Kya Dunya Teesri Aalmi Jang Ka Tamasha Dekhne Ko Tayyar Hai?
کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کا تماشا دیکھنے کو تیار ہے؟
مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ دیکھیں تو ایک واضح کہانی نظر آتی ہے۔ طاقتور ملک، اپنے مفادات کے لیے، کمزور ریاستوں کو کھیل کا میدان بنا دیتے ہیں۔ اسرائیل، جو خود کو مظلومیت کی چادر میں لپیٹے ہوئے ہے، دراصل ایک ایسا کھلاڑی بن چکا ہے جو صرف جیتنا جانتا ہے، چاہے اس کے لیے پورا میدان ہی کیوں نہ جلا دیا جائے۔ غزہ اور لبنان میں تباہی کی داستانیں لکھنے کے بعد اب وہ مزید آگے بڑھنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے کون روکے گا؟ امریکہ؟ وہی امریکہ جو ہر قرارداد کو ویٹو کرکے اسرائیل کو "آزاد ہاتھ" دے دیتا ہے؟
یہی امریکہ ہے جو ایک طرف انسانی حقوق کا علمبردار بنتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے ہر اقدام کو جائز ٹھہراتا ہے۔ جب بھی اسرائیل کو روکنے کی بات آتی ہے، امریکہ اپنے پرانے مؤقف پر واپس چلا جاتا ہے: "اسرائیل کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے"۔ یہ تحفظ صرف زبانی نہیں، بلکہ اربوں ڈالر کی امداد اور جدید ترین ہتھیاروں کی شکل میں بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے دنیا کو "امن" کا خواب دکھایا تھا، اب دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا پچھلا دور صدرات اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ صرف جنگ کو طول دینا جانتے ہیں، ختم کرنا نہیں۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا اور اسرائیل کو ایران پر حملے کی ترغیب دینا ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کبھی ختم ہوگا؟ شاید نہیں، کیونکہ اسرائیل کے مفادات کے لیے اس خطرے کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ ہے۔ حالیہ دنوں میں جب ایران نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے جواب میں اسرائیل پر میزائل داغے، تو اسرائیل نے فوری طور پر جوابی کارروائی کی۔ ٹرمپ نے اس موقع پر ایک بار پھر اپنی غیر ذمہ دارانہ پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہیے۔
یہی وہ سوچ ہے جو مشرقِ وسطیٰ کو مسلسل غیر مستحکم کر رہی ہے۔ طاقتور ممالک جنگ کو ہوا دیتے ہیں اور کمزور ممالک اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ شام اس کی ایک واضح مثال ہے۔ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی خانہ جنگی کا شکار ہے، اب ایک نئے تصادم کے دہانے پر ہے۔ روس، جو کبھی شام کا مضبوط اتحادی تھا، اب یوکرین جنگ کی وجہ سے اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ معاشی بحران اور عالمی دباؤ نے روس کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ شام میں اپنی مداخلت کم کرے۔
یہ خلا اب دیگر طاقتوں کو شام میں داخل ہونے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ اسرائیل، جو پہلے ہی خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے، شام کو ایک نئے محاذ کے طور پر دیکھتا ہے۔ بابا وانگا، جنہیں پراسرار پیشگوئیاں کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، نے کہا تھا کہ شام کی تباہی ایک بڑی جنگ کو جنم دے گی۔ ان کے مطابق یہ جنگ مشرق اور مغرب کے درمیان تصادم کا باعث بنے گی اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز کرے گی۔ آج کے حالات کو دیکھیں تو ان کی بات سچ ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسرائیل کو اتنی طاقت کہاں سے ملی؟ جواب سادہ ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک۔ اسرائیل کی معیشت مغربی امداد پر انحصار کرتی ہے اور یہی امداد اسے خطے میں اپنی جارحیت جاری رکھنے کے قابل بناتی ہے۔ لبنان اور غزہ جیسے ممالک، جو معاشی اور عسکری طور پر اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں، اس کے مظالم کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔
عالمی برادری کی بے عملی اس کھیل کو مزید طول دے رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ، جو دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، اسرائیل کے معاملے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف وارنٹ جاری ہونے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ سب دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ دنیا نے اسرائیل کو ہر ظلم کرنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔
شام میں حالات دن بدن بگڑ رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک بڑی جنگ ناگزیر ہے۔ شام، جو پہلے ہی خانہ جنگی کے باعث تباہ ہو چکا ہے، اب ایک عالمی تصادم کا مرکز بن سکتا ہے۔ مختلف طاقتیں، جو اپنے مفادات کے لیے شام پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں، ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو سکتی ہیں اور جب بڑی طاقتیں میدان میں اتریں گی، تو تیسری عالمی جنگ کے آثار واضح ہو جائیں گے۔
یہ جنگ کس کے لیے لڑی جائے گی؟ انسانیت کے لیے؟ یا ان طاقتور ممالک کے مفادات کے لیے جو اپنے اسلحے بیچنے اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے جنگ کو ضروری سمجھتے ہیں؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک، جو خود اسرائیلی جارحیت کے ممکنہ شکار ہو سکتے ہیں، مکمل خاموش ہیں۔ عرب بہار کے بعد کے حالات اور اسرائیلی مظالم نے انہیں سبق سکھانے کے بجائے مزید بے عملی کا شکار کر دیا ہے۔ یہ خاموشی نہ صرف ان کی اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ پورے خطے کو ایک بڑے بحران کی طرف لے جا رہی ہے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا غزہ، لبنان اور شام کی تباہی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ شاید انسانیت کو ایک اور بڑی جنگ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک؟ اور کس قیمت پر؟