1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Islamabad Kis Ka Maal e Ghaneemat Hai?

Islamabad Kis Ka Maal e Ghaneemat Hai?

اسلام آباد کس کا مالِ غنیمت ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں اشرافیہ نے ریاست کی ز مین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اگر عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ کوئی اصول طے کر نے کی ہمت کر لے تو کیا کچھ تبدیل ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد میں ایک ہسپتال ہے جسے قومی اسمبلی کی دستاویزات کے مطابق نوے کی دہائی میں ڈھائی ایکڑ سرکاری زمین محض ایک سو روپے مربع فٹ کے حساب سے عنایت فرمائی گئی۔ یہ اسلام آباد کا مہنگا ترین ہسپتال ہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈھائی ایکڑ زمین لے کر بھی یہاں ڈھنگ کی پارکنگ نہیں ہے۔ یہ ہسپتال اس علاقے میں واقع ہے جہاں ایک مرلہ زمین کی قیمت کروڑ روپے تک ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہی زمین مارکیٹ میں فروخت کر دی جاتی اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری ہسپتالوں پر لگائی جاتی تو کیا پولی کلینک اور پمز کی قسمت ہی نہ بدل جاتی؟ یہی نہیں اس رقم سے اسلام آباد میں دو چار مزید اچھے ہسپتال بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔

ویر اعظم ہائوس اور پارلیمان کے پڑوس میں ہی اشرافیہ کے لیے ایک عدد کلب ہے۔ اس کا نام اسلام آباد کلب ہے۔ اس کلب کے پاس 244 ایکڑ سرکاری زمین ہے۔ آپ یہ جان کر سر پیٹ لیں گے کہ یہ زمین اس کلب کو مبلغ ایک روپیہ فی ایکڑ سالانہ پر عطا کی گئی تھی۔ 2018 میں اس ریٹ پر نظر ثانی کی گئی اور یہ رقم بڑھا کر گیارہ روپے کر دی گئی۔ مبینہ اشرافیہ سرِ شام یہاں تشریف لاتی ہے اور مزے کرتی ہے۔

آج تک کسی نے پارلیمان میں حکومت سے یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ د نیا کے پانچ براعظموں میں ہم قرض کے حصول کے لیے گھوڑے دوڑاتے پھر رہے ہیں لیکن اپنی شاہ خرچیوں پر توجہ دینے کی فرصت نہیں کہ ہم نے کیسے کیسے سفید اور سفاک ہاتھی پال رکھے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے سرینا ہوٹل سے چند قدم کے فاصلے پر واقع یہ 244 ایکڑزمین اگر مارکیٹ ریٹ پر کسی کو دی جائے تو قومی خزانے میں کتنی بھاری رقم جمع ہو سکتی ہے۔

آپ بیوروکریسی کے کمالات دیکھیے۔ مال مفت حکومت سے لیا۔ زمین سرکاری ہے جو قوم کی امانت ہے۔ لیکن زمین پر بنائے گئے کلب کو لمیٹڈ کمپنی قرار دے دیا۔ بعد میں صدر پاکستان کے حکم سے اسے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا اوراب اسے وزارت کیڈ دیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ بندوبست بھی صرف کاغذوں میں ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ پڑھیے نہ صرف ہوش ٹھکانے آ جائیں گے بلکہ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ ریاست کے اندر ریاست کیا ہوتی ہے اور وزیر اعظم ہائوس کے پہلو میں بیٹھ کر بھی کیسے کامیابی سے چلائی جا سکتی ہے۔

ملین سے ز یادہ اس کی ممبر شپ فیس ہے۔ اشرافیہ کا یہ کلب ہے اور وہ بھی کمرشل۔ سوال یہ ہے کہ اس اشرافیہ کا بوجھ ریاستی وسائل کیوں اٹھائیں؟ نہ یہ حکومتی ضابطے کو خاطر میں لاتاہے نہ اسے پیپرا رولزکی کوئی پرواہ ہے۔ بے زبان عوام کسی سوسائٹی یا ٹاور میں زندگی بھر کی جمع پونجی سے فلیٹ خرید لیں تو اسے گرا دیا جاتا ہے لیکن اشرافیہ پورے 244 ایکڑ ہضم کر کے بیٹھی ہو تو قانون اس کی جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔

آگے چلیے۔ ، اسلام آباد کلب کے ساتھ ہی آگے ایک اور کلب ہے۔ اسے گنز کلب کہتے ہیں۔ اس کو 72 ایکڑ زمین لیز پر دی گئی ہے اور سپریم کورٹ نے چند سال پہلے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا تو معلوم ہوا بالکل مفت دی ہوئی ہے۔ حکومت نے کلب سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کے اس نوٹس پر مزید انکشافات اس وقت ہوئے جب سی ڈی اے نے عدالت کے حکم پر رپورٹ جمع کروائی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت پاکستان نے پاکستان سپورٹس بورڈ کو جوز مین لیز پر دے رکھی تھی اس نے اس زمین میں سے 44 ایکڑ ایک کلب کو عطا فرما دیے ہیں۔ سی ڈی اے نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ اسے حکم دیا گیا کہ گنز کلب کو مزید 28 ایکڑ زمین دی جائے اور اس کا کوئی کرایہ نہ لیا جائے۔

اسلام آباد کلب کے ساتھ ہی صرف 150 ایکڑ زمین پاکستان گالف فیڈریشن کو عطا فرمائی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی اور مسرت ہو گی کہ یہ زمین صرف 2اعشاریہ 41 روپے فی مربع فٹ سالانہ پر لیز کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک سنگ میل ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے خصوصی سیکٹرز میں جج، بیوروکریٹس اورافسران کے لیے پلاٹ مختص کرنے کی سکیم نہ صرف غیر آئینی اور غیر قانونی ہے بلکہ اس سے قومی خزانے کو 10 کھرب کا نقصان پہنچا ہے۔ اب اگر چند مرلوں اور کنالوں کی اس طرح کی تقسیم سے قومی خزانے کو دس کھرب کا نقصان پہنچ سکتا ہے تو اندازہ لگائیے کہ جنہیں ایکڑوں کے ایکڑ انتہائی معمولی اور علامتی قیمت پر لیز پر دیے جا چکے ہیں وہاں قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ کیا ہو گا۔

اسلام آباد دارالحکومت ہے مگر عوام کے لیے مناسب قیمت پر کوئی ایک ہائوسنگ سیکٹر نہیں بنایا جا سکا۔ وزارتوں اور اشرافیہ نے اسے مال غنیمت کی طرح تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ آئی بی کی سوسائٹی ہے، وہ سینیٹ کی، یہ وزارت صنعت کی سوسائٹی ہے، وہ ایوان صدر کی، یہ سپریم کورٹ کے ملازمین کا سیکٹر ہے اور وہ سپریم کورٹ کے وکیلوں کا۔ یہ اوور سیز کی وزارت کا سیکٹر ہے وہ منسٹری آف کامرس والوں کا۔

یوں لگتا ہے اسلام آباد کو انہوں نے چنگیز خان سے لڑ کر فتح کیا تھا اور اب یہ ان کا مالِ غنیمت ہے۔ ساری عمر مراعات کے مزے اٹھانے والے بیوروکریٹ آخر میں چند لاکھ کا پلاٹ ہتھیاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد کروڑوں میں بیچ کر منافع سے اسلام آباد کلب کی دھوپ میں چائے پیتے ہیں اور رات کو ٹی وی ٹاک شوز پر اس قوم کی رہنمائی فرما تے ہیں کہ احتساب کیسے ہونا چاہیے اور قومی وسائل کو برباد ہونے سے بچانے کے رہنما اصول کیا ہیں۔

یہ کالم چونکہ اسلام آباد سے متعلق تھا اس لیے لاہور کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لاہور کے رہنے والے اگر چاہیں تو خود حساب کتاب کر لیں کہ یہ جو اشرافیہ کے لیے جم خانہ کلب قائم ہے کیا یہ اشرافیہ کے آبائو اجداد میں سے کسی نے خرید کر ان کے لیے مختص کیا تھا یا یہ بھی اصل میں ریاست کی زمین ہے جو اشرافیہ کے حوالے کر دی گئی ہے تا کہ ان کی تفریح کا بوجھ بھی اس نیم خواندہ قوم پر ڈالا جائے جس کے شعور کی مبلغ سطح ابھی تک بس اتنی ہی ہے کہ اشرافیہ میں سے کوئی اٹھ کر قومی خزانے سے ایک گلی اور چار گٹر بنوا دے تو یہ مبارک سلامت کے بینروں سے پورا محلہ یوں بھر دیتی ہے جیسے اشرافیہ نے ابا حضور کے مربعے اور فیکٹریاں بیچ کر غریب رعایا کے لیے یہ گلی اور گٹر بنوائے ہیں۔

Check Also

Hum Kidhar Ja Rahe Hain

By Javed Ayaz Khan