1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Imran Khan Ko Easy Na Lein

Imran Khan Ko Easy Na Lein

عمران خان کو ’ایزی‘ نہ لیں

عمران خان نے حکومت سے نکلنے کی صورت میں مزید خطرناک ہونے کی بات کی اور یاروں نے اس پر گرہیں لگانا شروع کر دیں۔ لیکن یارانِ خوش فہم کو جا کر کوئی بتائے کہ عمران خان کی اس دھمکی کو ایزی، نہیں لیا جا سکتا۔ بلاشبہ وہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ مزید خطرناک، ہو کر دکھا دیں۔

اس دھمکی کے اندر ایک جہانِ معنی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو پاکستان کی ساری سیاسی تاریخ ہی انتشار اور اضطراب سے عبارت ہے لیکن اب تو یہ رسم شہر کا رواج بن چکی ہے۔ عمران خان سے حسن ِ ظن تھا کہ بد ترین کارکردگی کے ساتھ بھی وہ دوسروں سے بہتر ہوں گے لیکن عالم یہ ہے کہ اب رائیگانی کی دھول چہروں پر سجی ہے۔ 2014سے لے کر اب تک، قومی زندگی کا کوئی ایک دن ہیجان اور افراتفری کے احساس کے بغیر گزراا ہو تو بتائیے۔ تحریک انصاف حزب اختلاف میں ہو تب بھی ارتعاش برپا کیے رکھتی ہے اور اقتدار میں آ جائے تب بھی وہی کیفیت اس کے دامن لپٹی رہتی ہے اور ملک کا وزیر اعظم بے بس عوام کی مسیحائی کرنے کی بجائے سڑک پر آ کر مزید خطرناک ہو جانے کی نوید سناتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جس ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا، وہاں معاشی استحکام کیسے آ سکتا ہے؟ ایک آتا ہے، نکالا جاتا ہے، پھر دوسرا آتا ہے اور نکالا جاتا ہے۔ بس تماشا جاری ہے اور باری باری ہر گروہ کا کتھارسس ہوتا رہتا ہے۔ اس کھیل نے ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آنیوں اور جانیوں کے علاوہ ملک میں نہ کوئی خبر ہے نہ کوئی موضوعِ گفتگو۔

عمران خان کی افتاد طبع بتا رہی ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوری نظام کے آدمی نہیں ہیں۔ بے شک دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے وہ اسی پارلیمانی نظام میں وزارت عظمی تک پہنچ چکے ہیں لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے ہیٹ ہائوس، کا کوئی پودا اپنی سخت جانی اور مہربان آب وہوا کی بدولت جاڑے میں بھی سر سبز رہے۔ وزیر اعظم بننا ان کے لیے ایک چیلنج تھا، انہوں نے اپنے آدرش روند ڈالے مگر وزیر اعظم بن کر دکھا دیا۔ یہ ان کی قوت ارادی ہے، افتاد طبع نہیں۔

افتاد طبع کے اعتبار سے وہ ایک جنگجو ہیں جو میدان جنگ ہی میں نہیں، کمین گاہ اور حتی کہ اپنے خیمے میں بھی شمشیر برہنہ ہاتھ میں لیے رجز پڑھتا رہتا ہے۔ دوستی بھلے وہ نبھا پائے یا نہیں لیکنوَیر، (دشمنی) نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ چنانچہ آج بھی ان کے نزدیک احتساب کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ محترمہ جمائمہ خان پر ٹائلوں کا جھوٹا مقدمہ بنانے والے شریف خاندان کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ رہنے پائے۔

ساری عمر ایک ہیرو کی طرح گزارنے والے شخص کے گرد نرگسیت کا ہالہ بن جائے تو یہ ایک فطری سی بات ہوتی ہے۔ لیکن یہ ہالہ جب جنگجو مزاج کے رنگوں میں رنگا جاتا ہے تو تو پھر ایک قوس قزح وجود میں آتی ہے جسے حزب اختلاف کے کسی کرپٹ اور بے ایمان کا دو ٹکے کا رنگ برداشت نہیں ہوتا کہ قوس قزح کو اللہ کا دیا پہلے ہی بہت زیادہ ہے اسے اب کیا پڑی ہے کہ ایسے معمولی معمولی لوگوں کی باتیں سنے؟

چنانچہ کبھی میڈیا کی گستاخی سے مزاج برہم ہو جاتا ہے، کبھی حزب اختلاف کے نام روبکار بھجوائی جاتی ہے کہ یہ پارلیمان میں شور بہت مچاتی ہے، بات نہیں کرنے دیتی۔ ڈی چوک پر تو جیسے سب اللہ والے بیٹھا کرتے تھے، نہ شور ہوتا تھا نہ سمع خراشی اور یہ اللہ والے کبھی ایوان میں چلے جاتے توذمہ داری کے بوجھ سے ان کے سر جھکے ہوتے تھے کہ کہیں اس وقت کے وزیر اعظم کے سکون میں خلل نہ پڑے۔

یہی افتاد طبع ہے کہ تین سالوں میں جناب وزیر اعظم نے ملک کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں صرف ایک آدھ مرتبہ ہی جانے کی زحمت فرمائی ہے۔ قانون سازی کے لیے ایوان زیریں اور بالا، دونوں کی انہیں ضرورت نہیں۔ اس کام کے لیے جناب صدر مملکت کافی ہیں۔ جو جب، جہاں اور جیسے کی بنیاد پر آرڈی ننس جاری فرما دیتے ہیں۔

یہ جو چین جانے پر چین جیسا نظام لانے کی بات ہوتی ہے اور ایران جانے پر ایران جیسا نظام لانے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ معاملہ نظام کا نہیں، صاحب اقتدار کا ہے۔ جو چاہتے ہیں کہ کوئی روکنے والا ہو نہ ٹوکنے والا۔ حزب اختلاف کو صرف چور سمجھا جائے اور میڈیا کے اختلاف کو شر پسندی سمجھ کر اخبارات پڑھنا اور چینل دیکھنا بند کر دیے جائیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ میں بتایا جائے کہ پاکستان میں کرپشن میں حیران کن اضافہ ہو گیا ہے تو اس ادارے کی رپورٹ کو شریف خاندان کی شر پسندی قرار دے دیا جائے۔ مزاجِ یار کا مطالبہ ہے کہ راوی ہی نہیں، ستلج بھی چین لکھے۔

عمران خان، معلوم یہ ہوتا ہے کہ، اقتدار کے آدمی بھی نہیں۔ وہ تحمل کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی بنانے کا مزاج بھی نہیں رکھتے، وہ شمشیر بکف ہیں جو کہیں ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا اور ہر پہر تلوار سونت کر فصیل پر آ کر حریفوں کو چیلنج کر تا ہے۔ منصوبہ ساز اور مدبر نہیں، وہ ایک شاندار ایجی ٹیٹر ہیں۔ شام ڈھلے میدان سجا ہو، ترانے بج رہے ہوں، وہ ایک فاتح کی شان سے آئیں، حکمرانوں کے خلاف رجز پڑھیں، اقوال زریں سنا سنا کر داد سمیٹیں اور بنی گالہ لوٹ جائیں۔ کوئی سوال کرنے والانہ ہو۔ کوئی گستاخی کرنے کا نہ سوچے۔ کوئی ذمہ داری نہ ہو۔ کچھ کر کے دکھانے کی مصیبت نہ ہو۔

سوال یہ ہے کہ عمران خان کی مستقبل کی منصوبہ بندی میں بھی اگر صرف سڑک پر نکل کر مزید خطرناک ہونے جیسے ارادے ہیں تو پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو وہ میدان ہے جس کے وہ شہسوار ہیں اور حکومت کی کمزور ترین کارکردگی کے باوجود ان کی یہ صلاحیت اور قوت موجود ہے، ختم نہیں ہوئی۔ ان کی پاور بیس مجروح ضرور ہوئی ہے، ختم نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں ویسے بھی نئی حکومت کے چار ماہ گزرنے کے بعد گذشتہ حکومت غنیمت لگنا شروع ہو جاتی ہے۔

آج عمران خان اگر حکومت سے الگ ہو بھی جاتے ہیں تو آنے والا کون سا مسیحا ہو گا۔ اقتدار کے سارے کردارا ور سارے طلب گار انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک سا ہی تعارف اور ایک جیسا نامہ اعمال رکھتے ہیں۔ زوالِ مسلسل کی کیفیت ہے۔ ایک تماشا سا لگا۔ ڈرامہ بھی یکساں ہے اور اس کا پلاٹ بھی۔ بس اتنا ہوتا ہے کہ کردار بدل جاتے ہیں۔ ایک سیزن میں جو حزب اقتدار ہوتا ہے اگلے سیزن میں وہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے رجز پڑھ رہا ہوتا ہے اور ایک سیزن میں جو رجز پڑھ رہا ہوتا ہے اگلے سیزن میں اقتدار ملتے ہی اس کے سارے ڈائیلاگ بدل جاتے ہیں۔ ہانکا ہوتا ہے: آوے ای آوے۔ پھر ایک اور ہانکا ہوتا ہے اور شور مچ جاتا ہے: جاوے ای جاوے۔ ہماری کل سیاسی سیاسی تاریخ کا خلاصہ یہی آنیاں جانیاں ہیں۔

توکیا ہمارا مقدر ہیجان، احتجاج اور افراتفری کے سوا کچھ نہیں اورکیا سیاسی عدم استحکام کے اس ماحول میں معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے؟

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla