Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Farhat Abbas Shah
  3. Dr. Younas Khayal Ka Aik Takhleeqi Sang e Meel

Dr. Younas Khayal Ka Aik Takhleeqi Sang e Meel

ڈاکٹر یونس خیال کا ایک تخلیقی سنگ میل

اسے سفرنامہ کہوں، روداد کہوں خود نوشت سوانح حیات کا باب سمجھوں یا پھر نظم کی کوئی نئی شکل۔ میرا دعویٰ ہے کہ کسی حقیقی اور بڑے تخلیق کار کے قلم سے نکلتے وقت اصناف کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ تخلیقیت اتنا طاقتور مظہر ہے کہ وہ نظم ہو یانثر جہاں اپنی انفرادیت ساتھ لے کے آتا ہے وہاں دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کی شکتی سے مالا مال بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر یونس خیال بے پناہ تخلیقی جوہر کے مالک ہونے کی وجہ سے تنقید جیسے خشک مضمون تک کو تخلیقی مرتبے تک پہنچا دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ یہ تو رودادِ، سفر ہے جس میں ان جیسے قلمکار کے پاس پہلے سے ہی بے پناہ گنجائش موجود تھی۔ کتاب کے پیش لفظ کا اولیں جملہ ہی سفر نامہ نگار کے مختلف ہونے کا پتہ دیے دیتا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں

کسی بھی سفر کی تفہیم اس سے واپسی کے تصور بغیر ممکن نہیں۔ مجھے یہ لگتا ہے یہ سفر نامہ بنیادی طور پر زندگی کے کچھ ایام، ملاقاتوں اور احساسات کو تاریخ کے پنوں پر محفوظ بنالینے کا عمل زیادہ اور سفری حیرت سازیوں کے اندراج سے قاری کو محظوظ کرنے کا مقصد کم ہے۔

جیسے جیسے میں سفر نامہ پڑھتا جا رہا تھا مجھ پہ کھلتا جا رہا تھا کہ سفرنامہ اسی لیے کافی عرصے تک ادب نہ کہلا سکا کہ اسے تحریر کرنے والوں کی اکثریت غیر شاعروں پر مشتمل تھی۔ اب ایک تخلیق کار اس میدان میں آیا ہے تو صنف کا نصیب بدلتا دکھائی دیتا ہے۔

ڈاکٹر یونس خیال نے پورے سفر نامے میں جس طرح لمحہء موجود کے جلو میں اپنے بیتے ہوئے دنوں کی اداسی سے لبریز خوشبو کو مہکائے رکھا یہ آج تک لکھے گئے سفرناموں سے اگلی بات ہے۔ مناظر کو شاعر کی نظر سے دیکھنا ہی اتنا جمالیاتی اور خوابناک عمل ہے کہ قاری اپنا دل سفر نامے کے سپرد کر بیٹھتا ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے یہ سفر نامہ کسی مسافر دل نے تحریر کیا ہو۔ تحریر میں تقریر کی بجائے احساسات کی تنویر سے راستے، پہاڑ اور مناظر اجالتے چلے جانا ایک الگ لطف کا باعث ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سفرنامے کے مناظر کی تفصیل اور واقعات کے تسلسل کو محسوسات کے دھاگے میں پرویا گیا ہو۔ ڈاکٹر یونس خیال صاحب کا یہ انداز، سفرنامے کے رتبے میں اضافہ کرتا ہے۔ سچ پوچھئیے تو میرے نزدیک اس کتاب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے شاعر ہونے نے سفر نامے میں جان بھر دی ہے۔ جگہ جگہ اشعارکا خوبصورت اور برمحل استعمال تحریر میں رنگ بھرتا چلا گیا ہے۔ خصوصاً غالب کے اشعار نے تو گویا سفر نامے کی صنف کو کلاسیکی ادب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیے۔۔

"دائیں جانب بیٹھے سری لنکا کے ہوش مند دوست کے لیے خوبصورت میزبان سلیقے سے پیک بناتی ہوئی گلاس میں برف کے چھوٹے کیوب ڈال رہی تھی اور بائیں طرفدل کے قریب بیٹھی بیگم صاحبہ کے ہاتھوں میں تسبیح گردش کر رہی تھی۔ ایسے میں کہیں سے غالب سامنے آن کھڑا ہوا جو نجانے کب سے میری طرح کے کتنے لوگوں کی ترجمانی کرتا چلا آرہا ہے، اس لیے تو وہ آج بھی غالب ہے۔

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

تقریبا ہر تین گھنٹے بعد اس طرح کی مہمان نوازی سے جہاز کے اکثر لوگ لطفاندوز ہوتے رہے لیکن میز بانوں کی مسکراہٹ اور سلیقے میں کسی طور کمی نہ آئی تھی۔ میرے دائیں طرف بیٹھا دوست اب زیادہ پر اعتماد نظر آرہا تھا اور میں بھی بینیازی کی آخری حدتک پہنچ کر جوس کی بجائے پھیکی چائے کے مزے لے رہا تھا"۔

ولئیم ورڈزورتھ کی رہائش کی یاترا کا چیپٹر ایک شاعر کی دوسرے شاعر سے ملاقات میں یوں ڈھلا ہے جیسے ہمارے شاعر کو ورڈزورتھ کی طرف سے خاص طور پر مدعو کیا گیا ہو۔

