رتجگوں کی چاندنی

اہلِ علم و دانش اور صاحبان شعور کو لفظ کی اہمیت، طاقت اور قدرت کا اندازہ ہوتا ہے اسی لیے انسانی تاریخ میں ظالم مقتدر اور سرمایہ دار طبقات اس کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور فطرت لفظوں کی سچائی کی حفاظت میں لگی رہتی ہے۔ آج یہ جنگ پہلے سے زیادہ بےنقاب ہوچکی ہے۔ ہر طرف لفظ کی بےحرمتی کا نیا سے نیا حربہ آزمایا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مفاد کی خاطر چھوٹے چھوٹے لوگ بڑے اور قدآور ہونے کا بہروپ رچا کر لفظ کے معجزے کو محدود اور تاثیر کو زائل کرنے کے لیے چاروں طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن کارخانہ قدرت روز ایک نیا موسیٰ فراعین وقت کے سامنے اٹل کھڑا ہوجاتا ہے۔
مجھے اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ میری یہ سوچ اور اپروچ نام نہاد اکڈیمک مائنڈ سیٹ کے لیے اجنبی اور شاید گستاخانہ بھی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک علم وہی ہے جو نصاب میں بتایا گیا ہے اور میرے نزدیک وہ فریب نظر ہے اور حقیقی علم سے دور رکھنے کا ڈیزائن ہے۔ حقیقی علم اور مکالمہ برطانوی کالونئیلزم کے قبل اور مابعد کے حفظ میں نہیں بلکہ سرمائہ دارانہ تسلط کے حربوں اور تباہ کاریوں کے شعور میں ہے۔
آج کا بڑا ادب اسی شعور کی ترسیل کی ذمہ داری پوری کرتا ادب ہے جسے معدوم رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ یہ خیالات مجھے شفیق آصف کا مجموعہء کلام "رتجگوں کی چاندنی" پڑھتے ہوئے آئے۔ میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو جہاں مصنوعی شاعری اور شاعروں کا ہجوم اور ہڑبونگ نظر آتا ہے وہاں شفاف اور حقیقی شاعری بھی پھلتی پھولتی نظر آتی ہے۔ شفیق آصف کی شاعری کا نمایاں ترین وصف ہی پاکیزگی ہے۔ ادراکی تنقیدی نقطہءنظر سے تخلیق اپنے خالق کے مزاج کا عکس ہوتی ہے۔
شفیق آصف کے مزاج کی متانت، توازن اور صبر اس کی شاعری میں ایک زیریں دھیمی اداسی کے جلو میں جذبات اور خیالات کو شعری سانچے میں ڈھالے چلے جاتا ہے۔ شفیق آصف شخصی و تخلقی ہر دو پہلؤوں سے ایک مثالی سماجی اکائی کا مظہر ہے۔ یہ سمجھنا یا کہنا مشکل نہیں کہ ایسے تخلیق کار کے لیے اپنے سے بالکل مختلف زمانے میں جینا ایک بڑے باطنی بحران سے نمٹے بغیر ممکن ہی نہیں۔ وہ اپنے ہر دوسرے شعر میں اپنے اسی بحران کو تخلیقی تہذیب بخشتا صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
شفیق آصف دل پر ہر روز کئی کئی وزنی پتھر رکھ کے بھی اپنے دھیرج کو بچا لے جانے میں صاف کامیاب ٹھہرا ہے۔ میرے نزدیک اور ادراکی تنقیدی زاویہءنگاہ سے یہی نکتہ شفیق آصف کی شاعری کا مرکزہ ہے۔
کتاب میں جابجا موجود عمدہ و اعلیٰ اشعار قاری کے دل میں جگہ بناتے چلے جاتے ہیں۔ ایک غزل آپ بھی دیکھئے۔
جو دیکھا تھا شب مہتاب چہرہ
بکھرتا ہے وہ مثلِ خواب چہرہ
جسے ہم آئنوں میں دیکھتے تھے
وہ چہرہ تھا بہت بے تاب چہرہ
ترے باطن میں کیوں ہے ریزگی سی
بتاتا ہے کئی اسباب چہرہ
وہ کوئی عکس تھا یا آئنہ تھا
جسے سمجھے تھے کچھ احباب چہرہ
مری آنکھیں فروزاں ہوگئی ہیں
مری سوچوں میں ہے زرتاب چہرہ
مری ویرانیوں کا ہمنشیں ہے
وہ ہنستا کھیلتا شاداب چہرہ