Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Bharat Ki Kisaan Tehreek, Chand Aham Pehlu

Bharat Ki Kisaan Tehreek, Chand Aham Pehlu

بھارت کی کسان تحریک۔۔چند اہم پہلو

بھارت میں کسانوں کی تحریک کامیابی کے ساتھ تمام ہوئی، سوال یہ ہے کہ اس میں ہمارے لیے بھی غوروفکر کا کچھ سامان موجود ہے؟ کسانوں کی یہ تحریک یقینا کوئی ایسی مثالی تحریک نہ تھی کہ اسے عزیمت کے باب میں سنگ میل قرار دے لیا جائے تا ہم ایک انسانی کاوش سے لپٹی ساری خامیوں کے باوجود اس تحریک میں چند چیزیں ایسی ضرور ہیں جو نگاہِ شوق کو متوجہ کر رہی ہیں۔ ان چیزوں کا دائرہ کار وسیع ہے اور اگر ہم چاہیں تو ان میں ہمارے لیے بھی غوروفکر کا کافی سامان موجود ہے۔

اس تحریک کا مرکز بھارتی پنجاب تھا۔ بھارت کے ہاں پنجاب ایک حساس موضوع ہے اور اس حساسیت کا ایک سیاق و سباق ہے۔ خالصتان تحریک کا مرکز یہی پنجاب ہے۔ پنجاب بھارت کا حساس علاقہ ہے۔ یہاں بھارت کے خلاف غیر معمولی تحریک چل چکی ہے اور اس وقت بھی راکھ میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ بہت آسان ہوتا اگر اس تحریک کو بھارت دشمن قرار دے دیا جاتا اور اس کا ناطقہ بند کر دیا جاتا۔ ایسا ہوتا تو یہ ایک فطری سا الزام ہوتا اور کسی کو اس پر کوئی حیرت نہ ہوتی۔ لیکن بھارت کے سیاسی بیانیے میں اس تحریک کو " بھارت دشمن " قرار نہیں دیا گیا۔ مودی کابینہ کے کسی ہونہارنے یہ نہیں کہا کہ یہ کسان پاکستان کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور انہیں پڑوس سے فنڈنگ ہو رہی ہے۔

سیاسی بلیم گیم ضرور ہوتی رہی لیکن کسی بھی مرحلے پر کسانوں کی تحریک سے بڑھتے دبائو کو زائل کرنے کے لیے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کا حربہ استعمال نہیں کیا گیا۔ کچھ آوازیں شروع میں اٹھیں تو بی جے پی اور شیو سینا کے رہنمائوں نے سختی سے انہیں رد کر دیا۔ چنانچہ آج جب حکومت نے کسانوں کے ساتھ معاملہ کر لیا ہے تو وہاں ایسا کوئی سوال بھی نہیں اٹھا کہ جو تحریک دشمن کے فنڈز سے چل رہی تھی اس سے حکومت نے اچانک معاملہ کیسے کر لیا؟ ایک تحریک اٹھی اور فطری طریقے سے اپنے مطالبات منوا کر تھم گئی، اپنے پیچھے غلطی ہائے مضامین کی دھول نہیں چھوڑ گئی۔ یہ رویہ ہمیں بتا رہا ہے کہ جمہوریت جب لولی لنگڑی ہی سہی، چلتی رہتی ہے تو اس کے سماج کی فکری ساخت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کسانوں کی اس تحریک میں یکسوئی تھی۔ وہ حکومت سے اپنی بات منوانے نکلے تھے اور آخر دم تک اسی نکتے پر یکسوئی سے کام رہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ شرکاء کی غیر معمولی مستقل مزاجی کو دیکھتے ہوئے حکومت سے منوانے، کی بجائے کسی مرحلے پر اس جدوجہد کو حکومت ہٹانے، کی تحریک میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہو۔ کسانوں کے مسائل معمولی نہ تھے۔ ان کی جدو جہد بھی غیر معمولی تھی۔ ان کی عزیمت بھی قابل تحسین تھی۔ لیکن انہوں نے کسی بھی مرحلے پر اپنی یکسوئی نہیں گنوائی۔ کسی کو اپنی تحریک ہائی جیک نہیں کرنے دی۔

شدت جذبات کے کسی کمزور لمحے میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اب حکومت کو گھر بھیجنا ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ ہتھیلی پر مطالبات رکھ کر یہ لوگ نکلے اور مطالبات مان لیے گئے تو واپس لوٹ گئے۔ یعنی انہیں علم تھا ن کا مقصد کیا ہے اور وہ اپنے مقصد تک محدود رہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اب مود ی اور بھارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور اس کو نکالنا ہی جملہ مسائل کا حل ہے۔ انہوں نے صرف یہ کیا کہ اپنی حکومت کے سامنے ایک مطالبہ رکھا اور اپنی حکومت سے وہ مطالبہ منوا کر واپس چل دیے۔

اس تحریک کے آغا ز پر یا اس کے دوران کسی کے دامن سے یہ سوال نہیں لپٹا کہ مقتدر حلقے، کیا سوچ رہے ہیں۔ تحریک کے نکتہ عروج پر کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ " مقتدر حلقے اپنا آئینی کردار ادا کریں "۔ معاشرے کے ایک طبقے نے جمہوری انداز سے جدوجہد کرتے ہوئے اپنا حق مانگا اور لے لیا لیکن اس سارے مرحلے میں وہاں کے مقتدر حلقے، کسی بھی حوالے سے زیر بحث نہیں آئے۔ نہ ایک پیج کا غلغلہ اٹھا نہ جمہوریت خطرے میں پڑی، نہ ستمبر کے ستم گر ہونے کی پیش گوئیاں ہوئیں، نہ مارچ میں کسی مارچ کے اندیشوں نے سر اٹھایا۔ نہ کوئی ضامن بنا نہ کسی سے ضامن بننے کی درخواست کی گئی۔ نہ ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی۔ نہ راتوں رات آرڈی ننس لا کر ہنگامی قانون سازی کرنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوئی۔ جمہوری اندا زسے ایک تحریک اٹھی اور منطقی انداز سے تھم گئی۔

تحریک کے دوران بہت سے نشیب و فراز آئے۔ اعداد و شمار میں اختلاف موجود ہے مگر بھارتی پارلیمان میں یہ آواز بھی اٹھی کہ تحریک کے دوران سات سو کے قریب کسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پولیس ٹارچر بھی ہوا، تشدد بھی ہوا اور روایتی پولیس کے حربے بھی استعمال ہوئے لیکن کسی بھی مرحلے پر اس تحریک نے ریاست دشمن، رنگ اختیار نہیں کیا۔ کسی نے اپنے ملک کو گالی نہیں دی۔ کسی نے اپنی ریاست کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا ہندوستان سے زندہ بھاگ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہندوستان اب رہنے کے قابل نہیں رہا، یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ ہدف بھی واضح تھا اور وہ یکسو بھی تھے کہ کچھ مطالبات ہیں اور حکومت سے منوانے ہیں۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ اور اس سے پیچھے بھی کچھ نہیں۔

یہ تحریک سماج کے ایک طبقے کی تحریک تھی۔ یہ طبقہ کسی سیاسی حمایت کے بغیر نکلا۔ اس نے کسی کا کندھا استعمال نہیں کیا۔ سیاسی قیادت کے ہاں التجا لے کر پیش نہیں ہوا کہ ازرہ کرم ہماری رہنمائی فرمائی جائے۔ یہ غیر سیاسی تحریک تھی جو یہ بتا رہی ہے کہ سماج کے کسی طبقے یا گروہ کے مسائل اور مطالبات ہوں تو ان کو سیاسی قیادت کی بیساکھیوں کے بغیر اپنے بل بوتے پر بھی تسلیم کروایا جا سکتا ہے۔ یہ پیش رفت سماج کے اہم مگر نظر اندا ز کیے جانے والے ان طبقات کے لیے ایک پیغام لیے ہوئے جو سیاسی سرپرستی کے بغیر اپنی بات کے ابلاغ کا ہنر نہیں رکھتے۔ سیاسی جماعتیں اپنی ساری خوبیوں کے باوجود سماج کے طبقات کی نمائندگی نہیں کرتیں۔ یہ استحصالی گروہ ہے جو بھیس بدل بدل کر مختلف جماعتوں کے ذریعے اقتدار میں گھستا ہے۔ اس طبقے سے یہ توقع رکھنا فضول کی مشقت ہے کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کو کبھی پارلیمان میں زیر بحث لائے گا اور انہیں حل کرے گا۔

بھارت کی کسان تحریک کے مطالعے کا حاصل یہ سوال بھی ہے کہ پاکستان بھی تو ایک ز رعی ملک ہے لیکن عالم یہ ہے کہ ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننے والا ملک دس ارب ڈالر کی تو محض گندم اور چینی بیرون ملک سے خریدنے پر مجبور ہے۔ کسان زرعی زمینیں بیچتا جا رہا ہے اور وہاں ہائوسنگ سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ گائوں کے گائوں ہاوسنگ سیکٹر خریدتا جا رہا ہے اور سب کے سب زرخیز مینوں والے۔ کسی کو احساس نہیں کہ یہی عالم رہا تو یہ معاشرہ کھائے گا کہاں سے؟ سوال وہی ہے کہ اس عالم میں یہاں کے کسان کی آواز کون بنے گا اورکیا کسان اپنی آواز خود اٹھا سکے گا۔

Check Also

Ghalati Kis Ki?

By Hamza Bhatti