ڈاکٹر یونس خیال کی ولئیم سے گفتگو پر مبنی نظم، ُ ولئیم ورڈز کے ساتھ مکالمہ دنیا کے بڑے ادب میں نمایاں جگہ پر رکھی جانی چاہئیے۔

ولیم ورڈز ورتھ کے ساتھ مکالمہ

"محبت، لطافت و فطرت کے شاعر!
تمھیں آسمانوں میں اُڑتے ہوئے

بادلوں میں سمٹ کر
زمیں پر محبت کی تشکیل پر دسترس تھی

کھلے پانیوں۔
نیلی گہری وسیع اور شفاف جھیلوں کے اندر

کھلے خوب صورت کنول پھول چننا
اور پھر ان کے رنگوں میں انگلی ڈبوکر

محبت کے کاغذ پہ نظموں کو لکھنا
تمہارا جنوں تھا

یہ سچ ہے کہ دنیا کے تخلیق کاروں میں
تم منفرد ہو

محبت، لطافت و فطرت کے شاعر!
مگر یہ کہو!

تم نے غربت زدہ بستیوں میں اتر کر
کبھی زرد چہروں کے پیچھے چھپے کرب و آلام دیکھے؟

کبھی تم نے بھو کے غلاموں
کی چیخیں سنی تھیں؟

کھلے ساحلوں کے مناظر کے شاعر!
کبھی تم نے افلاس کی آنکھ سے گرتے آنسو کو دیکھا؟

کبھی ایسے آنسو کی وسعت کو ماپا
جہاں جانے کتنے سمندر پڑے تھے

مگر یہ تمہارا کہاں مسئلہ تھا
محبت کے شاعر تمہارا نہیں یہ مرا مسئلہ ہے

مرا حوصلہ ہے"

مجھے سفرنامہ پڑھتے ہوئے لگا کہ سویلو آبشار کا ذکر اور اس کے سیاق سباق کا بیان سفرنامے کا طاقتور ترین حصہ ہے۔ لکھتے ہیں "سویلو آبشار انگلینڈ کی شمالی ویلز کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

اس خوب صورت آبشار کے ایک طرف کونے میں ایک ُپل اور اسکے ساتھ بیٹھنے کو ایک تختہ نما جگہ ہے۔ ہر عمر کے سیاح یہاں تک آتے ہیں اور پھر یہاں بیتے خوب صورت لمحات کوکیمروں میں محفوظ کرتے ہیں۔ یہاں پر نو جوان جوڑے اپنی محبت کا پیمان باندھنے زیادہ تعداد میں آتے ہیں، اس کا اندازہ پُل کے جنگلوں کے ساتھ لگائے گئے بہت سے تالے دیکھ کر ہوا۔ اس پُل کے جنگلے کے ساتھ تالا لگا کر وہ اس کی چابی نیچے گزرتے آبشار کے پانی میں پھینک دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اب محبت کا یہ تالا کبھی کھل نہ پائے گا۔

کتنا خوب صورت احساس اور خواب ہے جسے روح کے ہاتھ سے چھوا اور کھلی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ محبت شاید اسی ایک لمحے میں قید ہوتی ہے جسے آزاد کرانے میں انسان کی پوری جوانی اور پھر مٹھی میں بند رکھ کے محفوظ رکھنے میں بڑھاپا گزر جاتا ہے۔

ایک پل میں میرے سامنے نجانے کتنے مزاروں پر کبوتروں کو ڈالی گئی چوگیں، بوڑھے درختوں سے باندھے مختلف رنگوں کے دھاگے، سرسوں کے تیل سے جلائے گئے دیے اور چھوٹی بڑی اگر بتیوں کی خوشبوئیں تصویروں کی صورت رقص کرنے لگیں۔ میں ان سب کے درمیان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہا تھا لہذا رسمی سے انداز میں وہاں کچھ تصویریں بنوا کر ایک بڑے پتھر پر آن بیٹھا۔

ایک نظم کی لائنوں کو اپنے تعاقب میں دیکھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں"۔

یہ تعاقب کرتی نظم جب شاعر کے قلم کی گرفت میں آتی ہے تو ایسی جادوئی چھڑی میں بدل جاتی ہے جو اپنی ایک لہراہٹ سے دل کو مسخر کرنے پر قادر ہوتی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔

بیس دنوں اور اسّی صفحوں کے اس مختصر سفر اور سفرنامے میں اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطین کی مظلوم عوام کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت اور پھر نان نہاد مہذب ممالک کی طرف سے کی جانے والی انسانیت سوزی کے سیاسی و استحصالی تجزیے اور اس ظلم و ستم پر زیر لب احتجاج سے جہاں سفرنامہ نگار نے حقیقی اور بڑے نظریاتی تخلیق کار ہونے کا ثبوت دیا ہے وہاں میرے جیسوں کے لیے شاعر ادیب برادری پر دونمبر طبقے کی یلغار سے پیدا ہونے والی کبھی کبھی کی عارضی اور وقتی مایوسی کی تاریکی میں ایک ایسا چراغ روشن کردیا ہے کہ اب میں بشرطِ زندگی و صحت کم از کم اگلی ایک دہائی تک زبان و ادب اور انسانی تہذیب کے خلاف ہونے والی سازشوں کے ساتھ نبرد آزما رہوں گا۔

Check Also

Sanah e Jaffar Express Aur Mind Sciences

By Muhammad Saqib