کیا پاکستان افسروں کے لیے بنا تھا؟
کیا آپ کو معلوم ہے امریکی صدر کے وائٹ ہائوس کا رقبہ کتنا ہے اور سرگودھا کے کمشنر صاحب بہادرجس سرکاری محل میں رہتے ہیں اس کا سائز کیا ہے؟
وائٹ ہائوس کا رقبہ 152 کنال ہے۔ اس میں دنیا کی اکلوتی سپر پاور کا سربراہ رہتا ہے جس کے ایک ٹیلی فون کے انتظار میں ہماری حکومت جانے کب سے نہر والے پل، پر بیٹھی سوچ رہی ہے کہ ماہی سوہنا کتھے رہ گیا،۔ یہ سوہنا ماہی قرض اور امداد دیتا اور دلواتا ہے تو ہماری دال روٹی چلتی ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ ہمارے ایک چھوٹے سے ضلع سرگودھا کا کمشنر صاحب بہادر جس سرکاری محل میں رہتا ہے اس کا رقبہ 104 کنال پر مشتمل ہے۔
کمشنر سرگودھا کا یہ محل، سرگودھا کے قیمتی ترین علاقے میں واقع ہے۔ چلتے جائیے اور چلتے جائیے، شاہی محلات کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ یہ کنالوں کی بات نہیں، یہ محلات کلومیٹروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سڑک کی ایک جانب سرگودھا یونیورسٹی ہے، ریسکیو ون ون فائیو کے دفاتر ہیں، شاپنگ پلازے ہیں، بنکس ہیں، پٹرول پمپس ہیں اور دوسری جانب صرف ضلعی انتظامیہ کے محلات۔ ان محلات کے باہر بورڈز لگے ہیں، چلتے جائیے، رکنا منع ہے۔ چند سال پہلے ایک بورڈ پر لکھا تھا، چلتے جائیے، رکنا منع ہے، خلاف ورزی پر گولی مار دی جائے گی۔ اب مگر اتنی مہربانی کی گئی ہے کہ گولی والی دھمکی اب کہیں نظر نہیں آتی۔ معلوم نہیں اس دھمکی کے واپس لینے پرشہر میں اظہار تشکر کے بینر بھی آویزاں کرائے گئے تھے یا نہیں کہ ہم گولی مار دینے کی دھمکی واپس لینے پر لاٹ صاحب کے مشکور ہیں۔ ان کا اقبال بلند رہے۔
نصف فرلانگ کے فاصلے پر بار ایسوسی ایشن ہے۔ لیکن مجال ہے کسی ایک وکیل نے زندگی میں ایک بار بھی یہاں سے گزرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہو کہ یہ جو شاہی محلات یونیورسٹی روڈ پر کئی کلومیٹرز میں پھیلے ہیں ان کے باہر سڑک پر گاڑی روکنا کس قانون کے تحت جرم قرار دیا گیا ہے اور کس قانون کے تحت قنونی، کارروائی کی دھمکی دی گئی ہے۔ سامنے یونیورسٹی ہے جہاں مبینہ طور ڈھیر سارے اہل علم و فکر موجود ہیں لیکن اپنی شہری آزادیوں کو یوں پامال ہوتے دیکھ کر کوئی بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔
چنانچہ جب کوئی لاٹ صاحب ایک سو چار کنال کے گھر سے نکلتے ہیں تو پھر اس خبر پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ایمبولینس کا ہارن بجانے پر ایمبولینس کو گستاخی کے جرم میں بند کر دیا کہ اس کم بخت نے لاٹ صاحب کی شاہی سواری کو ہارن دے کر توہین اور جسارت کی تھی۔ عالم یہ ہے کہ سڑک کے ایک طرف تو شاہی محلات کا قبضہ ہے لیکن سڑک کی دوسری جانب آفیسر کلب، قائم ہو چکا ہے تا کہ یہ صاحب لوگ شام کو مزے کرنے جائیں تو ریاستی وسائل کنیزکی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔
ملک کی معاشی حالت ہمارے سامنے ہے۔ قرض اور امداد نہ ملے تو معاشی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن افسران کے لیے مال غنیمت ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ سرگودھا کی تو میں نے مثال دی ہے لیکن یہ مال غنیمت ہر شہر میں تقسیم ہو رہا ہے۔ آپ ذرا اپنے اپنے شہر کا سروے کر کے دیکھیے کہ کہاں کہاں کیسی کیسی لوٹ سیل لگی ہے۔
