لتا جی
لتا منگیشکر بھی مر گئیں۔ ہمارے زمانے کی ایک اور نشانی ختم ہو گئی۔ معلوم نہیں کس نے کہا تھا کہ ہم اچانک نہیں مرتے، ہماری محبتیں، ہمارے دوست، ہمارے پیارے، ہماری یادیں، یہ دھیرے دھیرے ہمیں چھوڑ جاتی ہیں۔ اور ہر بچھڑتی یاد کے ساتھ ہمارے وجود کا ایک حصہ بھی دفن ہو جاتا ہے۔ ان یادوں اور اپنے وجود کے ان حصوں کو دفناتے دفناتے پھر ایک دن ہم خود بھی مر جاتے ہیں۔ ہم ایک دم نہیں مرتے۔ ہم دھیرے دھیرے مرتے ہیں۔
کچھ یاد نہیں کہ لتا جی کو پہلی بار کب سنا تھا۔ یہ شاید پہلے پیار سے بھی پہلے کی بات ہے۔ تب پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ بس یہ احساس تھا کہ جادو سی جگاتی ہوئی آواز ہے۔ بھارت والے کہتے تھے کہ لتا کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ بھگوان سے تو ہماری کوئی سلام دعا نہیں ہے لیکن یہ ہم نے دیکھ رکھا ہے کہ جب لتا بولتی تھیں تو چرند پرند اور کھیت کھلیان بھی اس کے ساتھ بولتے تھے۔ یہ وہ نغمہ تھا جو لتا کے گلے سے نکلتا تھا اور وجود کے ساتھ ساتھ سارے ماحول کو سرگم کر دیتا تھا، دل و جاں کو جگا دیتا تھا۔
پروین شاکر کے الفاظ مستعار لوں تو یہ وہ آوا ز تھی جو ٹھہری ہوائوں میں جادو بکھیر دے۔ لتا سوز بھی تھیں اور ساز بھی۔ وہ آواز کا رشکِ گنج تھیں اور نایاب تھیں۔ وہ شہرِ محبت کا امیر خسرو تھیں۔ آج بھی، جب کنپٹیوں میں سفیدی اتر آئی ہے، لتا کی آواز سنائی دے تو وہی آسی الدنی والی کیفیت ہوتی ہے کہ ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تیری آواز کے ساتھ،۔
لتا ایک ناسٹیلجیا ہے۔ دو بول کانوں میں اترتے ہیں اور دل کو کتنی ہی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ کون جانے کتنے موسم، اور کتنی یادیں اس کے گیتوں میں گندھے ہیں۔ یہ دل کے سارے موسموں کی لتا تھی۔ بچپن میں ہم شکار کے لیے نکلتے، کبھی شکار ملتا کبھی کچھ ہاتھ نہ آتا۔
گرم تپتی دوپہروں میں جب کہیں کسی دھریک یا ٹاہلی کے نیچے سستانے بیٹھتے تو لتا جی کی آواز امرت بن جاتی۔ کبھی شریفہ سے گروٹ جاتے ہوئے کشتی میں دریا عبور کرتے وقت ملاح کے ریڈیو پر یہ آواز گونجتی تو دریا کی لہروں میں بھی ترنم آ جاتا۔ کبھی جب ساون کی جھڑی لگتی اور کئی دن مہینہ برستا رہتا تو ایسے میں شام سے کچھ پہلے کہیں سے لتا کی آواز کانوں میں پڑتی تو ساون کے گداز میں اضافہ کر جاتی۔ کبھی جب بیٹھے بیٹھے بلاوجہ ہی دل کی دنیا اداس ہو جایا کرتی تو اس کیفیت کا تریاق بھی لتا ہی تھیں۔
کبھی جاڑے کی چاند بھری راتوں میں یہ آواز سنائی دیتی اور من کا برہما شانت کر جاتی۔ کبھی کسی پہاڑی مقام پر اماوس کی رات یہ آواز آ کر تھام لیتی۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ خانسپور میں رات کے آخری پہر اترتی برفباری کے ساتھی یہ آواز بھی چپکے سے اترتی اور وجود کی پرچھائیوں کو تھام لیتی۔ کبھی بہار میں ان کی آواز غنچہ بن جاتی، کبھی خزاں رت میں دلاسے کی صورت سماعتوں پر اترتی۔ جادو جیسی یہ آواز تیرگی میں دیپ جلاتی تھی اور پت جھڑ میں تھام لیتی تھی۔ وہ ہر موسم کی گائک تھیں۔ کسی کی آواز کو چوما جاسکتا تو وہ صرف لتا ہی تھیں۔
وہ گاتی نہیں تھیں، وہ روح سے باتیں کرتی تھیں۔ ان کی طوالت بھی مختصر لگتی تھی۔ ان کا ہر گیت مارگلہ کے موسم جیسا تھا۔ وہ ہر موسم کی گائک تھیں، بھلے یہ زمین کا موسم ہو یا دل کا۔ یہ آواز جہاں جہاں جاتی تھی، ہر موسم عنبر ہو جاتا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان صاحب نے درست کہا تھا: کم بخت کبھی بے سُری نہیں ہوتی۔
ہر گلوکار کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا فلاں گیت یا فلاں غزل ہمیں بہت پسند ہے۔ لیکن لتا کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا فلاں گیت ہمیں پسند ہے۔ آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے کوئی بچہ کسی میلے میں کھلونے کی دکان پر جا کھڑا ہو۔ یادیں ہجوم کرتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک گیت دیوار ِ دل پر دستک دیتا ہے۔ محرمیِ حسن کی یہ مالا ہے، ایک موتی کا انتخاب کوئی کیسے کرے کہ یہ ساری مالا ہی قوس قزح جیسی ہے۔
بھارت کی لتا اور پاکستان کی نور جہاں، موسیقی کی دنیا کے بڑے نام تھے۔ روایت ہے کہ دونوں سہیلیاں تھیں۔ ایک پاکستان چلی آئی، دوسری بھارت میں رہ گئی۔ برسوں بعد دونوں کی ملاقات واہگہ بارڈر پر نو مین لینڈ، پر ہوئی۔ یہ ملاقات اتنی جذباتی تھی کہ بارڈر پر کھڑے فوجی جوا نوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ اب مگر وقت بدل چکا۔ نور جہاں بھی نہ رہیں اور لتا منگیشکر بھی مر گئیں۔ اس خطے کے پاس اب ایسی کوئی سہیلیاں نہیں بچیں جن کی بارڈر پر ملاقات ہو تو پاس کھڑے فوجی بھی رو دیں۔
پرانے وقتوں کے کچھ ادیب تھے، کچھ شاعر تھے، کچھ گلوکار تھے، اپنے اپنے فن کے بڑے نام تھے۔ اُدھر بھی تھے اور اِ دھر بھی تھے۔ ان کے دم سے آر پار ایک کسک تھی، ایک رابطہ تھا۔ اب وہ ایک ایک کر کے اٹھتے جا رہے ہیں۔ ایک پورا عہد ہے جو دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ وہی جاوید اختر والی بات کہ اس کرہ ارض پر ایک سورج، ایک چاند اور لتا منگیشکر ہے۔
بر صغیر کے عظیم گلوکاروں میں سے ہمارے پاس اب بچا ہی کیا ہے۔ استاد غلام علی خان صاحب اور عابدہ پروین صاحبہ۔ دو جاڑے پہلے جب ابھی کورونا کی وبا نہیں آئی تھی اور محفلیں آباد تھیں وہ اسلام آباد تشریف لائے۔ جہان بھر کی ہم نے باتیں کیں۔ کچھ عابدہ پروین کے بارے اور کچھ لتا جی کے بارے۔ غلام علی خان صاحب کے ہاں ان دونوں کے بارے جو محبت اور احترام تھا، بے پایاں تھا اور ظاہر ہے بے سبب نہ تھا۔ جس کے فن نے استاد بڑے غلام علی خان جیسے آدمی کو اپنا قدر دان بنا لیا ہو۔ استاد غلام علی خان اس کے فن کے مداح کیسے نہ ہوں۔ اب لکھنے بیٹھاہوں تو فیصلہ نہیں ہو پا رہا وہ باتیں صرف محفل کی باتیں تھیں یا لکھی بھی جا سکتی ہیں۔
لتا کی آواز دلوں کا بھید ہے۔ اس بھید کے بارے میں جو بھی لکھا اور بولا جا رہا ہے یہ تو دلوں کی کیفیات کا اظہار ہے۔ اس میں بحث کیسی؟ اپنے ہاں مگریہ مسئلہ رواج بن چکا ہے کہ کوئی حادثہ ہو یا واقعہ، ہم اسے کباب بنا لیتے ہیں۔ اطراف میں کوئی کونپل پھوٹے یا کلی مرجھائے، ہمارے ہاں اسے نظری بحث کا عنوان بنا لیا جاتا ہے اورصف بندی ہو جاتی ہے۔ پھرہر صف کے لشکری دعوت مبارزت دیتے ہیں۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ بات مگر سادہ سی ہے کہ باغِ عالم میں ایک کوئل تھی، نہ رہی۔ اسرار الحق مجاز بھی دیکھیے کہاں یاد آئے:
چھپ گئے وہ سازِ ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے