Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Muslim Muashray Munjamid Kyun?

Muslim Muashray Munjamid Kyun?

مسلم معاشرے منجمد کیوں؟

مسلم معاشروں میں جو کچھ ہوتا ہے، حالات کے جبر کے تحت ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی وہ دانشِ اجتماعی کیا ہوئی جو بدلتے حالات کے تقاضے بر وقت بھانپ کر معاشرے کو غیر محسوس طریقے سے فکری اور مادی ارتقاء کی طرف لے جاتی ہے؟

معاملے کو سمجھنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کو دیکھ لیجیے۔ دونوں معاشرے، یوں لگتا ہے کہ برف کی باٹ صورت منجمد ہیں۔ حالات کا جبر کچھ بدل دے تو الگ بات ہے ورنہ فکری اور شعوری ارتقاء کہیں نظر نہیں آتا۔ افغانستان سے سوویت یونین نکلتا ہے اور اس کے بعد مجاہد رہنمائوں کی خانہ جنگی اس ملک کو ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے۔ عشروں بعد آج بھی معاشرہ وہیں کھڑا ہے، وہی گلبدین حکمت یار اور وہی رشید دوستم۔ حالات کے جبر نے فی الوقت ان دونوں کو غیر متعلق کر رکھا ہے لیکن اس میں سماج کے فکری ارتقاء کا کوئی کردار نہیں۔ یہ کردار طالبان کا ہے۔

خود طالبان ایک طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے لیکن مستقبل کی صورت گری ان کے ہمراہ نہیں ہے۔ جن کے خلاف انہوں نے فتح مبین حاصل کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ انہی سے معاشی امکانات کا مطالبہ ہے۔ جس طاغوت کو شکست دی ہے اسی طاغوت کے بارے میں بے تابی سے سوال ہوتا ہے کہ ہم مزیدایسا کیا کریں کہ امریکہ ہمیں تسلیم کر لے۔ حالات کا جبر معیشت کی صورت ظہور کر رہا ہے اور طالبان اس بین الاقوامی دبائو کے تحت بہت کچھ کرتے جا رہے ہیں کیونکہ ملک تو چلانا ہے۔ لیکن اس جبر کو اگر الگ کر دیں تو سوال یہ ہے کہ دو عشروں میں فکر و دانش کے حوالے سے اس معاشرے نے کتنے قدم آگے بڑھائے ہیں۔ قومی ز ندگی میں خواتین کے کردار کی ایک گتھی ہی سلجھنے میں نہیں آ رہی۔

پاکستان کا معاشرہ دیکھ لیجیے۔ وہی دائروں کا سفر ہے۔ وہی عصبیتیں ہیں۔ حالات کا جبر ان میں کوئی تبدیلی لانے کا باعث بن جائے تو الگ بات ہے لیکن فکری اور شعوری ارتقاء کہیں نہیں ہے۔ ہم مذہبی انتہا پسندی سے ہٹ کر روشن خیالی کا سفر کرتے ہیں تو وہ بھی غیر فطری طریقے سے اور واضح طور پر دبائو کے تحت اور ہم مذہب کا پرچم تھامتے ہیں تو وہ بھی کسی ضرورت کے تحت۔ ہماری قانون سازی تک ایک فطری طریقے سے نہیں ہوتی۔ دبائو آتا ہے تو ایف اے ٹی ایف کے لیے بل آ جاتا ہے اور دبائو آتا ہے تو کلبھوشن کے لیے بل آ جاتا ہے۔ کہیں سے دبائو اور ترغیب آتی ہے تو حدود لا ز آ جاتے ہیں اور کہیں اور سے دبائو آتا ہے تو روشن خیالی آ جاتی ہے۔ ضرورت پڑتی ہے تو ملک جہاد کی نرسری بن جاتا ہے اور ضرورت پڑتی ہے تو اسے روشن خیال جدت پسندی کا گلستان بنا دیا جاتا ہے۔

کوئی صاحب آتے ہیں تو راتوں رات اسلامائیزیشن ہوتی ہے اور یوں ہوتی ہے کہ نظام صلوۃ کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں اور کوئی صاحب آتے ہیں تو مخلوط میراتھان ریس شروع ہو جاتی ہے۔ کسی کے دور میں حکم ہوتا ہے ڈرامے میں ڈوبتی لڑکی کے سر سے بھی دوپٹہ نہ اترے اور کسی اور کے دور میں معلوم ہوتا ہے کہ دوپٹہ لینا ہی دقیانیوسیت کی نشانی ہے۔ کسی دور میں تزویراتی ضرورت ہوتی ہے تو مجاہدین ناگزیر ہو جاتے ہیں اور کسی دور میں ضرورت بدل جائے تو ان سے ناپسندیدہ کوئی نہیں ہوتا۔

