مودی اور کانگریس،فرق کیا ہے؟
گذشتہ چند ماہ میں، کشمیر پر متعدد کانفرنسزاور سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ ان میں ایک بات جو میں نے واضح طور پر محسوس کی یہ ہے کہ مقررین مودی کو نازیوں جیساظالم سفاک حکمران ثابت کرنے کے لیے ایک ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے کانگریس تو بڑی اچھی، معتدل اور انسان دوست جماعت تھی اور اس کے بابرکت دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے اور بھارت میں مسلمانوں کے لیے بڑا مثالی ماحول تھا اور اس خطے کی ساری کوئلیں امن اور محبت کے گیت گاتی تھیں لیکن اب جب سے یہ مودی آیا ہے، سارا منظر نامہ برباد ہو گیا ہے۔ حقیقت مگراس کے بر عکس ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں کانگریس کے نہرو کی حکومت ہو یا بی جے پی کے مودی کی، پالیسی ایک ہی رہتی ہے، بس یہ ہوتا ہے کہ طریقہ کار تھوڑا بدل جاتا ہے۔
سادہ لوحوں پر حیرت ہوتی ہے جو ان سیمینارز میں بھارت کے عوام کو، خطے کو اور بین الاقوامی برادری کو یہ خبر دیتے پائے جاتے ہیں کہ بھارت میں سماجی اور سیاسی سطح پر بھونچال آ گیا ہے، یہ گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا۔ یہ اب بی جے پی اور راشٹریہ سیوک کے انتہا پسندوں کا بھارت ہے۔ مقررین کے لہجے میں احساس یاں یوں چھلک رہا ہوتا ہے جیسے کانگریس کا دور تو برا سنہرا دور ہو۔ سوال یہ کہ کانگریس کے بھارت اور اس مودی کے بھارت میں فرق ہی کیا ہے؟ صرف طریق واردات کا، ان کی چھری بغل میں تھی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑ لی ہے۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی آج جو صورت ہے یہ کانگریس ہی کی پیدا کردہ ہے۔ بھارت کی پالیسی پاکستان کے ساتھ صرف بھارت کی پالیسی ہوتی ہے۔ اس میں کانگریس اور بی جے پی کی تفریق کرنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔
جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان اور بھارت دو الگ ریاستیں وجود میں آئیں تو پاکستان کے حصے کا اسلحہ، اس کے حصے کے اثاثے کس نے روکے؟ کانگریس کی حکومت نے۔ پاکستان پر تجارتی پابندی کس نے لگائی؟ اسی کانگریس نے۔ قتل عام کے ذریعے مہاجرین کا ایک سیلاب پاکستان کی طرف کس نے دھکیلا؟ اسی کانگریس نے جس کے رہنمائوں کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ مہاجرین کا یہ سیلاب اس نئی ریاست کو ڈبو دے گا اور پاکستان بہت جلد بھارت میں ضم ہو جائے گا۔ ریاستوں کے حوالے سے خطے میں فتنہ انگیزی کس نے کی؟ اس کا جواب بھی وہی ہے کہ کانگریس نے۔
نظام آف حیدر آباد کے ساتھ بھارت کا سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ تھا۔ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کے باوجود حیدر آباد پر بھارت دبائو ڈال رہا تھا۔ چنانچہ حیدر آباد کے نظام نے اقوام متحدہ کو خط لکھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔ اس سے پہلے کہ اقوام متحدہ میں یہ درخواست زیر بحث آتی، بھارت نے حیدر آباد پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ طے شدہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ قبضہ کرنے والی یہی کانگریس کی سیکولر قیادت تھی۔ جسے آج بی جے پی کے مودی سے مختلف سمجھا جا رہا ہے۔
جونا گڑھ میں کیا ہو اتھا۔ جونا گڑھ کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا اور اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق جونا گڑھ پاکستان کا حصہ بن چکا تھا۔ لیکن بھارت نے جونا گڑھ پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کا حکم کس نے دیا تھا؟ کانگریس نے۔
کشمیر میں فوج کشی کا حکم بھی کانگریس نے دیا تھا۔ کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ بھی کانگریس کی قیادت نے کیا تھا اور اس سے مکرنے والی بھی وہی تھی۔ کشمیریوں سے گئے حق خودارادیت کے وعدے سے مکرنے والی بھی وہی بھارتی سیکولر قیادت تھی۔ حق خودارادیت کی بجائے جعلی ا سمبلی سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دلوا کر سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پامال کرنے والی بھی یہی سیکولر قیادت تھی۔
جودھ پور کا راجہ بھی پاکستان سے الحاق چاہتا تھا اور اس کے لیے خط و کتابت جاری تھی۔ اسے دھمکی دے کر اس کام سے کس نے روکا؟ کانگریس کی حکومت نے۔
قیام پاکستان جب یقینی ہو گیا تو یہ گاندھی جی ہی تھے جنہوں نے پشتونستان کا شوشا چھوڑا اور اس کی سرپرستی کی۔ تقسیم برصغیر کے وقت ایک بار بھی باچا خان نے یہ نہی کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ جائیں گے اور ظاہر ہے کہ نہ ہی یہ آپشن موجود تھا۔ لیکن جیسے ہی ان پر واضح ہو گیا کہ وہ کانگریس کے ساتھ بھارت کا حصہ نہیں بن پائیں گے بلکہ صوبہ سرحد تو پاکستان کا حصہ بننے جا رہا ہے تو اچانک ان کو یہ خبر ہوئی کہ انہیں تو افغانستان کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ یہ راستہ انہیں بھارت کی قیادت نے دکھایا تھا۔ کون سی قیادت نے؟ کانگریس کی قیادت نے۔
سکھوں کو الگ مذہب ماننے کی بجائے ہندو مذہب کا حصہ سمجھنے کی احمقانہ بات کو بھارتی آئین کا حصہ بنانے کا اعزاز بھی اسی سیکولر قیادت کو حاصل ہوا تھا۔ مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی جہنم بنانے کی پالیسی کا آغاز کانگریس ہی کے دور میں ہوا تھا۔ سکھوں کے مقام مقدسہ کی توہین اندرا گاندھی کے دور میں ہوئی تھی اور اسی کے انتقام میں وہ ماری گئیں۔ سکھوں کے مقدس مقام پر فوج کشی کرنے کا کارنامہ بھی سنگھ پریوار کے کسی انتہا پسند ہندو کے ہاتھوں نہیں بلکہ گاندھی خاندان کی سیکولر قیادت کے ہاتھوں انجام پایاتھا۔
شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاچن پر قبضہ کس نے کیا تھا؟ مشرقی پاکستان میں کیا ہوا تھا۔ تمام بین الاقوامی قوانین پامال کرتے ہوئے وہاں فوج کشی کس کے حکم پر ہوئی تھی؟ کیا یہ کام بی جے پی نے کیا تھا؟ کانگریس ہی کی حکومت تھی اور کانگریس ہی کی قیادت نے سب کچھ کیا تھا۔ دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دینے کی بات بھی اسی سیکولر قیادت نے کی تھی۔
مودی کا فاشزم اپنی جگہ لیکن اس کے ابلاغ میں جوش خطابت میں کانگریس کے فضائل بیان کرنا پرلے درجے کی سادگی ہے۔ جہالت کا لفظ میں خیال خاطر احباب میں استعمال نہیں کر رہا ورنہ یہاں موزوں ترین لفظ وہی ہے۔
بھارت کبھی بھی ایک سیکولر ملک نہ تھا۔ بھارت پہلے دن سے ایک طے شدہ پالیسی لے کر چل رہا ہے جس میں بقائے باہمی نام کی کوئی چیز نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قائد اعظم جو ایک مانے میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے ان کو قیام پاکستان کے مطالبے پر مجبور کرنے والی یہی کانگریس کی متعصب قیادت تھی۔ کیبنٹ مشن پلان سے پہلے تک تو قائد اعظم متحدہ ہندوستان میں رہنے کو تیار تھے۔ آزاد وطن کا مطالبہ تو انہوں نے اس وقت کیا جب کانگریس نے اپنے طر ز عمل سے بتا دیا کہ اس کے ہاں ہندو غلبے سے کم تر کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کانگریس ہو یا بی جے پی ہو، فرق صرف طریق واردات کا ہے، پالیسی کے بنیادی اصول دونوں کے ہاں یکساں ہیں اور دونوں کے ہاں بقائے باہمی کا کوئی امکان نہیں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ قائد اعظم نے انہیں چالیس کی دہائی میں پہچان لیا تھا ہم آج تک نہیں پہچان پائے۔