نمونے کے طور پر چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ ایس پی ساہیوال کا سرکاری محل 98 کنال پر پھیلا ہے۔ ڈپٹی کمشنر میانوالی کا سرکاری محل 95 کنال اور ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کا سرکاری محل 92 کنال کا ہے۔ پنجاب کے ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز کے محلات کا رقبہ 680 کنال ہے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری ریٹائر ہو جائیں تو قانون یہ بن چکا ہے کہ انہیں ہائی کورٹ کے جج کے برابر مراعات دی جائیں گی۔ جج کی مراعات کیا ہیں، یہ تکلیف آپ خود کر لیں اور صدارتی آرڈر 1997 کا مطالعہ فرما لیں۔ اور اگر آپ کو مطالعے کی عادت پڑ ہی جائے تو پھر تسلی سے دیکھیے گا کہ مزید کس کس محکمے کی مراعات کا عالم کیا ہے۔ نسبت عشق کی زلفیں سنوارنے میں ہرج ہی کیاہے۔ مطالعے کی حد تک تو کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔
جب ہم پولیس افسران اور ضلعی انتظامیہ کا رہن سہن وائسرائے اور شاہی خاندانوں جیسا رکھیں گے تو پھر یہ توقع تو بے کار ہے کہ وہ شہریوں سے انسانی سلوک رکھیں اور خود کو پبلک سرونٹ، سمجھیں۔ سو سو کنال کی رہائش سے یہی رویہ جنم لیتا ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں ذرا ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کرنے کی کوشش کر کے دیکھیے اور اس کا نتیجہ بھی بتائیے۔ لاٹ صاحب کو تو چھوڑیے کسی ایس ایچ او سے ملاقات کر کے دیکھ لیجیے۔ عزت کا آملیٹ نہ بن جائے تو بتائیے گا ضرور۔
یہ رویے بلا وجہ نہیں پیدا ہوتے۔ یہ ایک طبقہ ہے جسے مراعات کے منہ پر بٹھا دیا گیا ہے اور جن کے ذریعے عوام کو رعایا بنا کر رکھا گیا ہے۔ خود قانون سازوں کے ہاں بھی مزے اور انہوں نے اپنے ان پیادوں کے بھی مزے کرا رکھے ہیں جن کے ذریعے ان کا یہ سارا بندوبست قائم ہے۔ اس بندو بست کا حوالہ دیکھیے اور لطف لیجیے کہ جب سابق اور موجودہ اراکین قومی اسمبلی اور ان کے اہل خانہ کو مراعات دینے کی قانون سازی ہونے لگی تو اس بندر بانٹ کا معیار بھی افسرشاہی قرار پائی اور قانون بنا کہ ان سب اراکین پارلیمان اور ان کے اہل خانہ کو تاحیات میڈیکل سہولت مفت دی جائے گی جو 22 ویں گریڈ کے افسر کے برابر ہو گی۔
یعنی افسران کے وہ مزے ہیں کہ اراکین پارلیمان بھی اسے لطف و عنایات کا سنگ میل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اراکین پارلیمان تنخواہ کے علاوہ اعزازیہ الگ لے رہے ہیں۔ اعزازیے کے ساتھ ساتھ سمچوری الائونس بھی لے رہے ہیں۔ اس الائونس پر ہی بس نہیں، آفس مینٹیننس کے ماہانہ آٹھ ہزار بھی انہیں دیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی فون الائونس کے دس ہزار اور ایڈ ہاک ریلیف کے پندرہ ہزار۔ تین لاکھ کے سفری وائوچر یا بانوے ہزار نقد کنوینس الائونس، ڈیلی الائونس اور لاجز ہونے کے باوجود ہائوسنگ الائونس۔ تاحیات بلیو پاسپورٹ، خود کے لیے بھی اور اہلیہ اور شوہر کے لیے بھی اور موجودہ کے لیے بھی اور سابقین کے لیے بھی۔ لیکن اس سب کے باوجود ان معزز اراکین پارلیمان کے لیے مال غنیمت سے مستفید ہونے کا حوالہ گریڈ 22 کا افسر ہے۔
کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ گریڈ بائیس کو دی گئی میڈیکل سہولت گریڈ چار کو دی گئی سہولت سے زیادہ کیوں ہے اور آپ اپنے لیے گریڈ چار کو حوالہ کیوں نہیں بناتے۔ دروغ بر گردن راوی، آپ تو غریب عوام کے نمائندے ہیں ۔ باقی ساری بندر بانٹ کا کوئی جوا زتراش بھی لیا جائے تو اس سوال کا کیا جواب ہے کہ میڈیکل کی سہولت گریڈ دیکھ کر کیوں دی جاتی ہے؟ کم ا زکم یہ تو انسانوں کے لیے برابر کر دیں۔
سوال وہی ہے کہ کیا یہ ملک افسران کے لیے بنا تھا؟ اور کیا یہ بالادست طبقے کا مال غنیمت ہے جس کے وسائل حصہ بقدر جثہ تقسیم ہو رہے ہیں۔