بے شک ریاستوں کی کچھ اضطراری ضروریات بھی ہوتی ہیں اور انہیں ہنگامی طور پر بھی کچھ فیصلے کرنا ہوتے ہیں لیکن پھر ایسے فیصلوں کو ایک ضرورت تک ہی رکھا جاتا ہے انہیں معاشرے کا عمومی رنگ بنانے سے گریزکیا جاتا ہے۔ یہاں عالم یہ ہے کہ ہر عشرے کے بعد معاشرے کو الٹ سمت میں ہانکا جاتا ہے کہ اب تک جو ہوا غلط ہوا اب دوسری سمت مڑ جائو۔ معاشروں کو غیر فطری طریقے سے ہانکا جائے تو وہ معاشرے بانجھ ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف حکم کے غلام رہ جاتے ہیں جو ہر صبح اٹھ کر پوچھتے ہیں کہ آج کا دن گزارنے کے رہنما اصول کیا ہیں۔ معاشروں میں ارتقاء تب ہوتا ہے جب ان کو فطری اندا زسے آگے بڑھنے دیا جائے۔

نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہر شعبہ ز ندگی میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ قانون سازی کرنی ہے تو ایک دن میں درجنوں بل پاس کر دینے ہیں۔ نصاب بدلنا ہے تو کھڑے کھڑے بدل دینا ہے۔ نصاب کا تعلق نسلوں کے مستقبل سے ہوتا ہے۔ اس میں معمولی سی تبدیلی بھی طویل عرق ریزی مانگتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کسی وسیع تر مشاورت کے بغیر نصاب بن جاتا ہے، شور مچتا ہے تو بدل دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ قانون کا ہے۔ قانون نافذ کرنے سے پہلے بھی تمام سٹیک ہولڈرز ے اور سماج کے اہل فکر سے ایک وسیع مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن یہاں رات کو کسی مشاورت کے بغیر ایک آرڈی ننس آ جاتا ہے۔ اور ہفتے بعد اسی آرڈی ننس میں تبدیلی کے لیے ایک اور آرڈی ننس آ جاتا ہے۔

اس ہیجان اور اضطراب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم دھیرے دھیرے سفر کے قائل ہی نہیں رہے۔ ہمیں اب ارتقاء کا صبر آزما سفر نہیں چاہیے۔ ہمیں انقلاب چاہیے تا کہ ہم صبح سو کر اٹھیں تو سب کچھ بدل چکا ہو۔ ہم کوئے یاد اور سوئے دار کے بیچ کسی مقام کے قائل نہیں۔ چنانچہ ارتقاء سے جڑی ریاضت کا ہم میں حوصلہ ہی نہیں رہا۔ اب راتوں رات کچھ ایسا کر دکھانا مقصود ہوتا ہے کہ سب کو لگے انقلاب آ گیا۔ پولیس کلچر اور اس کا ڈھانچہ بدلنے کی ریاضت ہم سے نہیں ہو سکتی تو راتوں رات اس کی یونیفارم بدل دیتے ہیں کہ لیجیے انقلاب آ گیا۔

کوئی تعلیمی پالیسی ہے نہ صحت کی، نہ معیشت میں کوئی منصوبہ بندی ہے نہ انفرا سٹرکچر کھڑا کرنے کا کوئی طویل المدتی پلان۔ بس ایک ہیجان اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ جو آتا ہے اس کا خیال ہوتا ہے کہ بیج بھی اسی نے بونا ہے، پھل بھی اسی نے کھانا ہے ا ور چھائوں میں بھی اسی نے بیٹھ کر دکھانا ہے۔ صرف اپنے حصے کا کام کر کے آگے بڑھ جانا گوارا نہیں کہ ا س کا تعلق ارتقاء سے ہے جب کہ ہم انقلابی ہیں۔ فطری ارتقاء کے راستے روک کر انقلاب یا اطاعت یا جبر کے فلسفے نے مسلم معاشروں کو اپاہج کر دیا ہے۔

کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں مسلم معاشروں نے کچھ کر دکھایا ہو۔ علم و ادب ہو یا سائنس کی دنیا، مسلم معاشرے غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ رنگ برنگے انقلابوں کے علاوہ یہاں کیا باقی بچا ہے؟ علم و فکر کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے غیر مسلم معاشروں میں ہو رہا ہے۔ یہ دنیا اگر ایک گلوبل ویلج ہے تو اس گائوں میں ہونے والی علمی اور فکری سرگرمی میں ہمارا کیا کردار ہے؟ ہم اس گائوں کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں؟ میڈیکل سائنس سے لے کر دیگر شعبہ جات میں تحقیق و ایجادات تک ہمارا ووجود اس دنیا کے لیے کتنا سود مند ہے اور ہماری افادیت کیا ہے؟

اضطراب اور ہیجان کی دنیا سے نکل کر اگر ہم ان سوالات کو اپنا مخاطب بنا سکیں تو شاید ایک وقت آئے کہ ہمارا وقت بھی بدل جائے۔ ورنہ بس بیٹھ کر اپنے اپنے انقلاب لاتے رہیے۔

Check Also

Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam

By Altaf Ahmad Aamir