نے اسے اپنی بستی اور گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا۔ جس پر علاقے کے مسلمان معززین اکھٹے ہوے اور اسکی معافی کے لیے چیلا رام کو سفارش کی لیکن چیلا رام ٹس سے مس نہ ہوا۔ مدعی دوکاندار نے خود آکر چیلا رام کو یقین دلایا کہ وہ اسے معاف کرچکا ہے۔ اس کے باوجود چیلارام نے مدعی کا نہ صرف نقصان پورا کیا بلکہ خود بھی اس سے معذرت طلب کی تھی۔
وہ ہمیشہ صلح اور امن کی بات کرتا تھا شاید ایسے ہی خوبصورت کردار ہوتے تھے جن کی باعث ہمارا یہ چھو ٹا سا شہر ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی اور امن و آتشی کا گہوارہ رہا ہے۔ وہ خود تعلیمیافتہ نہ تھا مگر اپنی قوم کے بچوں کو پڑھانے کا عزم رکھتا تھا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ کسی فلاسفر سے کم نہ تھا۔ وہ بڑی گہری سوچ اور سمجھداری کی بات کرتا تھا۔ عاجزی اور انکساری کی دولت سے مالا مال یہ شخص کسی کا بھی دل موہ لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اپنی کمیونٹی کی پنچایت میں اسکے فیصلے ہمیشہ مثالی ہوتے تھے۔
کہتے ہیں کہ مذہب کی قید سے آزاد اچھی سوچ اور خوبصورت عمل انسان کی شخصیت بدل دیتا ہے اور خوبصورت اخلاق انسان کی زندگی میں انقلاب لے آتے ہیں۔ چیلا رام مذہبی ہم آہنگی اور باہمی امن کا داعی تھا۔ ہمیشہ تمام مسالک اور مکتبہ فکرکے اجتماعات میں اپنے طبقے کی جانب سے بھرپور نمائندگی کرتا تھا۔ عید ہو یا بقر عید، محرم ہو یا عید میلادالنبی کا جلوس یا جلسہ وہ ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا۔ اسی لیے ہمارے اباجی کی شفارس پر اسے شہری امن کمیٹی کا ممبر بھی نامزد کیا گیا تھا۔ بلدیاتی نظام کے تحت وہ میونسپل کمیٹی میں اقلیت کا نمائندہ بھی تھا۔
میرے اباجی لفٹیننٹ (ر) محمد ایازخان مرحوم کے ساتھ اس کا بڑا تعلق ہوا کرتا تھا۔ چیلارام ان کے ہمراہ تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں آگے آگے نظر آتا تھا۔ اسکی سماجی خدمات کے پیش نظر اسے پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کی جانب سے نواب امیر آف بہاولپور نے خصوصی طلائی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ وہ پاکستان اور ریاست بہاولپور سے بہت والہانہ محبت کرتا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں چیلارام کے جذبات بھی تمام پاکستانیوں کی طرح بہت بلند تھے۔
مجھے یاد ہے اس نے اپنی اقلیتی برادری کی جانب سے دفاعی فنڈ میں ایک بڑی رقم جمع کرکے دی اور روزآنہ اپنی آمدنی سے ایک دس پیسے کا سکہ اس دفاعی فنڈ کے ڈبے میں ڈالتا جس پر درج تھا کہ دس پیسے میں افواج پاکستان کے لیے ایک ٹینک خریدیں۔ وہ رات آٹھ بجے کی جنگی خبریں میاں مقصود مرحوم کی دوکان پر کھڑے ہو کر سنتا اور جب پاکستانی افواج کی کسی کامیابی کی خبر آتی تو سب کے ساتھ پاکستان زندہ آباد کا نعرے لگاتا۔ جب چھاتہ بردار فوج اترنے کی خبریں گرم تھیں تو یہ اور اسکی قوم کے نوجوان مسلمان نوجوانوں کے ہمراہ راتوں کو جاگتے اور پہرہ دیتے تھے۔
ہمارے اباجی جب ہندوستان میں جنگی قیدی رہے تو اس دوران چاچا چیلا رام لگاتار ہماری خریت معلوم کرنے آتا تھا۔ رمضان المبارک کے دوران گو ہندو روزے تو نہیں رکھتے تھے لیکن چاچا چیلا رام روزے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی ہندو برادری کو بھی روزے دوران سرعام کھانے پینے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ اپنی اقلیتی برادری کی فلاح وبہبود کے ان کی خدمات بھی تاریخی ہیں۔ اپنی بستی تک سولنگ سڑک بنوائی اور پوری بستی صفائی ستھرائی کو مثالی بنایا۔ اس نے اپنی برادری کے بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کیا اور ساتھ ساتھ دوسرے ہنر سیکھنے کی بھی ترغیب دی۔
ہمارے ساتھ بہت سے ہندو بچے پڑھتے تھے اور پوزیشن بھی حاصل کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقے کے ہندو آج جوتیاں گانٹھنے کا کام کرتے نظر نہیں آتے بلکہ مختلف شعبہ جات میں کاروبار کرتے اور باعزت کام کرتے نظر آتے ہیں اور بیشتر ہنر مند مثلاََ پلمبر، الیکٹریشن، باربر، ویلڈر، ڈرائیور، موٹر سایکل مکینک، آٹو الیکٹریشن، کارپینٹرز اور موٹر مکینک آج اسی ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
بےشک ہمارے علاقے کے اقلیتی لوگوں کے لیے ان کی خدمت ناقابل فراموش ہیں۔ اقلیت کا حصہ ہونے کے باوجود چیلا رام جیسے تعمیری، سمجھدار اور صلح کن لوگ ہمارے معاشرہ میں سدھار پیدا کرنے کے لیے کس قدر ضروری ہیں اس کا احسا س مجھے ہمیشہ اس وقت بڑی شدت سے ہوتا ہے جب ملک میں کہیں بھی اقلیتوں کے ساتھ کوئی ناخوشگوار حادثہ یا واقعہ پیش آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کا قحط ہو چکا ہے۔
روائتی محبتوں اور وضعداری کے یہ امین اب نایاب ہوچکے ہیں۔ جو ہمارے معاشرے کی اصل خوبصورتی اور شان ہوا کرتے تھے۔ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو آج چاچا چیلا رام جیسے محب وطن ہی لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔ بےشک کردار ہی انسان کا حسن ہوتا ہے جس پر کبھی زوال نہیں آتا۔